ہندوستان میں جہاں بے شمار ناپسندیدہ اور غیر انسانی رسومات تھیں اُن میں ایک رسم جہیز کی بھی تھی۔ ستی ہونا بھی پتی مرنا سمجھا جاتا تھا۔ بیوہ اکثر نہ چاہتے ہوئے بھی دہکتی ہوئی آگ میں کُود جاتی ۔ MALE CHAUVINISM کی اس سے بدتر مثال نہیں مل سکتی۔ بالفرض میاں بیوی زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں تو پھر خاوند کو بھی بیوی کے مرنے پر اسی قسم کا طرز عمل اختیار کرنا چاہئے تھا۔ ایسا ہوتا نہیں تھا۔ زوجہ کی راکھ کے پھول ابھی سرد بھی نہ ہو پاتے کہ وہ دوسری دُلہنیا گھر لے آتا۔ ویسے تو ہندوستان میں ان گنت ستیاں ہوئیں لیکن ایک تاریخ کے سینے پر انمٹ نقوش چھوڑ گئی۔ رائے پتھورا (پرتھوی راج چوہان) کی دھرم پتنی سنجوگتا کا موت کو گلے لگانا اس طرح محبت کی ایک لازوال داستان رقم ہو گئی۔ سنجوگتا کے پریم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب اس کے والی ریاست پتا جے پال نے اس کا سوئمبر رچایا تو اس نے پھولوں کی مالا کسی راجکمار کے گلے میں نہ ڈالی بلکہ پرتھوی راج کے مجسمے سے لپٹ گئی جسے حقارت سے دربانوں کی صف میں کھڑا کیا گیا تھا۔ اس طرز عمل پر سب حیران ہو ہی رہے تھے کہ پرتھوی راج سو سواروں کی معیت میں نمودار ہوا اوراسے گھوڑے پر بٹھا کر لے گیا۔ 1192ء میں ترائین کی جنگ میں جب وہ محمد غوری کے ہاتھوں مارا گیا تو اتنی ہی باندیوں کو ساتھ لیکر سولہ سنگھار کئے رقص کناں سنجوگتا نے اپنا کومل بدن اگنی ماتا کے سپرد کر دیا۔
جہیز کی لعنت نے بھی معاشرتی زندگی پر کاری ضرب لگائی۔ لڑکے والے جہیز میں اتنی کثیر رقم مانگتے جسے دینا اکثر والدین کے لیے مشکل ہو جاتا۔ لڑکیوں کے بالوں میں چاندی اُتر آتی۔ چہرے پر جھریوں کا جال سا بن جاتا لیکن ’’ووا‘‘ نہ ہو پاتا۔ ایک قانون کے ذریعے جہیز پر پابندی لگا دی گئی مگر بوجوہ اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ جُرم ثابت کرنے کے لیے موثر شہادت درکار ہوتی جو بوجوہ دستیاب نہ ہو پاتی۔ ویسے بھی معاشرتی رویے مشکل ہی سے بدلتے ہیں۔
سیاست اور ڈرامہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سیاست دان ایک طرح سے ایکٹر بھی ہوتے ہیں۔ کب رونا ہے، کب ہنسنا ہے، کس موقع پر کونسا سوانگ بھرنا ہے۔ اس کی انہوں نے مشق بھی کی ہوتی ہے اور تجربہ بھی رکھتے ہیں! جہاندیدہ اور گرم و سرد چشیدہ سیاست دان عوام کو رُلانے ہنسانے اور محظوظ کرنے کا ملکہ بھی رکھتے ہیں۔
ویسے تو سب منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں لیکن اس سلسلے میں میاں شہباز شریف کے قدم کہیں آگے بڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ میاں صاحب اس فن کو آرٹ سے نکال کر سائنس کے زمرے میں لے آئے ہیں۔ زرداری کے متعلق اکثر کہا جاتا ہے ایک زرداری سب پہ بھاری! ہو سکتا ہے کسی حد تک یہ درست ہو لیکن میاں صاحب کے سامنے وہ بھی پانی بھرتا نظر آتا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ میاں صاحب نہ صرف بہت اچھے کریکٹر ایکٹر ہیں بلکہ ڈرامے کا اسکرپٹ بھی اکثر خود ہی لکھتے ہیں۔ پنجاب میں 12/14 سال وزیراعلیٰ رہے۔ اکثریت کے ساتھ اور بغیر اکثریت کے بھی! لیکن کسی کی مجال نہ تھی کہ ان پر حقیقی تنقید کرتا۔ پریس کانفرنس کرتے تو اس بات کی تسلی کر لیتے کہ اس میں بھی ’’ہم خیالوں‘‘ کی اکثریت ہے۔ وہ اس قسم کے سوالات پوچھتے جس قسم کی بائولنگ ان کے برادر بزرگ میاں نوازشریف کو کرائی جاتی تھی! حلوہ باؤلنگ، آزاد صحافی کی آواز اس ہڑ بونگ میں دب جاتی۔ طوطی کی آواز نقار خانے میں کون سنتا ہے! اس قسم کے سوال پوچھے جاتے جن پر قصیدے کا گمان ہوتا۔ میاں صاحب آپ نے سڑکوں کا جو جال بچھایا ہے۔ اس کے مقابل میں شیرشاہ سوری، شیر شاہ ساری (Sorry) لگتا ہے۔ آپ نے میٹرو بنا کر لاہور کو پیرس کیسے بنا دیا ہے؟ اورنج لاین ٹرین بناتے وقت 150 ارب روپے کی حیرت انگیز بچت کیونکر ممکن ہوئی ہے؟ ہارون رشید تو صرف رات کو بھیس بدل کر بغداد کا دورہ کرتا تھا۔ آپ تو دن رات لاہور کی گلیوں میں گشت کناں نظر آتے ہیں۔ کمال ہے بھئی، کمال ہے! نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں!۔ خدمت خلق حقوق العباد کے زمرے میں آتی ہے۔ جو عین عبادت ہے۔ اس اعتبار سے تو آپ کو ابدال کے کسی نہ کسی مقام پر کھڑا ہونا چاہئے تھا۔ کسر نفسی کا یہ عالم ہے کہ ہنوز خادم اعلیٰ کہلاتے ہیں۔ کمال ہے، بھئی کمال ہے! انٹرویو دینے سے پہلے اینکر کا شجرہ نسب دیکھتے ہیں۔ کہیں باغیانہ خیالات تو نہیں رکھتا! مخالف فریق کے متعلق کوئی نرم گوشہ تو نہیں ہے کوشش ہوتی ہے کہ سوالات پہلے پہنچ جائیں تا کہ پینل آف ایکسپرٹس ان کے ایکسرے کر سکے! بالفرض کوئی ایک آدھ چھبتا ہوا سوال پوچھ بھی لیا جائے تو یہ بالکل محسوس نہیںکرتے۔ جواباً داستان امیر حمزہ سنانا شروع کر دیتے ہیں۔ سوال گندم جواب چنا!
عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب بزدار صاحب کو ہدایت کی ہے کہ شہبازشریف کے اسٹائل میں اپنی پبلسٹی کریں! خان صاحب کا خیال ہے کہ بزدار کام زیادہ کرتا ہے‘ اس حساب سے کارہائے نمایاں کی تشہیر نہیں ہوتی۔ خان صاحب کی خواہش یا نکتہ نظر اپنی جگہ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نقل میں بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لئے چست، چالاک اور چٹک ہونا پڑتا ہے۔ جیمز بانڈ کی طرح چومکھی لڑنا پڑتی ہے۔ لانگ بوٹ پہن کر گٹرکے پانی میں اترا جاتا ہے۔ چنگچی رکشے میں بیٹھ کر ایک خاص پوز سے فوٹو اتروانا ہوتا ہے۔ جسم اندر گردن ایک مناسب حد تک باہر، ایک پاؤں رکشے میں تو دوسرا زمین پر 45 ڈگری کا زوایہ بناتا ہوا۔ ہر تیسرے روز خبر! آج وزیراعلیٰ نے پرروٹوکول کے بغیر شہر کا دورہ کیا۔ فلاں فلاں اہلکار کو معطل کیا۔ اعلیٰ حکام کی گوشمالی کی۔ یہ خبر سن کر لوگ اتنے ہی خوش ہوتے ہیں‘ جسقدر قدیم روم میں پنجرے میں بند مجرم کی درندوں سے چیڑ پھاڑ پر حاضرین تالیاں بجاتے تھے۔ لگتا نہیں کہ بزدار صاحب یہ سب کچھ کر پائیں گے۔ جتنی دیر میں یہ کرسی سے اٹھ کر کار تک پہنچتے ہیں، اتنے عرصے میں میاں صاحب آدھا شہر گھوم جاتے تھے۔ آنکھیں ماتھے پر رکھنے کا فن بھی نہیں جانتے۔
ہمارے دوست ملک صاحب دیگر کئی لوگوں کی طرح میاں صاحب کے بڑے مداح ہیں، اکثر سرزنش کرتے رہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے ایک جوہر قابل کی قدر نہ کی ایک دن قریباً جھڑکتے ہوئے کہنے لگے۔ ان جیسا وزیراعلیٰ آج تک پنجاب کی تاریخ میں نہیں آیا۔ He was dynamic dapper wily, go getter visionu ary and dare devil ہم نے کہا۔ استاد آخری لفظ کچھ کھلتا ہے۔ سن کر کہنے لگے۔ رہے نہ جاہل کے جاہل، یہ انگریزی زبان کی Nuances and semantics (نزاکتوں اور نازک فرق) کو نہیں سمجھتے۔ اب بتاؤ Gay dog کے کیا معنی ہیں؟عرض کیا۔ آپ سے مل کر آپ کو دیکھ کر معنی سمجھنے کی حاجت نہیں رہتی۔ میاں صاحب کا آخری ڈرامہ ’’ون ڈش‘‘ کا نفاذ تھا۔ مقصد یہ تھاکہ شادی بیاہ پر جو اسراف ہوتا ہے اس سے بچا جائے۔ زیادہ ڈشوں سے کھانے کا ضیاع ہوتا ہے اور غریب والدین پر ناروا مالی بوجھ بھی پڑتا ہے۔ اس کی خوب تشہیر کی گئی ۔ پولیس کے ہاتھوں باراتوں کو رسوا کیا گیا۔ باراتیوں کی جھاڑ پھونک کی گئی۔ دیگیں الٹنے کی تصاویر بھی اخباروں میں چھپیں۔ اس طرح بھرپور پبلسٹی ہوئی۔ ہر طرف داد و تحسین کے ڈونگرے برسنے لگے۔ چارسُو واہ ۔ واہ کا شور اٹھا…وزیر اعلیٰ ہو تو شہباز شریف جیسا!
اس شور و شین میں عوام ایک بنیادی بات فراموش کر بیٹھے غریب تو پہلے ہی ون ڈش کا ولیمہ کرتے ہیں! گلیوں ، محلوں اورسڑکوں پر قناتیں لگا کر اور دریاں بچھا کر کمرہ نما ماحول پیدا کیا جاتا ہے۔ اگر فرق پڑا ہے تو متمول اشخاص اور ہوٹلوں کو۔ جس رقم سے پہلے ہوٹل تین چار قسم کے کھانے دیتے تھے اسی پر اب ایک ڈش پر ٹرخانے لگے ہیں۔ ہوٹلوں اور ’’مارکیوں‘‘ نے قیمتیں کم نہ کیں۔ گویا ان کی چاندی ہو گئی۔ سمجھنے کی ایک اور بات بھی ہے۔ ولیمہ یا بارات ایک قسم کا PAID DINNER ہوتا ہے۔ ’’نیوندرا‘‘ دینا پڑتا ہے جس کی رقم بہرحال کھانے کی رقم سے کم ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی رسم ہے جو صدیوں سے جاری ہے۔ ایسی صورت میں بوجھ کیسے پڑ جاتا ہے؟ اس سے بھی دلچسپ بات وہ ہے جو گوجرانوالہ کے شیلٹن ہوٹل کے مالک اسلم بھولا نے ہمیں بتائی۔ کہنے لگے کھانے میں سب سے مہنگی آئٹم گوشت ہوتا ہے۔ ہر آدمی کی کھانے کی ایک CAPACITY ہوتی ہے۔ مثلاً لاہور میں آدھا کلو اور گوجرانوالہ میں تین پائو فی کس رکھا جاتا ہے۔ اب اگر ون ڈش میں مرغ پکتا ہے تو وہ نصف کلو مرغ کھائے گا۔ بالفرض ساتھ مٹن ’’سرو‘‘ کیا جاتا ہے تو وہ ایک پائو مٹن اور ایک پائو مرغ کھائے گا…اس طرح بچت وچت کچھ نہیں ہوتی۔ یہ محض خیال ہے یا پھر سیاسی چال ہے۔ اصل چیز جو جہیز پر پابندی ہے جو معروضی حالات میں نافذ العمل نہیں ہو سکتی۔ جو قدم بھی نیک نیتی سے اٹھایا جائے اس کی قدر اور تعریف ہونی چاہئے۔ مقصد اگر ذاتی تشہیر ہو تو پھر تنقید بھی لازم ہے۔ مقصد کسی کی تضحیک یا دل شکنی نہیں۔ ایک حقیقت تھی جو ہم نے ہلکے پھلکے انداز میں بیان کر دی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024