پاگل مودی وحشی حکومت شہریت کے قانون کی آڑ میں تعصب کی چتا بھڑکائے ہوئے ہے، مودی کے اس پاگل پن کے خلاف ننگ دھڑنگ سادھوئوں نے بھی بنارس میں طویل جلوس نکال کر مودی کی منافقت کو تارتار اور بے نقاب کردیا ہے۔ بی جے پی خود کو سادھوں کی جماعت کے طورپر ’برانڈ‘ کرتی ہے لیکن بدن پر بھنبھور ملے ’ننگ دھڑنگ‘ یہ ’ویراگی‘ موذی حکومت کے خلاف نکل آئے ہیں۔ ہر کسی سے بھارتی شہریت کا ثبوت مانگنے کی شرط نے ان سادھوئوں کو بھی بھڑکا دیا ہے، گلی گلی، جنگل جنگل اور قریہ قریہ پھرتے ان بنجاروں کے بدن پر کپڑا تک نہیں کاغذ پتر کہاں ہوں گے وہ دستاویزات کہاں سے لائیں گے ، وہ کیسے اور کس کس کو بتاتے پھریں گے کہ وہ ’ہندوستانی‘ ہیں۔ موذی اور امیت شا جیسی بدروحوں کی چال الٹی پڑگئی۔
شہریت بل کے نام پر موذی حکومت نے جو ’غدر‘ مچایا، اس کے خلاف یونیورسٹیوں کے طالب علم، سول سوسائٹی اور فنکار میدان عمل میں ہیں، پرامن احتجاج کرتے ان طالب علموں کا تعلق کسی ایک ذات، مذہب یا طبقے سے نہیں۔ اب یہ تحریک بن گئی ہے جو بھارت کے طول وعرض میں جاری ہے۔ بھارتی منفرد فنکار نصیرالدین شاہ نے تو اپنے تازہ ٹویٹ میں یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے رہنے والوں کے حق میں بھی آواز اٹھائی جائے۔ نصیرالدین شاہ کا ایک اور دلچسپ بیان بھی شائع ہوا کہ ’70 سال بعد مجھے پتہ چلا ہے کہ میں بطور مسلمان ہندوستان میں نہیں رہ سکتا۔‘ شہریت بل کے نام پر تعصب، مسلمان دشمنی اور نفرت کی جو آگ موذی نے امیت شاہ جیسی بدروح کے ذریعے بھڑکائی تھی، وہ انکے اپنے ’آشرم‘ میں جاگھسی ہے۔
سوشل میڈیا پر یہ وڈیو بڑی تیزی سے ’وائرل‘ ہور ہی ہے جس میں مقدس شہر ’ہری دوار‘ میں سادھوئوں کے ایک بہت بڑے جلوس کو دکھایاگیا ہے۔ یہ سادھوئوں کا تاریخی جلوس موذی حکومت کیخلاف نکالا گیا ہے جس میں دھمکی دی گئی ہے کہ شہریت بل واپس لیاجائے ورنہ یہ نانگے سادھو جنتر منتر کرکے اپنی کشتیاں متحرک کرکے بی جے پی حکومت گرادیں گے۔ لنگوٹ کی قید سے آزاد ان مادر زادوں کے پاس اپنی شہریت کا کوئی ثبوت، کاغذ یا ’پَتّرَ‘ نہیں۔ اگر کسی سادھو سے پوچھ لیاجائے کہ ثابت کریں کہ آپ بھارتی شہری ہیں، تو یہ ناممکن ہے۔ اس صورت میں بھارتی حکومت جو بڑے بڑے ’حراستی مراکز‘ بنارہی ہے، خدشہ ہے کہ وہ سب کے سب ان ’سادھوئوں‘ سے بھر جائیں گے۔ یہ بالکل ویسے ہی ’حراستی مراکز‘ ہیں جیسا کہ ہٹلر کے دور میں یہودیوں کے لئے بنائے گئے تھے۔ یہ وہ قید خانے ہیں کہ جہاں انسان جانوروں سے بھی بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
سادھو مارچ کے بعد ناقدین نے سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کی بھرمار کررکھی ہے۔ بعض کا کہنا تھا کہ ’’مودی اور امیت شاہ خود کو دنیا کا سب سے عقل مند اور تمام بھارتیوں کو بے وقوف سمجھتے ہیں، ہندوستانیوں نے انہیں خوب جواب دیا ہے۔ اب سادھوئوں کا سراپا احتجاج ہونا جلتی پر تیل کا کام کرگیا ہے۔ ’نانگے بابوں‘ نے کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ ایک دن انہیں احتجاج کے لئے سڑکوں پر آنا پڑے گاان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔‘‘
ناقدین کا یہ بھی موقف ہے کہ نصف بھارتیوں کے پاس شہریت کاتصدیق نامہ یا حکم نامہ موجود نہیں۔ حکومت اپنا وعدہ پورا نہیں کررہی بلکہ ان کے خلاف جارحانہ اقدامات کررہی ہے۔ ایڈووکیٹ عبدالرشید کے مطابق ’مودی اور امیت شاہ کو اپنی انتہاء پسندی سے واپس لوٹنا ہوگا ورنہ سادھووں کی صورت میں انہیں نانی یاد آجائے گی۔ بھگوان سے ملانے کے نام پر دنیا ترک کردینے والے خود خدا بن بیٹھتے ہیں۔ بھارت ہی نہیں دنیا کے مختلف خطوں میں ایسی مثالیں قائم ہیں، کسی نے پیسے کو خدا بنالیا، کوئی محبوب کو اور کوئی خواہشات کو خدا بنالیتا ہے۔ بھارت میں انسان کے خدا بننے کی فیکٹری کھلی ہے۔ ’’منی اوتار‘‘ ترن ساگرجو اس دنیا سے جاچکے ہیں، تیرہ سال کے تھے کہ سکول سے گھرواپس آتے ہوئے ایک جوگی سنیاسی یا گرو کے یہ الفاظ ان کے کان میں پڑے کہ انسان بھگوان بن سکتا ہے، یہ سْن کر کپڑے پہن کر سکول جانیوالے اس نوجوان نے کپڑے بھی اتار کر پھینک دئیے، گھر بھی چھوڑ دیا اورسکول بھی۔ ننگ دھڑنگ ’مْنی‘ بن گیا۔ ’سَنت،جوگی، سنیاسی، سادھو، ملنگ، ویراگی، یوگی‘ یہ وہ تمام الفاظ ہیں جنہیں سْن یا پڑھ کر فوری طورپر ایک خاص قسم کا حلیہ اور کردار ذہن میں آجاتا ہے۔ ایسے کردار برصغیر میں مختلف خطوں میں مختلف انداز و اطوار سے ملتے ہیں۔ کسی ایک مذہب، دھرم سے بھی انکا تعلق نہیں بلکہ یوں کہیے کہ اس کیفیت کے افراد آپ کو ہرجگہ ہی دکھائی دے سکتے ہیں۔
تارک الدنیا سادھو کا ایک انٹرویو بھی سامنے آیا جس میں اس نے اس ’سنیاسی‘ اور ’سنیاس‘ کے اصول بتائے ہیں۔ اس نے مثال دی کہ دنیا میں سانپ کو سانپ ہی کہیں گے لیکن اس میں ’منکے والا سانپ‘ کون سا ہے، وہ معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ سادھو کو آگ نہیں لگائی جاتی بلکہ جب اس کے جسم پر موت واقع ہوجاتی ہے تو اسے پانی میں بہایا جاتا ہے یا پھر دفن کردیاجاتا ہے۔ اسے مرنے کے بعد عام ہندو دھرم کی روایت کے مطابق آگ لگانا، یا جلانا گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ سادھو وہ ہوتا ہے جو اپنی زندگی ہی میں خود پر موت طاری کرلیتا ہے، اپنی خواہشات کو مار دیتا ہے، اس کی شادی ہوتی ہے، نہ اسے کپڑے کی حاجت ہوتی ہے، دن میں ایک بار کھاتا ہے، اولاد اس کی نہیں ہوتی، وہ سماج کو اپنی اولاد تصور کرتا ہے اور اس کی دیکھ بھال اور اس کے مسائل کے حل کے لئے اپنی زندگی وقف کردیتا ہے۔ وہ گھر بھی نہیں بناتا اور زندگی بھر سفر کرتارہتا ہے۔
سادھوؤں کے نام پر انسانوں کا جینا حرام کرنے والے خود سادھوئوں کانام بدنام کررہے ہیں، اگر واقعی سچے سادھو موجود ہیں تو موذی اور امیت شاہ جیسے موذیوں، مورکھوں اور شیطان کے چیلوں کو روکنا ہوگا۔ انسانیت کو بچانا ہوگا اور سارے نانگے سادھو میدان میں ہیں مودی اور امیت شا بغلیں جھانک رہے ہیں ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024