مولانا فضل الرحمان ایک مرتبہ پھر سرگرم ہیں۔ چار سدہ میں ختم نبوت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے حکومت پر تنقید کی ہے۔ مولانا کہتے ہیں کہ جعلی الیکشن کروا کر حکومت بنائی گئی امریکہ اور یورپ عمران خان کی پشت پر کھڑا ہے۔
مولانا فضل الرحمان پاکستانی شہری ہیں۔ سیاست ان کا حق ہے۔ وہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں یوں حکومت پرتنقید بھی ان کا بنیادی حق ہے۔ مولانا ایک سیاست دان ہیں اور اس حیثیت میں وہ اپنے سیاسی حریفوں کو نشانہ بھی بنا سکتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ختم نبوت کانفرنس اس کام کے لیے مناسب فورم ہے۔ کیا اس فورم سے سیاسی باتیں ہونی چاہئیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا اس فورم سے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر گفتگو کی جاتی، ختم نبوت کے حوالے سے یقیناً بہت بات کی گئی ہو گی لیکن تقریب کی مناسبت سے یہاں کسی بھی قسم کی سیاسی گفتگو نامناسب ہی سمجھی جائے گی۔ مختلف ویب سائٹس دیکھیں تو یہی سٹوری نظر آئے گی۔ ہر کوئی مولانا کی سیاسی گفتگو پر بات کرتا دکھائی دے گا۔ چونکہ مولانا کا سیاسی رنگ ان کے مذہبی رنگ پر غالب ہے۔ اس لیے وہ مذہبی اجتماعات کو بھی سیاسی اجتماع کے طور پر چلاتے ہیں۔وہ ہر اس سیاسی حکومت جس کے ساتھ ان کے معاملات طے نہیں پاتے تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ موجودہ حکومت سے تو ان کی خاص محبت ہے کیونکہ اس حکومت کے نتیجے میں مولانا کی برسوں سے حاصل سرکاری مراعات، مقام و رتبہ واپس لے لیا ہے۔ یوں اس غم میں وہ ہر وقت وفاقی حکومت پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔
چارسدہ میں ختم نبوت کے نام پر جمع ہونے والے مذہبی کارکنان کے لیے یہی بہتر تھا کہ ان کے ساتھ موضوع پر رہتے ہوئے گفتگو کی جاتی۔ پہلے ہی مولانا پر یہ الزام لگتا رہتا ہے کہ وہ مذہب کے نام پر سیاست کرتے ہیں یا پھر اپنی مذہبی جماعت کو سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ مذہبی اجتماعات کو بھی سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں تو لوگ متنفر ہوتے ہیں۔ مذہبی اجتماعات میں ایسی سیاسی تقاریر سے مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے کے بیانیے کو تقویت پہنچتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے پاس حکومت پر حملوں کے لاتعداد مواقع اور مقامات موجود ہیں۔ پھر خالصتاً ایسے تمام مذہبی اجتماعات کو سیاست سے دور ہی رکھنا چاہیے۔
جب ختم نبوت کانفرنس میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر باتیں کرتے کرتے ہوئے یو ٹرن لیکر مولانا فضل الرحمان عمران خان اور تحریک انصاف پر بات شروع کریں گے تو پھر لوگ باتیں کرینگے۔ یہیں مولانا نے آزادی مارچ کی تلخ یادوں کا ذکر بھی کیا۔
آزادی مارچ کے دوران اپوزیشن جماعتوں کے رویئے پر تنقید کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کیا مگر کسی نے ساتھ نہیں دیا۔ اس موقع پر مولانا نے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے اسلام آباد آزادی مارچ میں علامتی طور پر شرکت کو بھی عوام کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔
اس تقریر کے بعد کون ہو گا جو یہ بات کرے گا کہ مولانا مذہب اور سیاست کو ایک ساتھ نہیں چلاتے۔ یہ تقاریر واضح طور پر دلائل پیش کرتی ہیں کہ مولانا فضل الرحمن مذہبی پلیٹ فارم کو سیاست کے لیے اور سیاست میں بھی اقتدار کی سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کے اتنے شاندار موضوع کو سیاست سے پاک رکھا جاتا ایسی تمام تقاریر کسی اور وقت کے لیے سنبھال لی جاتیں۔ کون سا حکومت نے انہیں دوبارہ تنقید کا موقع نہیں دینا تھا۔
جہاں تک تعلق ان کی حزب اختلاف کی سیاست اور ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں سے ناراضگی کا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ مولانا نے سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا لیکن جواب میں سیاسی کھلاڑیوں نے مولانا کو فارغ کروا دیا۔ یہی پاکستان کی سیاست ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے ہمیشہ اپنے سیاسی مقاصد کے تحفظ کے لیے ساتھیوں اور جماعتوں کو استعمال کیا ہے ماضی میں یہی کام مولانا بھی کرتے رہے ہیں اس مرتبہ چونکہ انہیں مناسب نمائندگی نہیں مل سکی اس لیے اعتراضات بھی زیادہ ہیں۔ یوں کہیے کہ وہ پارلیمان سے باہر ہیں تو انہیں سب برا برا محسوس ہو رہا ہے۔ اگر مولانا کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا جائے،اہم وزارت عطاء کر دی جائے، سرکاری مراعات میں ان کا حصہ شامل کر لیا جائے تو اسی اسمبلی کی حیثیت و مرتبہ بدل جائے گا۔ یہ جائز بھی قرار پائے گی، محب وطن بھی ہو گی، عقلمند افراد پر مشتمل بھی ہو گی، کام کرنے والے وزراء بھی نظر آئیں گے، عمران خان بھی اچھے لگنے لگیں گے۔ چونکہ مولانا کو کچھ ملا نہیں اس لیے سب ناجائز ہے، حکومت کو کافروں کی حمایت حاصل ہے اور اس حکومت کو چلے ہی جانا چاہیے۔ بھلا ایسی حکومت کا بھی کوئی کام یا فائدہ ہے جو مولانا کو وزارت نہ دلا سکے۔ اگر مولانا فضل الرحمان کو اقتدار میں حصہ مل جاتا تو ایسی حکومت کو یورپ اور امریکہ کی پشت پناہی کا طعنہ کبھی نہ ملتا۔
بہتر یہی ہے کہ مولانا اپنی باری کا انتظار کریں۔ پاکستان کو درپیش مسائل کے لیے اچھے پاکستانی کی طرح تجاویز حکومت کو دیں۔ بلکہ حکومت کو تجاویز دینے کے بجائے مدارس کی بہتری کے لیے کام کریں۔ مدارس میں اصلاحات لائیں۔ وہ ایک اچھے دماغ کے حامل ہیں اصل مسئلہ سوچ کا ہے انہیں اپنی سوچ کو تعمیری بنانا ہو گا۔ انہیں میدان سیاست میں کامیابی کے لیے مذہب کا سہارا لینے کی عادت ترک کرنا ہو گی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گریس نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات میں کہا ہے کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل ضروری ہے۔ سیکرٹری جنرل صاحب مظلوم کشمیریوں کو کب تک یہ ظلم برداشت کرنا پڑے۔ کرفیو اور لاک ڈاون کو دو سو دن ہونے والے ہیں آج تک کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے حوالے سے اجلاس میں ذخیرہ اندوزی کے خلاف اقدامات کو مزید موثر اور تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ گندم، پیاز، ٹماٹر اور دیگر اشیاء کی اسمگلنگ کی روک تھام کو یقینی بنایا جائے گا جبکہ بنیادی اشیائے ضروریہ پر عائد ٹیکس میں کمی لانے کا معاملہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔اجلاس میں گندم کی طلب و رسد پورا کرنے اور قیمتوں میں استحکام کے لیے سرکاری طور پرگندم خرید کر اہداف کو دگنا کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ وزیراعظم نے گندم کی قیمتوں میں کمی کے لیے تجاویز پر فوری غور کرنے کا بھی کہا۔ وزیراعظم مہنگائی میں کمی کے لیے میٹنگز کر رہے ہیں لیکن تمام کوششیں حقیقی مسائل کو کم کرنے میں موثر تابت نہیں ہوں گی۔ اقدامات کی افادیت کے لیے انکا درست ہونا لازم ہے۔ بہرحال وزیراعظم کی کوششوں کی تعریف کی جانی چاہیے البتہ ان اقدامات کے نتائج کے لیے تعریف کا ملنا ممکن نہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024