یہ نظریہ باطل ہو گیا کہ پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہو گیا۔یہ نظریہ بھی باطل ہو گیا کہ کشمیر پر کوئی طاقت پاکستان کی ہم نوا نہیں۔ ترک صدر تشریف لائے اور انہوںنے واضح الفاظ میں کہا کہ کشمیر اور ایف اے ٹی ایف پر جو پاکستان کا موقف ہے ۔ وہی موقف بردار ملک ترکی کا ہے اور آج سیکرٹری جنرل یو این او آئے ہیں اور وہ بھی کہتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل ہوناچاہیے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ وہ کشمیر کے سفیر اور وکیل بنیں گے اور انکی کوششیں رنگ لا رہی ہیں۔ترک صدر کا خطاب تو ہر جگہ لوگوں نے دانتوں میں انگلیاں دبا کر سنا۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ کوئی مہمان بول رہا ہے بلکہ لگتا تھا کہ کوئی محب وطن پاکستانی لیڈر بول رہا ہے اور پاکستانی عوام کے دل کی پکار بلند کر رہا ہے۔ ترک صدر نے کئی بار کہا ہے کہ پاکستان ان کادوسرا گھر ہے۔ہر ترک پاکستان سے والہانہ محبت کرتا ہے، اس کاا حساس ہر ا س پاکستانی کو ہو جاتا ہے جو کسی بھی ترک ہوائی اڈے پر اترتا ہے، حضرت ایوب انصاری ؓ کے مقبرہ کی زیارت کرتا ہے ۔ رومی رقص میں شرکت کرتا ہے یا شامی مہاجریں کی مدد لے کر شام ا ور ترکی کی سرحد میں واقع مہاجریں کے کیمپوں کا رخ کرتا ہے۔وہ دیکھتا ہے کہ یہ کیمپ نہیں ہیں،بلکہ ہر ترک نے اپنا آدھا گھر شامی مہاجر کو دان کر رکھا ہے۔ہر ترک نے اپنی دکان پر شامی مہاجریں کو بٹھا رکھا ہے اور ہر ترک نے اپنا آدھا دفتر شامی مہاجر کے حوالے کر رکھا ہے۔ یہ مواخات مدینہ کی بہترین مثال ہے اور وزیر اعظم عمران خان بھی پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔
ترک صدر نے عالم ا سلام کو درپیش مشکلات پر وہی موقف اختیار کیا جو پاکستان کا موقف ہے جس سے لگتا ہے کہ پاکستان ا ور ترکی دو جسم اور ایک جان کی مثال ہیں ترک صدر نے تاریخ کے صفحات کھولے اور تحریک خلافت کے راہنمائوں کو سلام پیش کیا۔خلافت ختم کر کے عالمی قوتوںنے عالم اسلام کو پارہ پارہ ہی کر دیا تھا۔ اس کا دکھ ترک صدر کو اچھی طرح ہے اور وہ دوبارہ عالم اسلام کو اسی شکل میں دیکھنے کے خواہاں ہیں۔وہ او آئی سی کومتحرک دیکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ کشمیر کو بھارتی غلامی سے
ا ٓزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔وہ فلسطین کی ریاست کی آزادی چاہتے ہیں۔ وہ عالم اسلام کے مناقے دور کروانا چاہتے ہیں ۔ ترک صدر نے پاکستان کے معاشی مسائل کاا دراک بھی کیا اور اپنی اس پالیسی کا کھل کر اظہار کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ تجارتی حجم میں اضافہ چاہتے ہیں۔ اور مرحلہ وار اسے ایک بلین ڈالر سے بڑھا کر پانچ بلین ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ اہداف کوئی ایسا خواب نہیں کہ جس کی تعبیر مشکل اور ناممکن ہے۔ دونوں ملک اپنی پالیسیوں کو ایک دوسرے کے مفادات کے مطابق ڈھالیں تو سب کچھ ممکن ہے اور من تو شدم اور تو من شدی کی تصویر سامنے آ سکتی ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان وفد کی سطح پر بھی مذاکرات کے دو رچلے۔ اور کئی ایم او یوز پر دستخط کئے گئے۔ ترکی پہلے ہی پاکستان میںمقدور بھر سرمایہ کاری کر رہا ہے اور ٹیکنالوجی بھی شیئر کر رہا ہے میٹرو بسوں کا نظام اس کا مرہون منت ہے۔ شہروں کی صفائی بھی ہم نے اس کے ماڈل سے سیکھی۔ بجلی کے منصوبوں میں ترکی کا تعاون بھی الم نشرح ہے۔ ترکی تو پاکستان کو بہت کچھ دینا چاہتا تھا مگر ماضی کی حکومت نے ترکی بول بول کر ترکی کو بیوقوف بنایا اور کئی منصوبوں کے اربوں روپے خورد برد کر لیے۔ عمران خان نے ایک شفاف نظام تشکیل دیا ہے اور توقع رکھنی چاہئے کہ ہمارا کرپٹ مافیا لکڑ ہضم پتھر ہضم کا تجربہ نہیں دہرائے گا۔ ترکی کی خاتون اول بھی پاکستانیوں سے گھل مل گئیں ، انہوں نے پاکستانی خواتیں کے نمائندہ اجتماع سے خطاب کیا اور دل کھول کر رکھ دیا۔ ترک لوگ دل کی بات زبان پر لانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ دنیا بھر کے حکمران غیر ملکی دورے کرتے ہیں۔ مودی صاحب بن بلائے نواز شریف کی نواسی کی تقریب میں آن دھمکے۔ واجپائی بھی ایک بس میں بیٹھے اور لاہور پہنچے جہاںمینار پاکستان پر انہوںنے خطاب میں تسلیم کیا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے ،اگر میرے علم میں یہ نہیں کہ کبھی کسی غیر ملکی مہمان نے وفور جذبات میں آ کر میزبان ملک کا قومی ترانہ بھی گایا ہو۔ ہم بھارت جاتے ہیں۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ونڈے ماترم کے الفاظ بھی زبان پر لائیں مگر ترک صدر طیب اردوان نے نئی اور نادر مثال پیش کی اور کشور حسین شاد باد۔ تو نشان عزم عالی شان سنا یاا ور سننے والے جھوم جھوم اٹھے، یہ ترک صدر کی پاکستان سے محبت کی لازوال مثال ہے۔ جو شاید کوئی ا ور نہ دہرا سکے گا۔ترکی اور پاکستان تاریخ ثقافتی اور مذہبی رشتوں میں منسلک ہیں۔ ایک شاندار ماضی ہے جس پردونوں ملک فخر کر سکتے ہیں اس دور کے احیاا ور نشاۃ ثانیہ کے لئے کئی کوششیں ہوتی رہی ہیں، ایکو بنی۔ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے کوششیں ہوئیں۔ کوئی دن آتا ہے کہ ہم ایک ہوں گے، ایک ہو کر سوچیں گے ا ور متحد ہو کر آگے بڑھیں گے۔ ترک صدر کے دورے بے پختہ بنیادیں رکھ دی ہیں۔ ان پر ایک شنادارا ور فلک بوس عمارت تعمیر ہو گی اور آسمان کی بلندیوں کو چھوئے گی۔
پاکستانی قوم اور کشمیری مسلمان ترک صدر طیب اردوان کے مشکور ہیں کہ انہوںنے حق کی آواز بلند کی۔ اور مظلوموں کو زبان بخشی اور بھارت کی ناراضی کی قطعی پروا نہیں کی۔ پاکستان اور ترکی اکٹھے ہو کر عالم اسلام کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور اغیار کے استحصالی نظام کو جڑ سے اکھاڑ سکتے ہیں۔پاک ترک دوستی زندہ باد پائندہ باد۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024