سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے، بلا شبہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کیلئے ایک اہم سنگ میل ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مختلف شعبوں‘ خصوصاً سرمایہ کاری اور تجارت میں فقیدالمثال اضافہ ہو گا۔ اس سے جہاں پاکستان کی معیشت کو فائدہ ہو گا، وہاں سعودی عرب نے جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں مثلاً بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال کے ساتھ وسیع اقتصادی اور تجارتی روابط کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اس میں بھی وسعت پیدا ہو گی۔ پاکستان کے خارجہ تعلقات میں مشرق وسطیٰ کو ایک خاص حیثیت حاصل ہے‘ مگر سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی اہمیت الگ ہے۔پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے پاکستان کے ساتھ مزید سرمایہ کاری کریں گے، امید ہے عمران خان کی قیادت میں پاکستان ترقی کرے گا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان 20 ارب ڈالر مالیت کے مختلف منصوبوں پر معاہدے اور ایم او یوز پر دستخط کیے گئے۔ پاکستان کی جانب سے وزیر خزانہ اسد عمر اور سعودی وزیر خزانہ نے معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے، جس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے معزز مہمان کے اعزاز میں عشائیہ دیا جس میں کابینہ کے اراکین اور آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے بھی شرکت کی۔عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا کہ پاکستان آکر بے حد خوشی ہوئی، پاکستان ہمارا دوست اور بھائی ملک ہے، ولی عہد کی حیثیت سے مختلف ممالک کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور پاکستان پہلا ملک ہے۔یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا دورہ سعودی عرب ہی کا کیا تھا۔
درحقیقت سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان، حکومتوں کی تبدیلیوں سے قطع نظر، ہر دور میں محبت اور اخلاص کے ناقابل شکست برادرانہ اور دوستانہ رشتے استوار رہے ہیںلیکن آج سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورئہ پاکستان سے ان روابط میں ایک نئی معنویت واقع ہورہی ہے۔بائیس کروڑ پاکستانیوں کا روحانی وطن ہونے کے ناتے سرزمین حرم روزِ اول سے ہماری عقیدتوں کا محور ہے جبکہ پچھلے کئی عشروں سے لاکھوں پاکستانی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں سعودی مملکت کی تعمیر و ترقی کیلئے خدمات انجام دے کر وطن عزیز کو قیمتی زرمبادلہ فراہم کررہے ہیں۔ سعودی عرب نے1965اور1971کی جنگوں میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔ پچھلی صدی کے آخری عشروں میں افغانستان میں بیرونی جارحیت کے دوران بھی سعودی حکومت نے پاکستان کے موقف کی مکمل تائید کی۔ 1998میں ایٹمی دھماکوں کے بعد جب ہمیں عالمی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو سعودی عرب نے ایک سال تک یومیہ 50ہزار بیرل تیل ادھار پر فراہم کیا۔2005 کے تباہ کن زلزلے کے موقع پر سعودی عرب ان ملکوں میں سرفہرست تھا جنہوں نے دل کھول کر پاکستان کی مدد کی۔2010اور2011کے سیلاب کے موقع بھی برادر مسلم ملک ہمارے ساتھ کھڑا رہا۔ براہ راست مالی امداد کے علاوہ سعودی عرب نے پاکستان میں انفراسٹرکچر، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں کئی فلاحی کاموں میں پاکستان کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔ ہمارے تعلقات کی ایک بڑی وجہ اور اہمیت یہ بھی ہے کہ سعودی عرب میں خانہ خدا اور روضہ رسولؐ موجود ہیں۔ خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ میں تیل کے ذخائر سب سے زیادہ سعودی عرب کے پاس ہیں۔ تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم ’’اوپیک‘‘ میں سعودی عرب تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، اور تیل کو عالمی معیشت میں جو حیثیت حاصل ہے، اُسی کی وجہ سے تمام صنعتی ممالک، سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں بھی یہ محرک نمایاں طور پر کارفرما ہے۔ مثلاً ادائیگیوں کے عدم توازن پر قابو پانے کیلئے سعودی عرب نے دیگر امدادی اقدامات کے علاوہ پاکستان کو تین سال کیلئے تیل مہیا کرنے کا وعدہ کیا ہے، جس کی ادائیگی بعد میں کی جائے گی۔ پاکستان کو سعودی عرب کی طرف سے یہ رعایت پہلی دفعہ نہیں ملی۔ اس سے قبل جب پاکستان نے 1998ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا جواب دینے کیلئے، ایٹمی دھماکے کئے تھے، تو اس وقت بھی سعودی عرب نے موخر ادائیگی کی بنیاد پر پاکستان کو تیل سپلائی کیا تھا۔ اور بعض با خبر ذرائع کے مطابق سعودی عرب نے اس وقت جو تیل پاکستان کو سپلائی کیا تھا، اس کی رقم کبھی وصول نہیں کی۔ اُسی موقعہ پر سعودی عرب نے پاکستان کو زر مبادلہ کی کمی پر قابو پانے کیلئے فوری طور پر 100 ملین ڈالر کا قرضہ فراہم کیا تھا۔ اسی لیے یہ جو کہا جاتا ہے کہ ’’ہر آڑے وقت پر سعودی عرب پاکستان کی امداد کو پہنچا ہے، بہت حد تک درست ہے۔ ایسا کرتے وقت سعودی عرب نے کسی کی ناراضگی اور دبائو کی کبھی پروا نہیں کی۔ آج کے مقابلے میں 1998ء میں پاکستان کو زیادہ مشکل اور پیچیدہ صورت حال کا سامنا تھا کیونکہ ایٹمی دھماکے کرنے کی وجہ سے عالمی رائے عامہ پاکستان کے خلاف تھی اور سعودی عرب پر امریکہ کا دبائو تھا‘ لیکن دھماکوں کے فوراً بعد جب اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف وفد کے ہمراہ سعودی عرب پہنچے تو سعودی قیادت نے پاکستانی قیادت کو تسلی دی اور کہا کہ سعودی عرب اس موقعہ پر پاکستان کو مشکل میں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے ولی عہد شہزادہ عبداللہ (جو بعد میں شاہ فہد کے بعد سعودی عرب کے فرمانروا بنے) نے پاکستان کے لیے سعودی امداد فراہم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔
بہرکیف پاکستان کو مضبوط، مستحکم اور پھلتا پھولتا دیکھنے میں سعودی عرب کی دلچسپی محض حالات کی تبدیلی یا کسی شخصیت کی کاوش کی محتاج نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایک ایسے خطے کا حصہ ہے‘ جس میں واقع تقریباً تمام ممالک کے ساتھ سعودی عرب کے دو طرفہ معاشی اور تجارتی تعلقات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان میں بھارت بھی شامل ہے۔ اگرچہ جغرافیائی اتصّال اور مذہبی اور ثقافتی رشتوں کی بنا پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سپیشل روابط قائم ہیں؛ تاہم جنوبی ایشیا بشمول پاکستان‘ کے ساتھ تعلقات کو مزید فروغ دینے کے پیچھے کارفرما محرکات میں سب سے زیادہ اہم سعودی عرب کا اپنا قومی مفاد ہے۔ یہ مفاد معاشی اور سیاسی ہونے کے علاوہ سٹریٹیجک بھی ہے۔ سعودی عرب کو یقین ہے کہ ان مفادات کے حصول میں ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان کے علاوہ ایک پْرامن جنوبی ایشیا بھی اہم اور ضروری کردار ادا کر سکتا ہے۔ اسی لیے پاکستان کو سعودی عرب کے ساتھ بڑھتے ہوئے دو طرفہ تعلقات کو ایک وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے‘ اور ایسا کرتے وقت لازمی ہے کہ ہم دیکھیں کہ کن مسائل پر پاکستان سعودی عرب کا ساتھ دے سکتا ہے اور کہاں پاکستان کو اپنے قومی مفاد کیلئے الگ پالیسی اختیار کرنا ضروری ہوگا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کا اس سلسلے میں موقف واضح ہے۔ امید ہے کہ سعودی قیادت بھی اس سے آگاہ ہو گی۔
بہرکیف شہزادہ محمد بن سلمان بدلتی ہوئی دنیا میں اپنے ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے نئی راہیں کشادہ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔اس مقصد کے لیے پاکستان ان کے سفر کی پہلی منزل ہے۔ اس کے بعدچین، بھارت اور ملائیشیا بھی ان کے پروگرام میں شامل ہیں۔ محمد بن سلمان کے دورے میں پاکستان کے مختلف بڑے ترقیاتی منصوبوں میں کئی ارب ڈالر کی سعودی سرمایہ کاری کا امکان ہے۔ وزیراعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق دائود اور چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ ہارون شریف کے مطابق سعودی وفد کے دورے میں مفاہمت کی چار درخواستوں پر دستخط ہوں گے،پھر ان کی فزیبلٹی تیار ہو گی جس کے بعد پتا چلے گا کہ کتنے ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی۔پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کی نگرانی وزیراعظم عمران خان اورشہزادہ محمد بن سلمان کی مشترکہ سربراہی میں سعودیہ پاک سپریم کوارڈی نیشن کونسل کرے گی۔اس منظم بندوبست سے واضح ہے کہ سب کچھ بہت سوچ سمجھ کر اور پیشہ ورانہ تقاضوں کے مطابق کیا جارہا ہے جس کی بناء پر کامیابی کے امکانات بہت روشن ہیں۔مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنمائوں سمیت ملک کی پوری سیاسی قیادت اور تمام شعبہ ہائے زندگی کے نمائندوں کی جانب سے سعودی ولی عہد کے دورے کا فراخدلانہ خیر مقدم اس حقیقت کا زندہ ثبوت ہے کہ پاک سعودی دوستی تمام اختلافات سے بالاتر ہے اور باہمی تعلقات میں اس نئے دور کا آغاز ان شاء اللہ بہت جلد دونوں ملکوں کی ترقی و خوشحالی کے نئے باب وا کرنے کا ذریعہ بنے گا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024