اہلاً و سہلاً مرحبا عزت مآب ولی عہد سعودیہ شہزادہ محمد بن سلمان
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے پاکستان کے تاریخی دورہ پر اسلام آباد پہنچنے پر فقیدالمثال استقبال کیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان کابینہ کے ساتھ نور خان ایئر بیس پرشاہی مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔انہیں اکیس توپوں کی سلامی دی گئی اورپاک افواج کے دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔ سعودی ولی عہد اور وزیراعظم پاکستان کے درمیان وفود کے ساتھ پاک سعودی تعلقات پر بات چیت ہوئی۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاشی تعاون کے آٹھ سمجھوتوں پر دستخط دورے کی اہمیت کا اظہار ہے۔ جن کی مالیت بیس ارب ڈالر ہے، ان میں بلوچستان میں آئل ریفائنری کی تعمیر سمیت پاکستان میں سرمایہ کاری کے سمجھوتے شامل ہیں۔ آج پیر کے روز صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ایوان صدر میں ولی عہد کے اعزاز میں ظہرانہ دیں گے۔ اس ظہرانہ کے موقع پر ولی عہد دورہ پاکستان کے سلسلے میں پاکستانی عوام کے نام پیغام بھی دیں گے۔ ایوان صدر کے ظہرانہ میں مسلح افواج کے سربراہ‘ کابینہ کے ارکان اور بعض اہم شخصیات اور غیر ملکی سفیر بھی مدعو کے جائیں گے۔ ولی عہد کے دورہ کے حوالے سے وفاقی دارالحکومت میں سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے۔ سعودی ولی عہد کی تصاویر پر مبنی خیر مقدمی بینرز اسلام آباد کی اہم شاہراہ پر آویزاں کردیئے گئے تھے۔ ولی عہد کے دورے سے ایک روز قبل ہی وفاقی دارالحکومت میں جگہ جگہ سعودی ولی عہد کی تصاویر پر مبنی خیر مقدمی بینرز آویزاں کر کے شہر کو دلہن کی طرح سجا دیا گیاتھا۔اس موقع پروفاقی دارالحکومت میں تعطیل کی گئی۔ محمد بن سلمان اور ان کے وفد کی سکیورٹی کا انتظام پاک فوج کے ذمہ ہے۔ سینٹ کا اجلاس جو پیر کو منعقد ہونا تھا وہ بھی عظیم رہنما کے دورے کے باعث مؤخر کر دیا گیا۔ پیر کو ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس بھی منگل تک مؤخر کر دیا گیا ۔پاک سعودیہ تعلقات پر نظر رکھنے والے حلقوں کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان کے دو روزہ تاریخی دورے سے پاک سعودی عرب کے برادرانہ تعلقات نئی بلندیوں تک پہنچیں گے۔
ولی عہد کے ہمراہ شاہی خاندان کے اہم افراد کے ساتھ وزراء اور کاروباری شخصیات پر مشتمل ایک بڑا وفد بھی پاکستان آیا۔وزیراعظم عمران خان اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، سائنس، انفارمیشن اور میڈیا سمیت مختلف جوائنٹ گروپس کے اجلاس کی مشترکہ صدارت بھی ولی عہد کے دورے کے پروگرام کا حصہ ہے۔ سعودی عرب سے تیل موخر ادائیگی پر لینے کے تمام انتظامات مکمل ہو گئے۔ پاکستان کو 3 ارب ڈالر کا ماہانہ 25 کروڑ ڈالر کا تیل موخر ادائیگیوں پرملے گا۔ وزیرِ اعظم عمران خان اور سعودی ولی عہد کونسل کی مشترکہ صدارت ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ سپریم کونسل دونوں ممالک کے درمیان سیاسی اور معاشی ترقی کے اہداف طے کرے گی، دونوں ممالک کے درمیان سفارتی، دفاعی اور ثقافتی شعبوں میں تعاون کے لیے 3 پلرز قائم کیے گئے ہیں۔ پاک سعودی رابطوں کے بعد تینوں پلرز کی اسٹیرنگ کمیٹیاں بھی تشکیل دے دی گئیں، پہلا پلر پولیٹیکل اور سیکورٹی کا ہے، سعودی عرب کی جانب سے خارجہ، دفاع ، داخلہ کی وزارتیں سیکورٹی پلر میں شامل ہیں، سعودی ہوم لینڈ سیکورٹی اور جنرل انٹیلی جنس کے حکام بھی اس میں شامل ہیں۔پاکستان کی جانب سے خارجہ، دفاع اور داخلہ کے وزرا نمائندگی کریں گے، آئی ایس آئی بھی سیکورٹی پلر میں شامل ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کا دوست رہا ہے،پاکستان سعودی عرب کوعالمی سطح پر ایک طاقت ور ملک کے طورپر دیکھنا چاہتا ہے،شہزادہ محمد بن سلمان کے دورے پر پوری قوم خوش ہے اورہم سب انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ العربیہ کو انٹرویو میں وزیراعظم نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے مملکت میں متعارف کرائی گئی اصلاحات کو تاریخ ساز اورعصری تقاضوں سے ہم آہنگ قرار دیا۔ انہوں نے کہا دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی تعلقات قائم ہیں۔ اسی تاریخ سازتعلق کی بدولت سعودی ولی عہد کا پاکستان میں وسیع پیمانے پرخیرمقدم کیا جا رہا ہے ۔
سعودی عرب کے تینتیس سالہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو دنیا ایک جواں سال اصلاحات پسند لیڈر کی حیثیت سے جانتی ہے۔ 31 اگست 1985 ء کو پیدا ہوئے وہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ محمد بن سلمان نے شاہ سعود یونیورسٹی ریاض سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ وہ کئی سرکاری اداروں میں کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ جب شاہ سلمان بن عبدالعزیز ریاض کے گورنر کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے تو محمد بن سلمان اپنے والد کے مشیر کے طور پر کام کرتے رہے۔ نائف بن عبدالعزیز کی موت کے بعد شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو کراؤن پرنس بنایا گیا۔ جنوری 2015 ء میں شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد شاہ سلمان بن عبدالعزیز شاہ عبداللہ کی جگہ سعودی عرب کے فرمانرواء بنے۔ شاہ سلمان نے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو ملک کا وزیر دفاع مقرر کیا۔بعد ازاں انہیں ولی عہد نامز کیا گیا۔ محمد بن سلمان نے کراؤن پرنس بننے کے بعد سعودی عرب میں کئی اصلاحات شروع کیں۔ انہوں نے سعودی عرب کی معیشت کا انحصار تیل سے ختم کرنے کے لئے اقتصادی اصلاحات کا پروگرام دیا۔ جس کے تحت سعودی عرب کو صرف تیل برآمد کرنے والے ملک سے بدل کر صنعت اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ایک جدید ملک بنانے کے لئے ویژن 2030 ء کا اعلان کیا۔ اس وقت سعودی عرب کے تمام شہروں کی اہم شاہراہوں پر ولی عہد محمد بن سلمان کی تصاویر کے ساتھ ان کے ویژن 2030 ء والے بڑے بڑے ہورڈنگز نظر آتے ہیں۔ محمد بن سلمان نے سعودی عرب کے اندر جمہوری اصلاحات کا بھی آغاز کیا۔ انہوں نے خواتین کے لئے ڈرائیونگ پر پابندی کا خاتمہ کیا اور خواتین کے لئے معاشی اور سماجی ترقی میں کھیلوں میں شرکت سمیت فعال کردار ادا کرنے کے لئے مواقع پیدا کئے۔ محمد بن سلمان نے ملک کے اندر کرپشن کے خاتمے کے لئے بھی اقدامات اٹھائے،ان اقدامات سے حکومت پاکستان بھی استفادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے اہم شخصیات سے ناجائز طور پر حاصل کی گئی دولت سے 107 ارب ڈالر واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرائے۔ جواں سال سعودی لیڈر نے گزشتہ سال امریکہ کا طویل دورہ کیا جہاں انہوں نے صدر ٹرمپ اور امریکی کانگریس کے لیڈروں سے ملاقاتیں کیں۔ امریکی میڈیا کو دیئے گئے انٹرویوز میں محمد بن سلمان سے سعودی عرب کے مستقبل کے بارے میں اپنے ویژن سے امریکی عوام کو آگاہ کیا۔ محمد بن سلمان پاکستان کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ امریکہ کے دورے کے بعد پاکستان‘ بھارت اور چین کا ان کا دورہ دوسرا بڑا غیر ملکی دورہ ہے جس میں وہ سعودی عرب میں اپنی اصلاحات کے بارے میں ان ملکوں کے لیڈروں سے اپنا ویژن شیئر کریں گے۔ پاکستان کے دورے میں وہ سب سے بڑی غیرملکی سرمایہ کاری کا اعلان کررہے ہیں۔ جس سے دوسرے ملکوں کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب ملے گی۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان کے بعد بھارت کا دورہ کرینگے۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے خاتمے اور دونوں ملکوںپر اپنے مسائل بات چیت کے ذریعہ حل کرنے پر زور دیں گے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین گرم جوشی پر مبنی تعلقات اور قربتیں دنیا پر واضح ہیں جس کا اظہار ولی عہد محمد بن سلیمان کی پذیرائی اور ان کی پاکستان کے ساتھ محبت سے ہوتا ہے۔ سعودی عرب کے بھارت کے ساتھ بھی بہتر تعلقات ہیں۔ سعودی عرب بھارت کو تیل برآمد کرنے والا بڑا ملک ہے۔ دونوں ممالک کے مابین تجارت اور سرمایہ کاری کے منصوبے بھی روبہ عمل نہیں۔ اس تناظر میں عزت مآب محمد بن سلمان پاک بھارت کشیدگی میں کمی کے حوالے بہتر کردارادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھارت کو آمادہ کرنے پر بھی شہزادہ محمد سے بجا طور پر توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ سعودی عرب محض ایک ملک کا نام نہیں، وہ ایک بڑی قوت ہے۔ عرب لیگ سعودی عرب کے شانہ بشانہ ہے۔ او آئی سی کے ساٹھ کے قریب ممالک کی اکثریت سعودی عرب کو قائد رہنما تسلیم کرتی ہے۔ 33 ممالک کا عسکری اتحاد سعودی عرب کی کوششوں سے معرض وجود میں آیا۔ گو اس کامقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ تاہم یہ ایک بڑی اور طاقتور فورس بھی ہے۔ ایسے طاقتور ملک کی بات اور تجویز کو مسترد تو کیا نظر انداز کرنا بھی بھارت جیسے سعودی عرب کے ممنون ملک کے لئے مشکل ہو گا۔
سعودی عرب نے پاکستان کی ہمیشہ دل کھول کر مدد کی جس کا سلسلہ ولی عہد کے دورے سے قبل اور دوران بھی جاری ہے مگر یہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ سعودی عرب نے یمن میں پاکستان سے کسی قسم کی فوجی کمک کا تقاضہ کیانہ ایران کے حوالے سے کسی قسم کے تحفظات سامنے آئے ہیں۔ پاک سعودی تعلقات یقیناً اپنی معراج پر ہیں۔ پاک سعودی تعلقات میں گہرائی و گیرائی کا احاطہ پاکستان میں سعودی عرب کے سابق سفیر ڈاکٹر علی سعید عواد العسیری نے گزشتہ دنوں اپنے دورے کے موقع پر اسلام آباد میں ایک لیکچر کے دوران یوں کیا کہ ’’سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کا احاطہ تین الفاظ منفرد گہرے اور پائیدار کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات ناگزیرہیں جس کی کوئی حدود نہیں۔ تجارت و سرمایہ کے ساتھ ساتھ سعودی عرب سی پیک میں شامل ہو کر پاکستان کی معیشت کو مزید مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
ولی عہد محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان ہمیشہ یاد رکھا جائیگا جس سے پاکستان کی معیشت کی مضبوطی کی بنیاد استوار ہوئی۔ قوم بجاطور! محمد بن سلمان کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتی ہے۔ اہلاً و سہلاً مرحبا عزت مآب ولی عہد سعودی عرب شہزادہ محمد بن سلمان۔