بھارت جمہوریت کی بقا کے لئے جنگجو تنظیموں کو محدود کرے : بی بی سی
نئی دہلی(بی بی سی ) سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سربراہ موہن بھاگوت نے گزشتہ ہفتے بہار میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی ہنگامی حالت میں بڑی تعداد میں فوج کھڑی کرنی ہو تو انڈین فوج کو اس میں کافی وقت لگے گا لیکن آر ایس ایس محض تین دن کے اندر لاکھوں کی فوج کھڑی کر سکتی ہے۔ یہ تو پتہ نہیں کہ وہ اپنے اس بیانسے یہ بتانا چاہتے تھے کہ انڈین آرمی، فوج کے موبلائزیشن میں ان سے کہیں پیچھے ہے یا پھر یہ کہ آر ایس ایس محض ایک آواز پر فوج کھڑی کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ آر ایس ایس ایک ایسی تنظیم ہے جس میں نظم و ضبط ہے اور یہ ہندو ثقافت اور مذہبی تصورات کے فروغ دینے کے علاوہ ملک میں ایک ہندو راشٹر کے قیام کیلئے سرگرم ہے۔ ہندو قوم پرستی اس کے نظرے کا محور ہے۔ یہ تنظیم ابتدا سے ہی ہندوتوا کی جانب مائل جماعتوں اور تنظیموں سے وابستہ رہی ہے، بی جے پی اس کی سیاسی شاخ ہے۔ بجرنگ دل ، وشو ہندو پریشد، بن واسی کلیان سمیتی، اور اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد جیسی متعدد تنظمیں اس کی محاذی شاخیں ہیں جو الگ الگ علاقوں میں الگ الگ طریقے سے اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ ان سبھی تنظیمیں کا نصب العین ہندوتوا کا فروغ ہے۔ ان میں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسی تنظیمیں اب اپنے ارکان کو لڑائی اور مسلح ٹکرائو کی تربیت بھی دیتی ہیں۔ بجرنگ دل جیسی تنظیموں کی نوعیت ملیشیا جیسی ہے جن کا کردار انتخابات میں سماجی ٹکرائو اور سیاسی مفاد کے حصول کے لئے دنگے فساد میں اکثر نظر آتا ہے۔ ان میں سے بعض تنظیموں نے اب خود کو سینا یعنی فوج کہنا شروع کر دیا ہے۔ ان تنظیموں کے حکمران جماعت بی جے پی سے گہرے تعلقات ہیں۔ گائے کے تحفظ کے لئے بنائی گئی گورکشا سمیتیوں اور اینٹی رومیو سکواڈ جیسے پر تشدد گروپوںمیں انھی ملیشیا کے نوجوان شامل ہیں انڈیا میں جنگجو تنظیمیں ہتھیار حاصل نہیں کر سکی ہیں اور ان کا سب سے موثر ہتھیار ہجومی اور اجتماعی تشدد ہے اور یہی انکا کامیاب حربہ ہے۔ بھارت میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد معیشت کا جو رخ رہا ہے اس میں خاطر خواہ نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا نہیں ہو سکے ۔ اس مدت میں لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان اپنی ڈگریوں کے ساتھ بے کار بیٹھے ہیں۔ ملک میں بے چینی روکنے کے لئے ان لاکھوں نوجوانوں کو کہیں نہ کہیں مصروف رکھنا ضروری ہے۔ آر ایس ایس کی مختلف تنظیمیں ان بے روزگار نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کر رہی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہیخ کہ نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ملازمتوں کے وافر مواقع نہ بن پانے اور سوشل میڈیا کی نئی آزادی وہ تمام عوامل فراہم کر رہی ہے جو ملک میں تشدد میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں۔ حکمران جماعتوں سے وابستگی کے ساتھ ملیشیا جیسی تنظیموں کے فروغ اور مستحکم ہونے سے ملک کی سلامتی کو سنگین خطرہ لاحق ہو سکتاہے۔ میانمار، پاکستان ، سری لنکا اور نیپال نظریاتی تنظیموں اور ملیشیا گروپوں کے سبب منظم تشدد کا سامنا کر چکے ہیں ۔ انڈیا کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ ان ملکوں کے تجربوں سے سبق سیکھے اور جمہوریت کی بقا کے لئے ان جنگجو تنظیموں کو محدود کرنے کے راستے تلاش کرے۔