عاصمہ جہانگیر‘ پدماوتی اور سوالیہ نشانات؟
عاصمہ جہانگیر اب قبر کی مکین ہے قبر کا حال وہی جان پاتا ہے جو موت کی رتھ پر سوار ہو کر اگلے جہان کے اس پہلے پڑاﺅ پر پہنچتا ہے اور قبر میں کس کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا وہ علیم و خبیر ہی جانتا ہے جو گناہ گار کو بخشنے اور نیکوکار کو معاف نہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ البتہ موت کی آغوش میں جانے سے پہلے کسی شخص کے اعمال و افکار کا جائزہ اور ان کی روشنی میں اس کی شخصیت کی تصویرکشی یا اس حوالے سے رائے قائم کرنا قابل اعتراض نہیں ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز نے عاصمہ جہانگیر کی شخصیت و کردار کے جو رنگ بکھیرے ہیں وہ یقیناً بہت خوشنما ہیں اور بلاشبہ یہ رنگ اس کے ظاہری اعمال و خیالات سے ہی لئے گئے ہیں۔ البتہ بطور پاکستانی کسی بھی شخص کی تحسین یا گرفت کا معیار یہ ہے کہ اس کی پاکستان کے لئے کیا خدمات ہیں پاکستان کے مفادات کی آبیاری میں اس کا کتنا حصہ ہے۔ موت کی وادی میں اُترنے سے پہلے عاصمہ جہانگیر جس مشن کا عملی حصہ تھی یہ مشن پاکستان کے مفاد سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ زندہ تاریخ کا باب ہے پاکستان میں شاید ہی کوئی خواندہ شخص ایسا ہو جو اس بات سے آگاہ نہ ہو کہ سری لنکا میں تامل دہشت گردوں نے 25 سال کی طویل مدت آفت مچائے رکھی، بھارت کی پشت پناہی میں تامل دہشت گردوں نے سری لنکا حکومت اور عوام کے شب و روز میں پریشانی، خوف و اضطراب کی آگ بھر دی تھی۔ پھر بھارت نے ”امن فوج“ کے نام پر اپنی فوجیں سری لنکا میں داخل کر دیں جس سے تامل دہشت گردوں کو براہ راست کمک مِل گئی اور سری لنکا کے اقتدار اعلیٰ کے لئے خطرہ پیدا ہو گیا جس پر سری لنکا حکومت نے پاکستان سے مدد چاہی۔ پاکستان کے ایس ایس جی کمانڈوز نے سری لنکن فوج کے ساتھ مل کر تامل دہشت گردوں کا صفایا کر دیا۔ بھارتی فوج کے کمانڈوز بھی تامل دہشت گردوں کے روپ میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث تھے اور اس طرح سری لنکا حکومت اور عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ اب ہونا تو یہ چاہئے تھا دہشت گردی کے خاتمے پر سری لنکا حکومت، اس کی فوج اور تعاون کرنے والے پاکستانی فوج کے کمانڈوز کی تحسین کی جاتی، پاکستانی کمانڈوز کی اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاتا لیکن ہوا اس کے برعکس اقوام متحدہ نے جس میں امریکہ اور بھارت کی ملی بھگت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ، ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن قائم کر دیا جو سری لنکن فوج اور پاکستانی کمانڈوز کے ”انسانیت کے خلاف ہونے والے جرائم“ تلاش کر رہا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کی اس مشن کی سرگرم رکن تھی۔ کسی پاکستانی کے ذہن میں اگر یہ سوچ کلبلائے انسانی حقوق کی علمبرداری کا نقاب اوڑھے یہ خاتون ایک سچی انسان دوست اور پاکستانی ہونے کا ثبوت یوں دیتی کہ وہ اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتی کہ ایسا ہی ایک مشن مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تلاش کیلئے قائم کیا جائے اور اگر کشمیر کے لئے ایسا مشن نہ بنایا جاتا تو وہ سری لنکا کے لئے بننے والے مشن میں شرکت سے انکار کر دیتی تو بلاخوف تردید پاکستانیوں کی آنکھ کا تارا ہوتی۔ کیا کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں ہر لمحے ظلم و ستم کی چکی میں پسنے والے کشمیریوں اور اسرائیلی فوج کے مظالم کا شکار فلسطینیوں کے انسانی حقوق نہیں ہیں۔ ان مظالم کو اپنی زبانوں پر لاتے وقت انسانی حقوق کے علمبرداروں کی زبانوں پر چھالے کیوں پڑ جاتے ہیں، توہین رسالت کے مرتکب سلامت مسیح کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والوں کی امریکی چنگل میں پھنسی عافیہ صدیقی کیلئے ان کی زبانیں کیوں گنگ ہیں۔
جہاں تک عاصمہ جہانگیر کے بعض ذاتی اعمال کا تعلق ہے مثلاً 15 ۔ اگست کو واہگہ باڈر جا کر بھارت کا یوم آزادی منانا‘ بھارتی فوجیوں کے ساتھ بھنگڑے ڈالنا، بال ٹھاکرے جیسا لباس اور ماتھے پر تلک لگا کر اس سے ملاقات کرنا‘ گاندھی کی تصویر کو ہندوﺅں کے انداز میں پرنام کرنا وغیرہ وغیرہ یہ سب نظرانداز کئے جا سکتے ہیں حتیٰ کہ اس کے مذہب اور عقیدے کے حوالے سے ہونے والی چہ میگوئیوں کو ناقابل توجہ سمجھا جا سکتا ہے۔ البتہ خواہ کوئی بھی شخص ہو پاکستان اور اس کی محافظ افواج پاکستان کے خلاف بالواسطہ یا بلاواسطہ مخالفت ، ہرزہ سرائی کو نظرانداز کرنے والے کی پاکستانیت میری نظر میں مشکوک ہے میں جانتا ہوں یہ تحریر بہت سی پیشانیوں کو شکن آلود کر سکتی ہے۔ لیکن پاکستان ہی میری اولین و آخری محفوظ پناہ گاہ ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کی تاریخ مسخ کرنے، مسلمان حکمرانوں کے کردار داغدار کرنے، مسلمانوں کی اقدار و روایات پر حملوں کی منظم مہم کے ساتھ ہی ساتھ پاکستان پر ثقافتی حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جبکہ پاکستان میں نئی نسل کو اپنی تاریخ سے بہرہ مند کرنے کی ضرورت ہے۔ جس سے افسوسناک حد تک اغماض برتا جا رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے تازہ واردات ”پدماوتی“ نامی فلم کی نمائش ہے جس میں مسلمان حکمران علاﺅالدین خلجی کے کردار کو بُری طرح مسخ کیا گیا ہے اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ علاﺅالدین خلجی شرابی، عورتوں کا رسیا اور وحشی انسان تھا جو کچا گوشت بڑے وحشیانہ انداز سے کھاتا۔ چتوڑ گڑھ کی رانی پرفریفتہ ہو گیا اور اسے حاصل کرنے کے لئے ریاست پر حملہ کر دیا۔ حالانکہ تاریخ اس باب میں بالکل خاموش ہے یہ تاریخ نہیں بلکہ ایک لوک کہانی ہے جسے ملک جائسی نامی شخص نے لکھا تھا ، جبکہ تاریخ میں علاﺅالدین خلجی کا کردار بلندیوں کو چُھوتا نظر آتا ہے جس نے ہندوستان پر منگولوں کے کئی حملے ناکام بنائے وہ ان چار حکمرانوں میں سے ایک تھا جس نے پورے ہندوستان پر حکومت کی، منگول حملہ آوروں کو روکنے کے لئے اس نے چار لاکھ فوج تیار کی۔ اس کے اخراجات کے لئے مشیروں نے عوام پر ٹیکس لگانے کا مشورہ دیا جو اس نے مسترد کر دیا کہ عوام پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا اور معیشت کو مستحکم بنانے کے لئے اس نے چند اقدامات کئے جو آج بھی بہترین معاشی اصول ثابت ہو سکتے ہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں انہیں اختیار بھی کیا گیا ہے علاﺅالدین خلجی نے سب سے پہلے اشیائے ضرورت کی قیمتوں کو نیچے لا کر ایک سطح پر مستحکم کر دیا پھر دنیا میں پہلی مرتبہ غلہ منڈی، سبزی منڈی اور گوشت کی منڈی قائم کی ملک بھر کے تاجروں کو پابند کیا کہ وہ اپنا سودا ان منڈیوں میں ہی مقررہ قیمتوں پر فروخت کریں گے پھر ان منڈیوں میں ہی کوڑے لگانے کی جگہ مخصوص کی گئی جو تاجر منڈی سے باہر یا زائد قیمت پر مال فروخت کرتا اسے برسرِعام کوڑے لگائے جاتے۔ یہ سارا نظام کسی وزیر کی بجائے خود اپنے ہاتھ میں رکھا اور دن میں تین مرتبہ منڈیوں سے رپورٹیں براہِ راست اس کے پاس آتیں۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ منگولوں سے لڑائیوں کے باوجود معیشت پر منفی اثرات نہیں پڑے۔ عوام کو کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہوا جبکہ فلم پدماوتی میں اس کا کردار اس کی شخصیت سے بالکل الٹ پیش کیا گیا ہے۔ پاکستان میں اس فلم کی پذیرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف 13 دنوں میں پاکستانیوں نے پندرہ کروڑ روپے اس فلم کی نذر کئے۔ ان سطور میں ایک سے زائد بار بھارتی میڈیا کے حوالے سے نشاندہی کی جا چکی ہے کہ پاکستان میں چلنے والی بھارتی فلموں کی کمائی کا آٹھ فیصد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے فنڈ میں جاتا ہے۔ جو کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہے ۔ کشمیری حریت رہنماءاشرف صراف کئی بار اپیل کر چکے ہیں ”پاکستانی بھارتی فلمیں نہ دیکھیں“ مگر پاکستانیوں کو تو گویا بھارتی فلموں کا نشہ ہو گیا ہے۔