احتساب سب کا۔!
وطن عزیز میں اصول پرستی ایک مشکل کام بن چکا ہے کیونکہ قانون شکنی عمل عام ہے یہاں ہر شخص کے پاس اپنے قانون شکن عمل کی مناسبت سے قانون کی تشریح موجود ہے اور اس طرح ہم میں سے اکثر قانون کی تشریح کے ساتھ تفریح کرتے رہتے ہیں۔ سیاست ملکی ہو یا علاقائی‘سیاست خاندانی ہو یا تنظیمی بہرحال ہماری سیاست ظلم، کرپشن و ہیراپھیری کیلئے بدنام ہوگئی ہے یعنی عجیب معاملہ ہوگیا ہے کہ ذاتی مفاد کے لئے جو دا¶ پیچ و ڈرامہ گیری کی جاتی ہے اسی کا نام سیاست ہوگیا ہے۔ غیر شریف کے بغیر سیاست کی رونق ختم نہیں ہوجائے گی؟ کچھ غیر شریف بھی اقتداراعلیٰ کا خواب سجائے اعلیٰ ایوان میں بیٹھے ہیں اور ان کی بدولت پانامہ لیکس کو بھارت کی طرح ردّی کی ٹوکری کی نذر ہونے سے بچالیا گیا۔ مگر یہ بھی ہے کہ اگر ملکی ادارے مضبوط ہوتے تو پانامہ لیکس کے منظر عام پر آنے کے فوری بعد کئی برج الٹ جاتے۔ لیکن ابھی بھی حالات دیدنی ہیں۔ ایک انتظار کی سی کیفیت ہے کہ دیکھئے جے آئی ٹی سپریم کورٹ کو کیا رپورٹ دیتی ہے۔ اس وقت تک تو ملک کا ”کور ایشو“ جے آئی ٹی کی تفتیش بن چکا ہے۔ شریف خاندان کی پیشیاں اور تبصرہ نگاروں کی پیشن گوئیاں ماحول کو گرما گرم کئے ہوئے ہیں۔ ویسے عوام یہی چاہتے ہیں کہ ایک بار بے رحم احتساب ضرور ہونا چاہیے۔ یہ احتساب سب کا ہونا چاہیے کیونکہ ہر وہ شخص اپنی حالت کیلئے اللہ کی پناہ مانگنے پر مجبور ہے جو ایمانداری اپنانے اور اللہ کا خوف دل میں رکھنے کا جرم کرتا ہے وگرنہ جس ملک میں روزانہ 14سے20 ارب کی کرپشن ہورہی ہو وہاں ایماندار کی ایسی کی تیسی کرنے والے کیا دیر لگاتے ہیں؟ ایک چھوٹے سے ادارے میں بھی چپڑاسی سے لیکر اچھے خاصے گریڈز میں کام کرنے والے مالی بدعنوانی ایسی منصوبہ بندی و ٹیکنیکلٹی سے کرتے ہیں کہ ایماندار بے ایمان اور بے ایمان مظلوم و ایماندار محسوس ہونے لگتے ہیں۔
ملک پاک کا قیام معاشی طور پر پسماندہ ملک کا قیام تھا۔ ہند وتو پروپیگنڈہ کررہا تھا کہ پاکستان اپنی معاشی بدحالی کے سبب جلد ٹوٹ جائے گا لیکن محمد علی جناح کے خلوص نیت اور ایماندار کیبنٹ نے اس وقت دنیا کو ورطہ¿ حیرت میں ڈال دیا جب سادگی، کفایت شعاری اور محنت و ایمانداری کے زریں اصولوں کو اپناتے ہوئے ملک کے قدرتی وسائل، کوئلہ و تیل کے ذخائر اور بجلی کی پیداوار کے شاندار پراجیکٹس بنائے گئے۔ صنعتوں اور دیگر نوع کے کاروباری نظام کو فروغ دیا گیا۔ ملکی ایگریکلچر کو ملکی معیشت کا بنیادی ڈھانچہ قرار دیکر زرعی پیداواری نظام کو منظم کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ پاکستان کی بنیاد کو بقول قائد ”کام، کام اور بس کام‘خلوص نیت اور ایمانداری کے ساتھ فرض کی ادائیگی“ پہ استوار کیا گیا۔ لیکن بعد ازاں ہمارے قائدین نے ملک چلانے کیلئے شارٹ کٹس اختیار کرنا شروع کردئیے اور ترقی کے منصوبوں کی پیش رفت کو اپنے وسائل سے حاصل ہونے والی پیداواری طاقت کی بجائے قرضوں اور مالی امدادوں کا مرہون منت بنا دیا گیا۔ اپنے دریا¶ں کو دشمن کے ہاتھوں فروخت کرکے ایگریکلچر کا گلا دبا دیا گیا۔ ملک صوبوں کے مساوی حقوق کی پامالی، لسانی گروہی، صوبائی مذہبی اور فرقہ وارانہ منافرتوں کی عفریت کا شکار بنا دیا گیا۔ اپنا ہی ضمیر کالاباغ ڈیم جسے خالص ملکی ترقی و خوشحالی کے منصوبوں کی کامیاب تکمیل کے راستے روکنے میں دشمن کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن گیا۔ ہمارے ہاں قومی ایشوز کو ہی گول کیا جانے لگا کیونکہ ملک میں کرپشن راج آگیا۔ ہر کہیں پستی چلنے لگی اور اب کمیشن کی بھوک سے محنت کی عظمت کی سوجھ بوجھ کی صلاحیت ہی چھن گئی۔ خدا کی پناہ جسے دیکھو موقعہ کی تاڑ میں ہے، جسے دیکھو دہاڑی بنانے میں ہے۔ یہ مافیا ہے، یہ گروپس ہیں یہ یونینز ہیں جو اپنی عددی اکثریت کو قوت سمجھتے ہیں اور اس عددی قوت کے بل بوتے پر اپنے منفی عمل و رجحان کو تحفظ دیتے ہیں۔ کرپٹ نیٹ ورک اور ذاتی اغراض کو محفوظ کرنے کیلئے ایماندار و اہل لوگوں کو راستے سے ہٹانے کیلئے ہر قسم کی چال چلتے ہیں۔ ہم بات صرف پانامہ لیکس کی نہیں کرتے۔ ہم بات صرف الطاف حسین، آصف علی زرداری و میاں نوازشریف کو مائنس کرنے کی نہیں کرتے ہم بات اس سسٹم کی کرتے ہیں جو اس وقت پوری قوم کی من حیث المجموعی کرپشن کی آلودگی میں اٹا جاچکا ہے۔ میرے سامنے مال بنا¶، اقتدار میں آ¶ کیلئے ٹانگیں کھینچنے و دشمنیاں لگانے کی بات نہیں بلکہ میرے سامنے اقبال کے افکار اور قائد کے خواب کی تعبیر کا مینڈیٹ ہے۔وگرنہ احتساب، نیب کمیشن، عدالتیں سب موجود ہیں اور کرپشن بھی پھلتا پھولتا گیا۔یہ سائیکل پر آنے والے دس دس گاڑیوں کے مالک، یہ پانچ مرلے میں رہنے والے سو کنال کے محل کے بادشاہ، کلرک کی نوکری کرنے والے کروڑ بلکہ ارب پتی اشرافیہ؟؟؟ سچ تو یہ ہے کہ راتوں کی نیندیں قربان کرکے‘ صحت و جاں کو دا¶ پر لگا کر محنت کریں تو ساری زندگی ایک گھر بنانا اور گزارے لائق بہت جمع پونجی بچا بچا کے رکھنے کے بعد ایک چھوٹی دکان کاروبار کیلئے مشکل سے ہی بن پاتی ہے۔ ہاں جنہیں ملکی حالات بدلنے اور معاشی خوشحالی کیلئے اللہ دین کے چراغ کی ضرورت پیش آتی ہے انہیں پانچ پانچ سال کی معیاد اور بار بار بلکہ باری کے دور اقتدار بھی ملکی معاشی خوشحالی لانے کیلئے کم پڑجاتے ہیں۔ جس قوم نے دین کی ہدایت سے منہ موڑا، اپنے قائد کے راستے کو ٹھکرایا، اپنے احتساب سسٹم سے وفا نہ کی تو سوال یہ ہے کہ کیا وکی لیکس و پانامہ لیکس سے کوئی قیامت آجائے گی؟؟؟ جناب مجید نظامی صاحب بھی تو اپنے قلم سے شریف خاندان سمیت تمام حکمرانوں کا احتساب کرتے رہے لیکن کیا بنا؟پچھلے دنوں جناب حسین نوازنے بھی درست کہا تھا کہ ”صرف سیاستدانوں کا ہی احتساب کیوں؟“ جب سسٹم سب کے ملنے سے کرپٹ ہوا تو واقعی صرف احتساب کا دائرہ کار سیاستدانوں تک ہی محدود کیوں ہو؟ میڈیا، بیوروکریسی اور خود ہمارا اپنا عدالتی و دفاعی نظام بھی طائرانہ جانچ پڑتال میں لائن اپ ہوجائے تو کیا حرج ہے؟ جو صحیح ہوتے ہیں انہیں انکوائریز سروس سے گزرنے کی معمولی ذہنی کوفت تو ہوتی ہے لیکن ڈر و خوف و نقصان کچھ نہیں ہوتا۔ احتساب ”سب کا“ ضرور ہو‘ احتسابی عمل ”شفاف“ ہو اور ”سزا و جزا“ کا تصور بھی عملی صورت میں علی الاعلان ہو کیونکہ یہی راستے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے اور ملک کی تقدیر بدلنے کے ہیں۔ اس طرح ان لوگوں کی شکایت بھی دور ہوجاتی ہے جو کہتے ہیں ملک میں الیکشنز کروانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ شریف و محنتی غریب عوام کا مقدر تو پسینہ بہانا ہے۔ ملک میں کرپشن سے نجات چاہتے ہیں تو بڑا کام بھی محافظ ذی عالی وقار شعبوں کا ہی ہے۔ جب بنک کا چوکیدار چوروں سے مل جاتا ہے تو بنک لٹنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ پناہ یااللہ.... کہ تیری رحمت سے ہم مایوس نہیں۔
٭٭٭٭