رائٹرز گلڈ اور بزم وارث شاہ کی مشترکہ تقریب
پنجاب اسمبلی کے عقب میں منٹگمری روڈ پر پاکستان رائٹرز گلڈ کی وسیع و عریض پراپرٹی ہے جس پر ایک عرصہ سے بعض سرکاری حکام سمیت لینڈ مافیا کے کئی سیاہ و سفید چہروں کی نگاہیں جمی ہوئی ہیں۔ گلڈ کی موجودہ انتظامیہ اگرچہ بعض حضرات کی تنقید کا نشانہ بھی بنتی رہتی ہے لیکن اس بات کو بھی تسلیم کیا جانا چاہئے کہ ہزار مشکلات کے باوجود اور وقفے وقفے سے ہونے والی آنکھ مچولی کے ماحول میں بھی رائٹرز گلڈ اور ٹرسٹ کے جاوید طفیل کی قیادت میں ذمہ داران پاکستان بھر کے قلم کاروں کے نام وقف اس پراپرٹی کو اب تک بچائے چلے آ رہے ہیں۔ اگرچہ اکادمی ادبیات پاکستان کی تخلیق کے بعد پاکستان رائٹرز گلڈ سرکاری سرپرستی سے بہت حد تک محروم ہو گئی اور مختلف ملازموں اور دفتری اخراجات کو پورا کرنے کیلئے پراپرٹی کی گراﺅنڈ کے بعض حصے کرائے پر اٹھانے پڑے لیکن رائٹرز گلڈ کی ماضی جیسی سرگرمیاں بحال نہ رہ سکیں۔ ماضی میں مختلف آفس سیکرٹریوں نے جن میں راجا رسالو جیسے قلم کار بھی شامل تھے، رائٹرز گلڈ میں ادبی تقریبات کا سلسلہ بھی تواتر کے ساتھ جاری رکھا مگر اب پھر قدرے خاموشی تھی جس کو بزم وارث شاہ کے سربراہ نذر بھنڈر نے رائٹرز گلڈ کے تعارف سے توڑا اور گلڈ کے ہال میں علم و ادب کے مختلف رنگ کے چہروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا۔ تقریب کی خاصیت یہ تھی شعراءکرام کے ساتھ ساتھ بلکہ وقفے وقفے کے ساتھ درمیان میں معاشرتی اصلاح،جمہوریت کی اصل شناخت، عقل اور ادب، ریڈکراس کی اہمیت اور ایسے ہی مختلف موضوعات پر ہلکی پھلکی تقاریر کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔ نواب برکات محمود نوابی انداز کا لباس زیب تن کئے کمال کی شخصیت نکلے کہ پہلے تو جمہوریت کی اصل صورت اور موجودہ خرابیوں کو دلائل سے بیان کر کے داد سمیٹی اور پھر مختلف تحائف سے بھرے اپنے زمبیل نما تھیلوں سے درجنوں قیمتی گفٹ نکال کر مختلف قلم کاروں، شاعروں اور خواتین مہمانوں میں تقسیم کئے۔ اس طرح مشاعروں میں ریاض الدین ریاض نے سٹیج پر آتے ہی ڈائس پر رکھے نذر بھنڈر کے ”سامان“ کو ایک طرف کیا اور پھر اپنا کلام ہاتھوں سے پیدا کردہ موسیقی کے سہارے اس لے سے سنایا کہ حاضرین واہ واہ کر اٹھے۔ بعد میں انہوں نے ویڈیوز کے ذریعے سب کو حیران کیا کہ وہ بڑے بڑے اجتماعات میں نہ صرف خوبصورت آواز میں گیت گا چکے ہیں بلکہ ان کے ریکارڈ کردہ گیتوں کی کیسٹیں بھی دستیاب ہیں۔ اسی طرح پنجابی کے مقبول جریدے لہراں کے بانی مدیر ڈاکٹر اختر حسین اختر مرحوم کے بعد ان کے پرچے کو زندہ رکھنے والے سید محمد انور نے بھی پنجابی زبان و ادب کے حوالے سے اپنی جدوجہد کو تقریب کا حصہ بنایا۔ رائٹرز گلڈ کے آفس سیکرٹری ظفر اقبال کے بقول رائٹرز گلڈ کے پنجاب کے سیکرٹری اور گلڈ ٹرسٹ کے ٹرستی جاوید طفیل نے بھی گلڈ میں تقریبات کے حوالے سے اہم اعلانات کرنا تھے مگر لاہور میں ٹریفک کے بحران کی نذر ہو گئے۔ تقریب میں اظہار خیال اور کلام پیش کرنے والوں میں محمد انور ناز، عارف نوناری، سید اسلام الدین، پروفیسر تنویر دانش، وحید ناز، شفق جعفری، فیاض قرشی، غزالہ یاسمین، رانا سعید، اظہر منہاس لاہوری اور راقم الحروف (بیدار سرمدی) شامل تھے۔ رائٹرز گلڈ اس وقت بھی پاکستان بھر کے ادیبوں، قلم کاروں اور دانشوروں کا سب سے بڑا اور منتخب پلیٹ فارم ہے، اس کی عمارت شہر کے وسط میں ہے، ماضی کی طرح ہر سال میرٹ پر اردو پنجابی تصنیفات پر انعامات دینے کی روایت بھی نبھائی جا رہی ہے۔ علامہ اقبال ٹاﺅن میں قائم گلڈ کی محمد طفیل (نقوش) کے نام سے منسوب لائبریری بھی اہل علم کی پیاس بجھا رہی ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ اسے ریگولر بنیادوں پر مختلف علمی مباحث، ادبی تقاریب اور قلمی سرگرمیوں کا احیا ضروری ہے مگر یہ تب ممکن ہے کہ خود اہل قلم بھی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔