لودھراں کا الیکشن کیا بتا رہا ہے
لودھراںکا الیکشن ہوگیا اور پی ٹی آئی اور عمران خان کی ساری سیاست بہا کر لے گیا۔ جنرل الیکشن سے صرف چند ما ہ پہلے PTI کی 40 ہزار سے جیتی ہوئی سیٹ پر25 ہزار سے زیادہ کی شکست کا کیا مطلب ہے اور اس کے جنرل الیکشن پر کیا اثرات ہونگے ۔ اسکا اندازہ ایک معمولی سوجھ بوجھ رکھنے ولا سیاسی کارکن بھی بخوبی لگا سکتا ہے۔ جہانگیر ترین کی نااہلی پر PTI مخالفین نے کہا کہ اب عمران خان کا ATMبند ہوجائے گا۔ جہانگیر ترین کی گاڑیاں اور جہاز عمران خان کو میسر نہ ہونگے ۔ لیکن ایک تبصرہ نگار جو اندر کی خبر جانتا تھا بتاگیا کہ جہانگیر ترین کے بیٹے علی خان ترین کو ٹکٹ ملے گا۔ وہ باآسانی یہ سیٹ جیت جائے گا اور ATMچلتا رہے گا۔ ٹکٹ تو نوجوان کو مل گیا لیکنATM چلتے رہنے کا انتظام نہ ہوسکا۔ غیر جانبدار حلقوں نے موروثی سیاست کا سوال اٹھایا تو عمران خان اور انکے ترجمان نے بھرپور طریقے سے جواب دیا کہ علی ترین کو اس لئے ٹکٹ نہیں دیا کہ وہ جہانگیر ترین کا بیٹا ہے بلکہ اس لئے دیا کہ وہ سب سے بہترین امیدوار ہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ علی خان ترین اپنے والد جہانگیر ترین سے بھی پہلے سے PTI میں ہے۔ موروثی سیاست کا دفاع کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایک سیٹ پر ٹکٹ دینے کو موروثی سیاست نہیں کہتے ۔اگر اسکو جہانگیر ترین کی جگہ پارٹی کا جنرل سیکرٹری بنادیتے تو موروثی سیاست ہوتی ۔ مجھے یقین ہے کہ اگرATM کو جاری رکھنے کے لئے عمران خان علی خان ترین کو پارٹی کا جنرل سیکرٹری بنا دینگے تو فواد چوہدری فرمائیں گے کہ موروثی سیاست صرف چیئرمین کے بیٹے کو چیئرمین بنانے سے ہوگی۔ عمران خان جس بات کی مخالفت پچھلے20 سال سے کرتے رہے ہیں اب اس پر خود ہی عمل کرکے بہت بڑا U ٹرن لیا جس کو ان کے حمایتیوں نے بھی مسترد کردیا ۔نعیم بخاری ایڈووکیٹ جنہوں نے عمران کو نوازشریف کے خلاف مقدمہ جتوایا اور نوازشریف کو نااہل کروایا وہ ایکTV انٹرویو میں کہہ رہے تھے کہ عمران خان یہ کہتے ہیں کہ کرپٹ لوگوں کی PTI میں کوئی جگہ نہیں ۔ جہانگیر ترین کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد عمران کو خود کو ان سے الگ کرلینا چاہئے تھا۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ جہانگیر ترین کے بیٹے کو ٹکٹ دینا بالکل موروثی سیاست ہے جسکی PTI اور عمران خان مخالفت کرتے رہے ہیں۔ کیا پورے حلقے میں کوئی ایسا شخص نہ تھا جس کو اس حلقے سے الیکشن لڑوایا جاتا ۔ عمران کے کچھ عرصہ قریب رہنے کے بعد نعیم بخاری ان کو بخوبی سمجھ چکے ہیں ۔ اس لئے انٹرویو کے آخر میںکہا ہوسکتا ہے میری ان باتوں کی وجہ سے خان صاحب مجھے پارٹی سے نکال دیں۔ خان صاحب کتنے لوگوں کو پارٹی سے نکالیں گے انکے اس ٹکٹ کو تو 40 ہزار سے زیادہ سپورٹروں نے مسترد کردیا ہے۔ واضح رہے جہانگیر ترین نے ایک لاکھ 29 ہزار ووٹ لے کر یہ سیٹ جیتی تھی اور علی خان کو صرف 87 ہزار ووٹ پڑا ہے۔ ٹکٹ دیتے وقت عمران خان اورترجمان فواد چوہدری باربار کہتے رہے کہ علی خان ترین اس حلقے میں بہترین امیدوار ہے اور حلقے کے لوگوں کے اصرار پر اسے ٹکٹ دیا گیا ۔ الیکشن ہارنے کے بعد بتایا جارہا ہے کہ 3 مہینے کیلئے MNA بننے کیلئے کوئی بھی الیکشن کا خرچہ کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ خان صاحب تو2013 کے الیکشن میں اعلان کیا کرتے تھے کہ نوجوانوں کو ٹکٹ بھی دونگا اور پارٹی فنڈ سے الیکشن بھی لڑوں گا ۔ کیا لودھراں میں کوئی کارکن الیکشن لڑنے کے قابل نہ تھا جس کو پارٹی فنڈ سے الیکشن لڑوایا جاتا اور کیا جہانگیر ترین بیٹے کے علاوہ کسی اور امیدوار پر پیسہ خرچ کرنے کو راضی نہ تھے۔ PTI کیلئے خوش آئند بات یہ ہے کہ عمران خان نے پہلی مرتبہ دھاندلی کا الزام لگا کر آنکھیں بند نہیں کیں بلکہ وہ شکست کی وجوہات جاننے کی کوشش کررہا ہے۔ ابتدائی طور پر اس کو رپورٹ دی گئی ہے کہ حلقہ میں بہت سارے لیڈر دوسرے حلقوں سے آگئے تھے۔ حلقے کے کارکن انکی آئو بھگت میں لگے رہے اور لوگوں کو گھروں سے لانے پر زیادہ توجہ دینے کے بجائے ناچ گانے میں زیادہ مصروف رہے ہوسکتا ہے یہ بھی ایک وجہ ہو ۔ لیکن پارٹی کی سب سے بڑی غلطی پارٹی کے دیرینہ موقف سے انحراف کرکے موروثی سیاست کو قبول کرنا ہے جسکی طر ف الیکشن سے پہلے نعیم بخاری نے توجہ دلائی اور الیکشن کے بعد عارف علوی نے بھی یہ ہمت کی ہے کہ کہا پارٹی ٹکٹ پر سوال اٹھایا جارہا ہے۔
الیکشن ہارنے کی سب سے بڑی وجہ کو اب بھی عمران خان تسلیم کرنے کو راضی نہیںہونگے۔ حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو جس بنیاد پر نااہل قرار دیا تھا عوام نے اس کو بالکل مسترد کردیا ۔ نوازشریف عوام کو یہ بات باور کروانے میں کامیاب ہوگئے کہ انکے خلاف کرپشن یا منی لانڈرنگ کا کوئی الزام ثابت نہ ہوسکاتو انکو غیر وصول شدہ تنخواہ کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر نااہل کرنے کا عجیب و غریب فیصلہ کیا گیا۔ نوازشریف پر جب الزام لگائے گئے تھے توزرداری کی طرح عدالتوں سے تاریخیں لینے کے بہانے نہ بناتے رہے بلکہ خود کہا کہ جو بھی تحقیقات کرنی ہیں کرلی جائیں اور پھر وہ اپنا مقدمہ عوام میں لے گئے۔ عوام میں انکو کتنی پذیرائی مل رہی ہے یہ انکے نااہل ہونے کے بعد ہونے والے 3 ضمنی الیکشن کے نتائج سے بخوبی واضح ہورہا ہے۔ پہلا الیکشن انکی اپنی سیٹ پر ہوا جہاں انکی بیگم امیدوار تھیں لیکن بیماری کی وجہ سے اسپتال میں داخل رہیں اور مریم نواز نے تن تنہا وہ الیکشن جیت لیا۔ یہ وسطی پنجاب کا نمائندہ الیکشن تھا۔اسکے بعد پوٹھو ہار کے علاقے چکوال میں پہلے سے کہیں بڑی برتری سے ن لیگ جیت گئی اور اب جنوبی پنجاب جوکہ ن لیگ کا سب سے کمزور علاقہ تصور ہوتا ہے PTI نے بڑے مارجن سے جیتی ہوئی سیٹ ہاری ہے۔ ان نتائج سے 2018 کے جنرل الیکشن کے نتائج کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ میاں نوازشریف بڑے جلسوں اور الیکشن میں کامیابی کے بعد کہتے ہیں کہ عوام نے انکی نااہلی کومسترد کردیا ہے تو مخالفین کہتے ہیں وہ توہین عدالت کررہے ہیں ۔سپریم کورٹ کے ججوں کے فیصلے کو عوام کیسے تبدیل کرسکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ عوام فیصلے تبدیل نہیںکرسکتی ۔لیکن مخالفین جو امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ نوازشریف کے نااہل ہوتے ہی ن لیگ تتربتر ہوجائے گی ان کی امیدوں پر یقینا پانی پھر گیا ہے ۔ اور عوام اب نوازشریف کو بے قصور سمجھتے ہیںاور انکو یقین ہے کہ نوازشریف کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے ۔ اور مخالفین یہ بھی جان لیں کہ اگر نیب ریفرنس کا فیصلہ بھی نوازشریف کے خلاف آیا تو اسکا بھی وہی اثر ہوگا جوکہ نوازشریف کو نااہل قرار دینے کا ہوا اور اگر نوازشریف کو جیل میں ڈالنے کی غلطی کی گئی تو نوازشریف کی حمایت میں اتنا اضافہ ہوگا کہ وہ دوتہائی اکثریت جیت کر ان فیصلوں کو بدلنے کی طاقت بھی حاصل کرسکتا ہے۔
نوازشریف کے مخالفین ان پر یہ الزام بھی لگا رہے ہیں کہ وہ اور مریم نواز جلسوں میں عدالتی فیصلوں پر تنقید کرکے توہین عدالت کررہے ہیں۔ حقیقت میں عدالتوں نے نوازشریف کے بارے میں گاڈ فادر اور سسلین مافیا اور اب چور،ڈاکو اور منشیات فروش جیسے الفاظ استعمال کرکے اپنی عزت میں اضافہ نہیں کیا۔ جہاں تک توہین عدالت کا تعلق ہے ہمارے آئین میں کافی سخت قوانین موجود ہیں ۔ لیکن آج کل کی آزاد دنیا میں جہاں اظہار رائے کو بنیادی حق سمجھا جاتا ہے توہین عدالت صرف دو باتوں کوسمجھا جاتا ہے۔ ایک پروگرام میں معروف قانون دان عابد حسن منٹو نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص مقدمہ کے دوران عدالت کے اندر مقدمہ میں خلل پیدا کرے یا جج کے کسی فیصلہ کو ماننے سے انکار کردے تو یہ دو باتیں توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہیں۔ فیصلہ پر عملدرآمد کے بعد جو کچھ کہا جاتا ہے وہ سب گپ شپ ہے۔
میاں نوازشریف کا خاندان توعدالت ہی نہیں JIT کے سامنے بھی پیش ہوتا رہا اور کسی طرح عدالت کی کاروائی میں خلل نہیں ڈالا۔ فیصلہ آنے کے بعد بھی انہوں نے فورا ً وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑ کر عدالت کے فیصلہ پر عمل کردیا۔ تو پھر اب جو کچھ تنقید اور تبصرہ ہے وہ تو گپ شپ ہے جوکہ ہر گھر اور ہر محفل میں ہورہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نوازشریف کا کہا ہو ا میڈیا میں آجاتا ہے۔ عمران خان اورPTI کے الیکشن ہارنے کی دوسری بڑی وجہ انکی کے پی کے میں کارکردگی ہے۔ پنجاب میں شہباز شریف کی محنت سے پنجاب کے عوام کو جو سہولیات میسر آرہی ہیں عوام الیکشن میں اس کا اقرار کررہے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان کا ڈھنڈورا صرف کرپشن کرپشن ہے اور ترقی نام کی کوئی چیز پورے صوبے میں نظر نہیں آتی ۔ جن لوگوں نے عمران سے امیدیں باندھ رکھی تھیں وہ اب مایوس ہوکر گھر بیٹھ گئے ہیں۔