پاکستان۔مخالفین کا نہ بھرنے والا زخم
دو ممالک یکے بعد دیگرے وجود میں آئے ایک نے ہندوٗوں کے موقف پر کاری ضرب لگائی تو دوسرا مسلمانوںکا حق مار کر وجود میں آیا ۔ اول الذکر نے اپنے حصے سے بھی کم پر اکتفا کی جبکہ دوسرے نے چالاکی سے زمینوں اور مکانوں پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کی۔اس کے لیئے مسلمانوں کی پیسے کی ہو س نے کام دکھایا۔ کہتے ہیں کہ یہ پہلے ہی کہا جا چکا ہے کہ مسلمانوںکا وبال پیسہ ہو گا ۔لیکن یہ بھی سنا ہے کہ یہودیوں نے پہلے عربوں سے مکانات خریدنا شروع کیئے اور اچھے داموں کے چکر میں یہ چھت سے ہی نہیں فلسطین سے ہی محروم ہو گئے۔اسرائیل کے قیام میں عیسائیوں کی سازش اور مسلمانوں کی زر سے محبت سہولت کار تھیں
پاکستان کا معاملہ مختلف ہے۔ بر صغیر پر ہزار سال سے مسلمانوں کی حکومت تھی جسے عیسائیوں نے بزور طاقت کم لیکن بزور سازش چھین لیا۔اپنی تقریباً ڈیڑھ سو لہ حکومت میں عیسائیوں نے مسلمانوں اور ہندووں کو لڑاکر ہی نہیں رکھا بلکہ ان کے مذہب میں دراڑیں ڈالنے کا کام جاری بھی جاری رکھا۔خصوصاً مسلمان اور اسلام ٹارگٹ رہے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مسلمان ہی انہیں شکست دے سکتے ہیں یہ خطرہ ہندوئوں کی طرف سے نہ تھا۔اس کے لیئے جھوٹا نبی تیار کیا گیا۔عقائد کی بنیاد پر مدرسے قائم کیئے گئے۔فرقہ واریت کو ہوا دی گئی۔اس کام میں انہیں بڑی کامیابی ملی اور مسلمان قوم تقسیم ہو گئی اور جب انگریزوں سے اپنا ملک واپس لینے کا سوال پیدا ہوا توہندو متحد تھے کیونکہ جمہوریت میں ان کو اکثریت کا فائدہ تھا۔وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کو حکومت دے بھی دی گئی اور اس کے لیئے وزارت عظمیٰ دینی بھی پڑی تو کچھ عرصے بعد اکثریت کی بنیاد پر قبضہ اپنا ہی ہو گا ۔ عیسائی اور ہندو دونوں نہیں چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا الگ ملک ہو۔دونوں جانتے تھے کہ ان کو ملک مل گیا تو یہ ایک بڑی طاقت بن جائیں گے۔پاکستان مخالفت میں صرف یہ دو ہی نہیں تھے بلکہ انگریزوں کے پٹھو مسلمان جن میں دینی اور لبرل دونوں شامل تھے،مخالفت میں پیش پیش رہے جنہوں نے ہندووں سے زیادہ نقصان پہنچایا۔۔قائد اعظم نے تو یہ کہہ بھی دیا کہ تم کانگریس کے ’’شو بوائے(show boy) ہو۔۔ تم نے پاکستان تحریک کو کافی نقصان پہنچادیا اب بھی باز آجائو‘‘ لیکن عقل سے پیدل نہ مانے اور ملک تقسیم تو ہوا لیکن ان مسلمانوں کی وجہ سے ہمیں جائز حصہ نہ مل سکاہندو اور عیسائیوں کا خدشہ درست تھا،۔ تمام تر اندرونی اور بیرونی سازشوں کے باوجود پاکستان بھارت کو نکیل ہی نہیں ڈالے ہوئے ہے بلکہ ایٹمی طاقت بھی بن گیا جب کہ دوسرے اسلامی ممالک تمام تر دولت اور وسائل کے باوجود یہ نہ کر سکے۔
پاکستان بن تو گیا لیکن انگریز اور بھارتیوں کے دل پر جوزخم لگا وہ بھر نہیں رہا۔اس لیئے کھلم کھلا ہی نہیں چھپی ہوئی سازشوں سے بھی کام لے رہے ہیں جس کے لیئے ایجنٹ پاکستان سے ہی لیئے جاتے ہیں جو کبھی مذہب کی آڑ میں تو کبھی سیکولر زم کی آڑ میں کوئی نہ کوئی ایسا اشو اٹھات رہتے ہیں جس سے ثابت ہو کہ تقسیم غلط تھی۔کبھی شکوک پیدا کرنے کے لیئے قائد کو سیکو لر بتاتے ہیں ۔کبھی انہیں جھوٹا ثابت کرنے کے لیئے پاکستان کی پیدائش ۱۴ کی بجائے ۱۵ اگست پر زور دیتے ہیں تو کبھی ان کی خود کی پیدائش کو کراچی کی بجائے جھرک بتاتے ہیں
افسوس یہ کہ اس میں لبرل تو ہیں ہی لیکن وہ کانگریسی مسلمان جو پاکستان کا کھا رہے ہیں لیکن بجاتے بھارت کی ہیں۔کچھ اور ہیں جو پاکستان میں بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں لیکن کہتے یہ ہیں کہ ’’ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے‘‘
افسوس تو ان مولویوں پر ہوتا ہے جو مخالفت میں دینی منصب رکھنے کے باوجود، دروغ گوئی میں مبتلا ہیں حال ہی میں ا یک وڈیو میں ایک مولانا اپنی تقریر میں ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ پاکستان مسلمانوں نے نہیں نہرو، پٹیل ِ آزاد اور انگریزوں نے بنایا ہے۔حماقت کی حد ہے کہ حوالہ بھی دیا تو جسونت سنگھ کی کتاب کا شاید یہ سوچ کر یہ کون پڑھے گا۔انہیں یہ نہیں معلوم کہ مرنے سے کچھ پہلے بی بی سی کو انٹریو دیتے ہوئے جناح ؒ کے بدترین دشمن مائونٹ بیٹن نے اعتراف کیا تھا کہ اگر اسے معلوم ہو جاتا کہ جناح قریب الموت ہے تو میں پاکستان نہ بننے دیتا۔۔اس نے یہ بھی اعتراف کیا جناح کے ہاتھوں ذک اٹھانے پر کئی بار دل چاہتا تھا اسے گولی ماردوں۔ ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گاندھی اور کانگریس دونوں مل کر بھی جناح کی فہم وفراست کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔
یہ نام نہاد مولانا کانگریسی لیڈر سروجنی نائیڈو کی کتاب ہی پڑھ لیں جس میں اس نے لکھا ہے کہ مسلم لیگ کے پاس دو سو گاندھی اور ابوالکلام آزاد ہوتے اور کانگریس کے پاس ایک جناح ہوتا تو پاکستان نہیں بنتا۔۔اس حوالے بھی ثابت ہوتا کہ پاکستان انگریز ، نہرواور پٹیل نے نہیں بنایا۔ان سے گذار ش ہے کہ ایک بار جسونت کی کتاب خود پڑھ کر دیکھیں جس نے قائد اعظم کے بارے میں جو لکھا وہ ان کی کتاب پر بھارت میں پابندی کا باعث بنا۔