پاکستان کی سرزمین خون ناحق سے سرخ ہوچکی ہے۔ گزشتہ بارہ سالوں سے تسلسل کیساتھ معصوم اور بے گناہ انسانوں کا خون بڑی بے دردی کیساتھ بہایا جارہا ہے۔ افواج پاکستان بے مثال بہادری اور دلیری کیساتھ دہشت گردوں کیخلاف جنگ لڑرہی ہیں مگر اسکے باوجود پاکستان کے مختلف شہروں میں لاشیں گررہی ہیں۔ شکار پور کے بعد پشاور میں امام بارگاہ سے ملحقہ مسجد میں خود کش حملے میں بیس افراد جان بحق ہوگئے۔ پمز ہسپتال کے ڈاکٹر شاہد قاتلانہ حملے کے بعد زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ راولپنڈی میں اہلسنت والجماعت کے مولانا مظہر کا افسوسناک قتل ہوا۔
گزشتہ روز لاہور میں قلعہ گجر سنگھ پولیس لائنز کے قریب زوردار دھماکے سے8افراد جاں بحق جبکہ متعدد افراد زخمی ہوگئے ۔جائے وقوعہ شملہ پہاڑی اور ریلوے پولیس ہیڈکوارٹرز کے درمیان واقع ہے، اہم تنصیبات اورسیکورٹی اداروں کے دفاتر کی وجہ سے سخت سیکورٹی انتظامات اور جگہ جگہ ناکے ہیں، پولیس لائنز کے قریب ریڈیو پاکستان اور لاہور پریس کلب واقع ہے۔ قریب ہی بی بی پاک دامن کا مزاربھی ہے۔سی سی پی او لاہور کا کہنا ہے کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق یہ خود کش دھماکہ تھا۔حملہ آور کا سر اور دھڑ مل گیا ہے۔ حملہ آور پولیس لائن میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ ناکامی پر دہشت گرد نے پولیس لائن کے باہر دھماکہ کیا۔تا دم تحریر دھماکہ کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پاکستان کو ایک ایسی اندھی جنگ میں الجھا دیا گیا ہے جس کا اختتام نظر نہیں آرہا۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے اور طویل جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا مگر پاکستان کی بقا اور سلامتی کیلئے یہ جنگ اب ہماری مجبوری بن چکی ہے۔ فتح کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی آپشن بھی نہیں ہے۔ خون ناحق کو روکنے کیلئے لازم ہے کہ ریاست کے تمام ادارے خوش اسلوبی اور تندہی کےساتھ اپنی ذمے داریاں پوری کریں۔ افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صوبائی حکومتیں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کررہی ہیں جس کا اعتراف کراچی کے کورکمانڈر نے بھی کیا ہے۔ پنجاب میں سانحہ ماڈل ٹاﺅن اور سندھ میں سانحہ بلدیہ ٹاﺅن کے مقدمات مصلحتوں پر مبنی سست روی کا شکار ہیں۔ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے سی پی این ای کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یقین دلایا کہ سانحہ بلدیہ ٹاﺅن کے سلسلے میں انصاف کے تقاضے پورے کیے جائینگے۔ چیف ایگزیکٹو پاکستان کی حیثیت سے میاں نواز شریف کا آئینی فرض ہے کہ وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو آئین کی روح اور عوام کی آرزﺅں کیمطابق چلائیں۔ سانحہ بلدیہ ٹاﺅن کراچی کا دردناک واقعہ ستمبر 2012ءمیں پیش آیا تھا۔ فیکٹری میں آگ لگنے سے 250 سے زیادہ محنت کش افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ انصاف کا تقاضہ یہ تھا کہ اس المناک سانحہ کی انکوائری اور مقدمے کی سماعت چھ ماہ میں مکمل کرکے ملزمان کو قرار واقعی سزا دے دی جاتی مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ سنگدل حکمران اشرافیہ کے دلوں میں انسانی جانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی خوف خدا موجود ہے۔ سندھ میں حالات اس قدر سنگین ہیں کہ سانحہ بلدیہ ٹاﺅن کے مقدمہ کی سرکاری وکیل شازیہ ہنجرانے اپنی جان کے خطرہ کے پیش نظر وکالت سے معذرت کرلی ہے۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ کیمطابق سانحہ بلدیہ ٹاﺅن کی ذمے داری ایم کیو ایم پر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ رپورٹ کیمطابق مبینہ طور پر ایم کیو ایم نے فیکٹری مالکان سے بیس کروڑ روپے بھتہ مانگا اور مالکان کے انکار پر فیکٹری کو نذر آتش کرادیا گیا۔ اسی رپورٹ کےمطابق فیکٹری مالکان نے ضمانت منظور کرانے کیلئے ایک بااثر شخصیت کو پندرہ کروڑ روپے ادا کیے۔ قانونی ماہرین نے جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کئی قانون سقم تلاش کیے ہیں۔جے آئی ٹی کی رپورٹ غیر معمولی تاخیر سے سندھ ہائی کورٹ میں پیش کی گئی جس کی وجہ سے رپورٹ کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ ابھی تک یہ رپورٹ ٹرائیل کورٹ میں پیش نہیں کی گئی۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی صداقت کا فیصلہ کرنا عدلیہ کا کام ہے البتہ اس رپورٹ سے یہ حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ کراچی میں انڈر ورلڈ موجود ہے جس کی سرپرستی اپرورلڈ کے بااثر افراد کررہے ہیں جنہوں نے مصلحتوں کے دستانے پہن رکھے ہیں۔ بقول شاعر:۔
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
کہ سارے شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس میں آبزرویشن دی تھی کہ کراچی میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مسلح ونگ موجود ہیں جو جرائم میں ملوث ہیں۔ بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں انہوں نے ایم کیو ایم سے مسلح ونگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اب یہی مطالبہ عمران خان بھی کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے پاس کراچی کی عوامی اور سیاسی طاقت موجود ہے۔ اسے مسلح طاقت کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ سانحہ بلدیہ ٹاﺅن کے شہیدوں کا خون رنگ لائے گا یا ماضی کے المناک سانحات کی طرح یہ سانحہ بھی بھلا دیا جائےگا۔ کراچی میں مزدور اور محنت کش پچاس لاکھ سے زیادہ ہونگے۔ وہ اگر متحد اور منظم ہوتے تو بلدیہ ٹاﺅن فیکٹری کے مزدوروں کا خون فروخت کرنے کی جرا¿ت کسی کو نہ ہوتی۔ افسوس مزدور لیڈر بھی ذاتی مصلحتوں کا شکار ہوگئے۔ بقول اقبال:۔
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلادیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
نیب نے ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی شکایت پر سندھ حکومت سے کراچی میٹرو منصوبے کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ شکایت میں مبینہ طور پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس منصوبے میں 45 ارب روپے کرپشن کی جارہی ہے۔ اس کرپشن میں بحریہ ٹاﺅن اور سندھ حکومت ملوث ہیں۔ بحریہ ٹاﺅن نے مارچ 2014ءمیں میٹروبس 25ارب لاگت سے تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا جبکہ جنوری 2015ءتک اسکی لاگت 70ارب تک پہنچ گئی ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے کراچی کا دورہ کرکے امن و امان کے اجلاسوں کی صدارت کی ہے۔ اُمید ہے انہوں نے میٹروبس کے منصوبے کا بھی جائزہ لیا ہوگا اور وزیراعلیٰ سندھ سے ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی شکایت اور نیب کے نوٹس کے بارے میں ضرور بات کی ہوگی۔ پاکستان کے عوام نے ان کو پاکستان کا وزیراعظم منتخب کیا ہے۔ قومی خزانے کا تحفظ ان کی آئینی ذمے داری ہے۔ امن و امان کے صوبائی اجلاس میں سانحہ بلدیہ ٹاﺅن ایجنڈے پر تھا۔ وزیراعظم نے اس سانحہ کے بارے میں تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے یہ کیس فوجی عدالت میں ریفر کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ اور وزیراعظم کو اس مشورے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے۔ سانحہ بلدیہ ٹاﺅن غیر معمولی واقعہ ہے جو خاص طور پر کراچی کے عوام اور عام طور پر پاکستان کے عوام کے ذہنوں کو پریشان کرتا رہے گا۔یہ سانحہ ہمارے اجتماعی شعور کا امتحان ہے کہ ہم کس طرح اس سے نمٹتے ہیں۔
پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے کراچی ہیڈ کواٹر کے دورے کے بعد اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ کراچی میں امن کے قیام کیلئے آخری حد تک جائینگے۔ عوام اپنے سپہ سالار سے پوچھتے ہیں کہ اور کتنی شہادتوں اور کتنے ماتموں کے بعد انتہائی قدم اُٹھایا جائےگا۔ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کیا جانا چاہیئے۔ پاکستانی قوم اس سلسلے میں اپنی سیاسی و عسکری قیادت سے زیر و ٹالرینس کی توقع کرتی ہے۔ سپہ سالار کا یہ تجزیہ بھی سو فیصد درست ہے کہ پولیس کو غیر سیاسی بنائے بغیر کراچی میں امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔ یہی تجزیہ ماہرین بھی پیش کرتے رہے ہیں جن سیاسی جماعتوں کے پولیس سے مفادات وابستہ ہیں وہ کبھی پولیس کی تطہیر پر آمادہ نہیں ہوں گی۔ وزیراعظم اور سپہ سالار دونوں کو اس ضمن میں مشترکہ مو¿قف اختیار کرنا پڑےگا اور نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان کی پولیس کو سیاست سے پاک کرنا ہوگا اور ایسے پولیس اہلکاروں کی چھانٹی کرنی ہوگی جن کو میرٹ کے برعکس سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا۔ امن و امان قائم رکھنے کی بنیادی ذمے داری پولیس کی ہے۔ میرٹ اور صرف میرٹ پر بھرتی کی گئی پولیس ہی عوام کے جان و مال کا تحفظ کرسکتی ہے اسکے علاوہ اور کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔