لسانیت کی بنیاد پر نوے کی دہائی میں بلند ہونے والے ایک نعرہ “ جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ” کے ذکر پر میرے پچھلے کالم کا اختتام ہوا جہاں سے سلسلے کو ایک دفعہ پھر آگے بڑھاتے ہیں۔ 27 دسمبر 2007ءکی شام کے ڈھلتے سائے ہیں۔ وہی لیاقت باغ ہے جہاں اس سے پہلے ایک وزیراعظم لیاقت علی خان کو گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ 27 دسمبر 2007ءکو اسی لیاقت باغ میں پھر خونی کھیل کھیلا جاتا ہے اور ایک سابقہ وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کا سفاکانہ قتل ہوتا ہے۔ پورے ملک میں دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف آگ بھڑک اٹھتی ہے اور خاص کر سندھ میں عوام کے جذبات زیادہ مجروح ہوتے ہیں کیونکہ انھوں نے اس سے پہلے بھی اسی راولپنڈی پنجاب سے ایک وزیراعظم کی لاش وصول کی ہوتی ہے۔ لہذا یہ بات کوئی بعید از قیاس نہیں ہوتی کہ اس صوبہ سے تعلق رکھنے والے قوم پرست ایک مخصوص ایجنڈہ کے تحت وہاں کے عوام اور خاص کر پیپلز پارٹی سے ہمدردی رکھنے والوں کے جذبات اسقدر مشتعل کر دینگے کہ وہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے سے بھی گریز نہیں کرینگے۔ عین اس وقت اسی پیپلز پارٹی جس نے بھٹو کی پھانسی کو بنیاد بنا کر ملک دشمنی سے اجتناب کیا تھا اسی پارٹی کا ایک لیڈر اٹھتا ہے اور اپنے کارکنوں کو پاکستان کے خلاف نعرہ بازی سے روکتے ہوئے خود “ پاکستان کھپے” پاکستان چاہیئے کا نعرہ لگا کر صوبائیت کو دفن کر دیتا ہے۔ یہ ہوتی ہے لیڈرشپ کی دانشمندی کہ کس طرح سلگتی چنگاریوں پر پانی ڈال کر انہیں آگ کے شعلوں میں بدلنے سے روکا جا سکتا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ دراصل حقیقتیں وہ ہوتی ہیں جنہیں تاریخ رقم کرے اور زمینی حقائق سچ ثابت کریں۔ زمینی حقائق کے ساتھ ایک حقیقت آپکے سامنے رکھ دی اب وہیں پر انہی تاریخ کے اوراق میں درج ایک اور حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ بلوچستان کا علاقہ ڈیرہ بگٹی ہے۔ وہاں کے ڈسٹرکٹ ہاسپٹل کا ایک واقعہ رپورٹ ہوتا ہے جس میں اس ہاسپٹل کی ایک لیڈی ڈاکٹر سے مبینہ زیادتی کا تذکرہ ملتا ہے جس میں کسی ایسے بندے کے ملوث ہونے کا الزام سامنے آتا ہے جسکے متعلق یہ قیاس ہوتا ہے کہ چونکہ اسکا تعلق طاقتور حلقوں سے جڑا ہوا ہے اسلیئے اسے سزا نہیں ہو گی جبکہ انہی لمحات میں وہاں کا قبائلی سردار نواب اکبر بگٹی یہ عَلم اٹھاتا ہے کہ یہ واقعہ اسکے علاقہ میں ہوا ہے لہٰذا وہ اسکا فیصلہ وہاں کی روایات کے تحت مقامی جرگہ کے سپرد کرے گا۔ بات بڑھتے بڑھتے نواب اور اس وقت کے ڈکٹیٹر کے درمیان کھلی جنگ کی صورت میں سامنے اتی ہے۔ مقامی سردار اپنی جنگ لیکر پہاڑوں میں چلا جاتا ہے جہاں پر ایک روز وہ لڑتے ہوئے اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے اور یوں وہاں کے عوام کو ایک ایسا نعرہ مل جاتا ہے جسکی آگ میں آج پورا بلوچستان شورش زدہ علاقہ بنا ہوا ہے۔ اسی طرح کا ایک اور کھیل کراچی میں نقیب اللہ محسود کے قتل کا بھی ہے جو ایک انفرادی واقعہ سے اجتماعی سٹرگل یا سلوگن بن چکا اور جسکی تپش آج بھی وزیرستان کی زمین کو جہنم بنا رہی ہے۔زمینی حقائق پر بات کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر اس وقت کا ڈکٹیٹر نواب اکبر بگٹی کے موقف کو اپنی انا کی جنگ نہ بناتا اور نقیب اللہ محسود کے کیس میں اگر حقائق پر مبنی کوئی کارروائی سامنے آ جاتی تو شائد آج ریاست اور ریاستی اداروں پر وہ انگلیاں نہ اٹھتیں جو آج اٹھ رہی ہیں۔
اہل فکر کو آج جو بات کھائے جا رہی ہے وہ وہی صورتحال ہے جسکا ریاست کو 1970ءاور 1971ءمیں سامنا کرنا پڑا تھا۔ ففتھ جنریشن وار کا سہارا لیتے ہوئے ڈیجیٹل دہشتگردی کا ایک ایسا بازار گرم کر دیا گیا ہے جہاں ریاست کے خلاف باتیں تو اپنی جگہ، ایک دفعہ پھر اس ریاستی ادارے اور اسکے ارکان کو کوسنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جا رہا اور کوشش یہ ہو رہی ہے کس طرح اس ادارے کے ڈسپلن کو ڈسٹرب کیا جائے اور اپنے مذموم مقاصد حاصل کیے جائیں۔ دانش کدہ کے مکین اس خیال کے حامی نظر آتے ہیں کہ ان حالات میں اصل کردار سیاسی اشرافیہ خاص کر حکومتی جماعت کا بن رہا ہے کہ وہ انفرادی سطح پر اپنی پارٹی کو پروموٹ کرنے اور بلیم گیم کی بجائے اپوزیشن کو مذاکرات کی طرف لائے۔ راقم اس سکول آف تھاٹ کا حامی ہے کہ جب کوئی آپکا گریبان پکڑے تو آپکو اسکا گلا نہیں کاٹنا چاہیئے کیونکہ ایسا کرنے سے خون کے چھینٹے آپکے کپڑوں پر پڑیں گے جنھیں دھونا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اپوزیشن میں بیٹھی ایک جماعت کے روئیے اور کارروائیاں بیشک اس بات کہ “ پتر پاویں مر جاوے پر نونہہ نو رنڈیاں ویکھناں اے” سے عبارت نظر آتی ہیں لیکن بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ اصلی سیاسی لیڈرشپ وہ ہوتی ہے جو بھٹو کی پھانسی اور بینظیر کے قتل پر ریاست کے خلاف چلنے والی ہر تحریک کو ناکام بنا دے۔ لیڈرشپ وہ نہیں ہوتی جو مخالف کو انگلی اٹھا کر اسی کی زبان میں جواب دے اور یوں ریاست مخالف بیانیئے والوں کو مزید پراپیگنڈہ کا جواز پیش کرے۔ کاش اپوزیشن سمیت اس ملک کے ہر فرد کو اس بات کا ادراک ہو کہ لیبیا، عراق، تیونس اور اب شام میں عرب بہار کے نام پر جس آزادی کے نعرے بلند کر کے اپنے ہی اداروں کے خلاف جنگ لڑی گئی وہاں کے حالات اب کس کروٹ بیٹھے ہیں۔ کاش ہم سمجھ جائیں کہ شخصیات، علاقائی تعصب، فرقہ پرستی، صوبائیت، ان سب کی ریاست کے آگے کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ریاست ہے تو ہم ہیں۔ اگر کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تو وہ فلسطین کو دیکھ لے کہ ریاست کے قیام کیلیئے وہ قوم کس کرب سے گزر رہی ہے۔ کاش ہماری قوم کا ہر فرد ان سلگتی چنگاریوں کو بجھانے کی کوشش کرے جو ہمارے اپنوں نے ہی سلگا رکھی ہیں۔
٭....٭....٭
سلگتی چنگاریاں
Dec 18, 2024