پچھلے کالم تلخ حقیقتوں میں تاریخی حوالوں سے ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس تھیوری میں کتنی سچائی ہے کہ جب بھی اس خطے کے کسی ایک علاقے یا ملک میں کوئی عوامی ردِعمل یا تحریک سامنے آئی ہے تو اس نے اپنے اردگرد کے علاقوں یا ہمسایہ ممالک کو ضرور متاثر کیا ہے۔ اس سباق میں بھارت اور بنگلہ دیش کے ساتھ اگر ایران اور افغانستان میں ہونیوالی سورشوں کا ایک مختصر جائزہ لیں تو شائد معاملات سمجھنے میں بہت آسانی ہو تو عرض ہے کہ جب بھارت اور بنگلہ دیش میں وقت کا کلہاڑا اپنی کاٹ میں عروج پر تھا تو اسی اثناء 1974ء میں افغانستان میں بھی حالات ایک نئی کروٹ لے چکے تھے۔ جولائی 1973ء میں ظاہرشاہ کا تختہ الٹنے والا اسکا کزن سردار داؤد نئی راہوں پر چلتے ہوئے پاکستان میں پشتونستان کے شوشہ میں جلتی پر تیل ڈالتے ہوئے اتنی آگے نکل چکا تھا کہ اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم بھٹو کے پاس اس بات کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تھا کہ وہ افغانستان میں ایک پراکسی وار شروع نہ کراتا۔ پھر تاریخ نے دیکھا کہ کس طرح حالات پلٹا کھاتے اپریل 1978ء میں میر اکبر خیبر کی تدفین پر PDPA کے لیڈروں نور محمد ترکئی، امین اللہ حفیظ اور ببرک کامل کی تقریروں کے بعد پھوٹنے والے ہنگاموں اور بالآخر 28 اپریل 1978 کو سردار داؤد کی موت پر منتجم ہوئے۔ افغانستان کے بعد چلتے چلتے اب ایران کی طرف بھی ایک چکر لگائیں تو تاریخ بتاتی ہے کہ ایران کے اندر خلفشار کی سلگتی چنگاری اس وقت نظر آتی ہے جب 1970ء میں ایک طرف شاہ ایران اپنی تاجپوشی کی تقریبات میں بے پناہ دولت لٹا رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف ایران میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے افراط زر عام آدمی کو ڈسنے لگتا ہے اور پھر جب شاہ ایران ایرانی سولر کیلنڈر کو ہجری سن سے ہٹا کر سارس دی گریٹ سے منسلک کرتا ہے تو وہاں کے مسلم مذہبی عناصر کی وجہ سے ایک ایسی آگ بھڑکنی شروع ہوتی ہے جو 1977ء میں پہلے علی شریعتی اور پھر امام خمینی کے بیٹے موسی کی پراسرار اموات پر پورے ایران کو اپنے شعلوں کی لپیٹ میں لے لیتی ہے جسکا انجام 1979ء میں اسلامی انقلاب کی صورت میں سامنے اتا ہے۔ اب آتے ہیں کالم کے مرکزی خیال کی طرف۔ پاکستان کے حوالے سے دیکھیں تو 1971ء کی تلخ حقیقتوں کے بعد پاکستان اس خطے کا وہ واحد ملک نظر آتا ہے جو اس خطے کے دیگر ممالک کے برعکس اس دورانیہ میں پہلے دن سے بیشمار مسائل میں گھرا ہوا ہوتا ہے جس میں اولین مسئلہ بھارت میں اسکے ترانوے ہزار جنگی قیدی، ہزاروں ایکڑ رقبے پر دشمن کا تسلط پھر جنگ سے تباہ حال اکانومی، ملک کیلیئے دستور کی عدم دستیابی اور سب سے بڑھکر بنگلہ دیش نامنظور کے نام پر ہونے والے پر تشدد مظاہرے لیکن اس سباق میں مورخ بتاتا ہے کہ ایک طرف بھٹو کی ذہانت اور دوسری طرف اسکی طلسماتی شخصیت کا کرشمہ کہہ لیجیئے کہ اس نے دو سال کے مختصر عرصے میں نہ صرف ان تمام مسائل کو حل کر لیا بلکہ 1974ء میں اسلامی کانفرنس کا انعقاد کر کے اور اسکے ساتھ ساتھ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھ کر دنیا کو ایک واضع پیغام دے دیا کہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان دنیا میں چھٹی پاور بن کر دکھائے گا۔ ان دنوں جب پاکستان تقریبا تمام مسائل پر قابو پا چکا تھا 1974ئ میں پاکستان کیلئے اس وقت انتہائی تشویشناک صورتحال پیدا ہوتی ہے جب اْس وقت این ڈبلیو ایف پی کہلانے والے صوبے اور بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکوں کو افغانستان اور بھارت کی طرف سے تقویت دی جاتی ہے جسکا توڑ بھٹو حکومت افغانستان میں جوابی وار سے کرتی ہے لیکن پھر تاریخ دیکھتی ہے کہ اناً فاناً بظاہر ہر محاذ پر کامیابی سے لڑنے والا بھٹو بھی مارچ 1977ء سے لیکر جولائی 1977ء کے شروع میں اسی وقت کے کلہاڑے کا شکار بنتا ہے جو اس خطے کے باقی چار ممالک کو اپنی چیرہ دستی کا نشانہ بنا چکا ہوتا ہے اور اپریل 1979 ء کو اسی انجام سے دوچار ہوتا ہے جسکا شیخ مجیب، اندرا گاندھی شکار ہوتے ہیں جسے کچھ نقاد مکافات عمل کا نام بھی دیتے ہیں۔ اس تاریخی جائزہ کے بعد جب پچھلے دو ماہ سے اپنے ملک پاکستان میں ہونیوالے تین episodes پر نظر ڈالتا ہوں تو عجیب سے مخمصے کا شکار ہو جاتا ہوں۔ پہلا سوال کہ یہ آزادی مارچ جسکے حوالے سے یہ بڑے تحفظات پائے جاتے ہیں کہ یہ مدرسوں کے طلباء کا آجتماع تھا اسکے کیا مقاصد اور اسکے محرک کون تھے۔ دوئم کیا یہ سْرخ مارچ اس بات کا پیغام ہے کہ ان مدارس کے مقابل بھی ایک ایسا گروہ ہے جو اپنی ایک پہچان اور اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے یا پھر اس لال مارچ میں ایک سیاسی پارٹی کی لیڈر جسطرح پیش پیش نظر آئیں کیا اسے اس بات کا پیش خیمہ سمجھا جائے کہ آنیوالے دنوں میں سیاست کے کسی ایک بہت بڑے نام کی نسبت کے حوالے سے نئی صف بندی ہونے جا رہی ہے اور ممکنہ طور پر وہ سیاسی خلاء جسکو سیاسی نباض اور سمجھ بوجھ رکھنے والے بڑی شدت سے محسوس کر رہے ہیں پْر ہونے جا رہا ہے۔ ابھی اس بابت سوچ ہی رہا تھا کہ یکایک پچھلے چند روز سے جو ایک مخصوص صورتحال ابھری ہے اسے خطے کے دیگر ممالک میں ہونیوالے ہنگاموں اور تحریکوں کے تناظر میں دیکھتا ہوں تو ہمزاد پھر ایک دفعہ ماضی کے جھروکوں میں لے جاتا ہے اور عجیب خدشوں اور مخمصوں میں مبتلا کر دیتا ہے کہ خاکم بدھن ایک دفعہ پھر کہیں وقت کا کلہاڑا۔۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38