ڈاکٹر اشفاق حسن اور انسداد غربت
بہت پہلے کی بات ہے آج ’’نسٹ،، سکول آف بزنس کے ڈین معروف ماہر معاشیات کبھی وزارت خزانہ کے مشیر اور ڈیٹ آفس کے سربراہ ہوا کرتے تھے، ان سے اکثر ملنے چلا جاتا تھا ، ایک وجہ تو یہ تھی کہ ڈاکٹر اشفاق حسن خان سے معاشی گھتیاں سمجھنے میں آسانی ہو جاتی تھی اوردوسرا ڈاکٹر اشفاق حسن خان چونکہ مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں اس لئے معیشت کے بارے میں عالمی سطح پر شائع ہونے والے جریدے ان کے پاس ہوتے تھے اور ان کے خاص حصوں کو پیلی روشنائی سے اجاگر رکھتے تھے ،تخفیف غربت ان کاخاص موضوع ہوا کرتا تھا ،ان کی گفتگو میں جوش لانے کا ایک گر جانتا تھا ،بس میرا اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ غربت بڑھ رہی ہے ،تو ڈاکٹر صاحب مصنوعی طور پر ناراض ہو کرکہتے کہ ظاہر ہوتا ہے کہ مطالعہ نہیں کرتے اور اس کے بعد ان کی فائلوں کے اندر سے پاکستان کی معیشت پر شائع ہونے والے مضامین برامد ہونا شروع ہوتے، ان کے اجاگر کردہ حصے سناتے، سمجھاتے اور کہتے کہ اس بارے میں لکھو،لوگوں کو بتائو کہ غربت کم ہو رہی ہے ،میں ان کی باتوںکو ذہن میں محفوظ کرتا چلا جاتا ،ڈاکٹر اشفاق حسن خان کی اس زمانے میں غربت میں کمی ہونے کی ایک دلیل آج بھی یاد ہے ،انہوں نے ملک میں تیار ہونے یا درآمد ہونے والی موٹر سائیکلز کا ذکر کیا اور کہا ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا اور دیہی علاقوں میں فروخت بڑھی ہے ،اس کے ساتھ وہ ریفریجریٹر اور اور ٹی وی سیٹس کی سیل بڑھنے کے اعدادوشمار بتاتے،عالمی بینک اور دیگر اداروں کے تائیدی بیانات دیکھاتے،تو مذید بحث کی گنجائش نہ پاتے ہوئے،معلومات کے دریا کا رخ کسی اور جانب موڑ دیتا،پھر وقت بدلا،اسحاق ڈار وزیر خزانہ بن گئے،انہوں نے ایک پیپر جاری کرایا جو ظاہر کر رہا تھا کہ غربت پہلے سے بھی بڑھ گئی ہے اور باقی ساری معیشت کا ستیاناس ہو چکا ہے ،اسحاق ڈار چند ہفتوں کے بعد سابق ہو گئے ،شوکت ترین ،حفیظ شیخ کے ادوار میں حکومت کی توجہ ذیادہ ادائیگی کے توازن اور دوسرے ایشوز پررہی مگر ایک بڑا کام کیا گیا جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی صورت میں تھا جس کی ستائش عالمی سطح پر آج بھی کی جاتی ہے ،اسحاق ڈار پھر آئے ،غربت کی سطح 26 فی صد بتاتے رہے،معیشت کو بہت بہتر بنا دینے کی بات کرتے رہے لیکن ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا ان کے ساتھ میچ ہی پڑا رہا ،داکٹر اشفاق حسن خان نے اسحاق ڈار کے دعوئوں کو کبھی درست تسلیم نہیں کیا اس کے جواب میں اسحاق ڈار نے بہت با ر ان پر سخت نکتہ چینی بھی کی ،آج اسد عمر وزیر خزانہ ہیں ان کے وزیر بننے سے قبل اور پہلے سو دنوں کے بیانات میں معیشت کی جو صورتحال بیان کی ،اس کا مطلب تو یہی ہے کہ غربت خطرناک حد تک بڑھی ہے،ہر طرف مسائل کے انبار اور پلے کچھ بھی نہیں ،اس طرح کے بیانات آنا چاہئیے یا نہیں یہ بھی ایک الگ بحث طلب معاملہ ہے ،مگر صورتحال جس حد تک خود حکومت سنگین بتا رہ ہی ہے اس میں تو حکومتی گاڑی کو مسائل کے حل کے لئے فراٹے بھرتے ہوئے نظر آنا چائیے،اب تک ایک اچھا فیصلہ سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غربت میں کمی کے لئے جو ادارے کام کر رہے ہیں ان کو یکجا کر دیا جائے تاکہ ’’اوورلیپنگ‘‘ سے بچا جا سکے،بیت المال ہے ،این آر ایس پی پی ،تخفیف غربت فنڈ،اور بہت سے اور بھی ادارے ہیں جو الگ الگ کام کر رہے ہیں ان کو ایک دائرئے میں لانا اچھا قدم اور تیزی سے کام کاباعث بن سکتا ہے ،ریاست اپنے باشندوں کے لئے ہوتی ہے اور اس کا فرض ہی آبنائے وطن کو بہتر زندگی دینا ہوتا ہے ،اگر ملک کے اندر 26فی صد ہی کو غربت کی سطح کو درست مان لیا جائے تو بھی ہر سو میں سے 26افراد خط غربت سے نیچے ہیں،یہ تعداد کروڑوں میں بن جاتی ہے،یہ بھیانک معاملہ ہے ،اگر دوڈالر روزکمانے والا غریب تر ہے تو تین یا چار ڈالر روزکمانے والاکونسا اچھے حال میں ہے ،اس تناظر سے دیکھا جائے تو ملک کی آبادی میںغریب ترین 26فی صد ہوں گے مگر غریبوں کے تعداد 60 فی صد سے تجاوز کر جاتی ہے،چین نے30سال میں 70کروڑ کو غربت سے نکالا اور ہم نے کروڑوں کو غربت کی جانب دھکیلا،اس کی وجوہات بہت سی ہیں ،کچھ بیان کی جاتی ہیں جن میں ناقص سروس ڈیلوری،قابل عمل منصوبہ نہ ہونا ،کرپشن ہیں مگر یہ کوئی بنیادی وجوہات نہیں ان سے بھی بڑی وجوہات ہیں جن کو بیان کرنے کی جرات کسی میں نہیں ہے،اس لئے کوئی دوا موثر نہیں ہو پاتی،سب جانتے ہیں بولتا کوئی نہیں ہے ،جو وسائل دستیاب ہیں ان سے کام چلانا آسان نہیں ہے ،وسائل کا سمندرچاہئے جو غریبوںکی جانب موڑنے کی ضرورت ہے ،اور سب سے بڑا ایشو یہی ہے کہ مالی وسائل دستیاب نہیں ہیں،نگر نگر گھوم رہے ہیں،آئی ایم ایف کے پاس جانا بھی چاہتے ہیں ،اس کے کہے بغیر سارے لوازام پورے کر رہے ہیں مگر اقرار کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے کہ ماضی کے زور دار موقف میڈیا پر چلنا شروع ہو جاتے ہیں،تین تین میڈیا مینجرز بھی پوری نہیں کر پاتے،آئی ایم ایف کاپاس جانا ہے تو قومی اسمبلی اور سینٹ میں جا کر پالیسی بیان دیں اور وام کو شرائط پر اعتماد میں لیا جائے،جس طرح کی اطلاعات ہیں اس میں 160ارب روپے کی مذید ٹیکسیشن کی بات پھیلی ہوئی ہے ،اگر یہ ہوتی ہے تو ان ڈائرکٹ ٹیکسوں کی وجہ سے مذید افراد کو غربت کی جانب موڑ دیا جائے گا۔ڈاکٹر اشفاق حسن خان اکثر کہتے ہیں کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا چاہئے ،وہ اس سے اجتناب کا فارمولہ بھی بتاتے ہیں ،غربت ختم کرنا ہیں تو ’’پرو پور‘‘پالیساں چاہئے،برامدات کی ضرورت ہے ،اس کے ساتھ ساتھ ہم آہنگی پر مبنی معاشرہ،امن وامان اور قابل عمل منصوبہ چاہئے، اعداد کے گورکھ دھندہ کی بجائے کام کر کے دیکھانے کی ضرورت ہے۔