عظیم ا لشان سلطنتِ عثمانیہ کی نشانیاں
شعبہِ طب کی مصروف زندگی کی وجہ سے کچھ برس یاد ہی نہیں رہا کہ لکھنا اور پڑھنا میری فطرت میں ہے ۔ والدہ اردو زبان میں ماسٹرز ہیں اور والد کے اُردو زبان میں تقریر و تحریر پر عبور سے دنیا واقف ہے ۔ سا ئنس کی طا لبہ ہو نے کے باوجود لٹریچر سے دلچسپی ہمیشہ رہی ۔ اُردو کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی طبع آزمائی کی لیکن کبھی اشاعت نہیں کروا ئی ۔ اس مرتبہ جب قلم اُٹھایا تو سو چا اُردو سی میٹھی زبان میں ہی لکھا جا ئے ۔ مو ضوعات تو بے شما ر ہیں لیکن حال میں ہی ترکی جا نے کا اتفاق ہوا۔ وہاں کا احوال ہی پڑھنے والوں کی نذر کروں۔ یہ میرا ترکی کا پہلا سفر تھا۔ شوہر عبیداللہ اور بیٹا محمد عبیداللہ بھی ہمراہ تھے ۔ بنیادی طور پر اسلامی ریاست ہو نے کے باعث وہاں پہنچ کر قطعی طور پر اجنبیت محسوس نہیں ہو ئی ۔ جدید اور قدیم کا حسین امتزاج دیکھا ۔ نئے اور پرانے ادوار اور طور طریقے کے لوگ مکمل اتفاق کے ساتھ نظر آ ئے ۔ بہت با پردہ خوا تین بھی دیکھیں اور نہا یت مغربی لباس میں ملبوس بھی ۔ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ کمال برداشت اور محبت کا سلوک د یکھنے کو ملا ۔ فطری اعتبار سے تُرک عوام کو کافی خوش مزاج پایا ۔ سالم اور ہلکی پھلکی مسکرا ہٹ کا تبادلہ ، وہ بھی اجنبیوں کے درمیان ایک خوش گوار تجربہ تھا ۔ بچوں سے شفقت ، راہگیروں کی مدد اُن کی طبیعت کا خاصہ ہے ۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے واضح کر تی چلوں کہ استمبول شہر دو برِ اعظموں ایشیاء اور یورپ میں واقع ہے ۔ ان دونوں براعظموں کو ایک قدیم اور مشہور پُل بنام ’’ بافورس پُل ‘‘ تقسیم کئیے ہو ئے ہے ۔ جس ہو ٹل میں ہم نے قیام کیا وہ استمبول کے یورپ والے حصے میں تھا ۔ یہ علاقہ جدیدیت کا عکاس ہے ۔ نئے طرز اور ماڈرن طریقے کے پیروکار یہاں اکثر یت میں دکھائی د یتے ہیں ۔
پُل کی دوسری جانب قدیم شہر کی یادگاریں جگہ جگہ نظر آ تی ہیں ۔ اور شہر یو ں کا لباس اور رہن سہن بھی پرا نی تہذیب و ثقافت کی تصویر پیش کرتا ہے ۔ تُرک اپنی زبان بولنے میں فخر محسوس کر تے ہیں ۔ لہذا اس زبان سے نا آشناء کو اپنی بات سمجھانے میں شروعات میں دِقت ہوتی ہے ۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے ساتھ بھی رہا ۔ انگریزی جیسے بین لااقوامی زبان کا درجہ حاصل ہے، سے بھی اکثر ترک نا واقف ہیں ۔ چیدہ چیدہ لوگ انگریزی بول یا سمجھ سکتے ہیں ۔مگر آپ کو یہ جان کر حیرانگی ہو گی کہ زبان سے مکمل نا واقفیت کے باوجود ہم اُن اور وہ ہمیں اپنی بات سمجھا پا ئے ۔ شا ید خلوص اپنے آ پ میں ہی ایک زبان ہے ۔ ۔ 13 ویں صدی کے احتتام پر وجود میں آ نے والی عظیم ا لشان سلطنتِ عثمانیہ کی با قیات جن میں ٹوپ کہی محل ، مسجدِ صوفیہ، نیلی مسجد ، گرینڈ بازار ، اور دیگر شامل ہیں کا دورا کرنے کا بھی موقع ملا۔ یقینا یہ تاریخی سفر میرے لیے ز ندگی بھر نا قابلِ فراموش رہے گا۔ خاص کر کے ٹوپ کہی محل تفصیل سے گھوم پھر کر دیکھا۔ یہ بات داد دینے کے لا ئق ہے۔ کہ اپنی ثقافت اور تہذیب کو بہت خیا ل اور خوبصورتی کے ساتھ محفوظ کر رکھا ہے ۔ وسیع رقبے پر شاہانہ طرز کی تعمیر ہے، جس کو ایک دن میں مکمل دیکھنا ممکن نہیں ۔ چونکہ 4 سالا محمد بن عبیداللہ بھی ہمراہ تھے ۔ لہذا طے یہ پایا کہ وقت کی بچت کی خاطر ایک گا ئیڈ کی مدد لے لی جا ئے ۔ اس طرح بیٹے محمد بیزار بھی نہیں ہوں گے ۔ اور خوشگوار ماحول میں محل بھی گھوم پھر لیا جا ئے گا۔ یقینا ما نیے محسوس ہوا کہ گویا اُس زمانے میں چلے گئے ہوں ۔ جہاں بادشاہ ، ملکہ ، مادرِ ملکہ اور شاہی خاندان کے دیگر افراد انتہائی جاہ و جلال کے ساتھ زندگی بسر کیا کر تے تھے ۔ ساتھ ہی ساتھ انسان کی فانی اوقات اور ادنی حیثیت کا بھی بارہا خیال آ یا ۔ محل کے درو دیوار، اُن پر خوبصورت کیلی گرافی، قیمتی قالین، نایاب فر نیچر ، لشکاتے آ ئینے اور چمکتے فانوس سب وہیں کا وہیں ہے ۔ بس وہ انسان نہ رہا جو کبھی تن کے یہاں چلاتا تھا۔ حقیقتاََ ہر عروج کو زوال ہے ۔ محل کا ایک حصہ مذہبی نوادرات کے لیے محتص ہے ۔ جن میں حضور سرورِ کا ئنا ت ؐ سے وابسطہ اشیاء روحانی سکون کا ذریعہ ہیں ۔ خوشگوار حیرت کی بات یہ تھی کہ اس حصے کے باہر جو انتظار کرنے والوں کی لمبی قطاریں تھیں اُن میں دوسرے مذہب کے پیروکار بھی بڑی تعداد میں نظر آ ئے ۔یہ دیکھ کر انتہا ئی خوشی ہو ئی کہ اسلامی تاریخ کے طالب علم ہر ملک اور تہذیب میں پا ئے جا تے ہیں ۔ یقینا یہ محل کا سب سے ُروح پرور حصہ ہے ۔ ایک چیز جو ذاتی طور پر بہت پسند آ ئی اور جیسے میں اپنی سر زمینِ پاکستان میں بھی ہر جگی دیکھنے کی خواہش مند ہوں وہ ہے حوصلہ اور برداشت کا رویہ ۔ دوسرے انسانوں کے لیے برداشت، دوسری تہاذیب کے لیے برداشت ۔ مختلف شہریتوں کے لوگ جگہ جگہ آ ئے ۔ لیکن سب ایک دوسرے کو سپیس دے رہے تھے ۔ جسے ہم ’’حقِ سیاحت‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ ہر کو ئی اپنی راہ چل رہا ہے ۔ اور کسی کا راستہ روکتا نہیں۔ کسی کو کسی اور کے طور طریقے ، لباس یا رہن سہن سے کچھ لینا دینا نہیں ۔ کو ئی کسی کو گُھور کر دیکھے گا نہیں ۔ یہ معاشرتی رویہ دعا کر تی ہوں ۔ ایک دن بہت جلد اپنے ملک میں بھی ہر جگہ دیکھوں ۔ اس سے نہ صرف سیاحت کو مزید فروغ ملے گا بلکہ ساتھ ہی ساتھ بینالااقوامی برادری میں پاکستان کا مثبت چہربھی سامنے آ منے آ ئے گا۔ حا لات کا رُخ بدلا ہے اور جو تبدیلی کی ہوا چلی ہے محسوس ہو تا ہے کہ وہ دن دور نہیں ۔ قلم اُٹھا ئوں تو کئی معاشرتی مسا ئل اور سماجی رو ئیے ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں ۔ جن پر لکھنے کو دل بھی چاہتا ہے ۔ لیکن اپنے پہلے کالم کے لیے ایک ہلکے پھلکے موضوع کی تلاش تھی ۔ لہذا تُرکی کے حالیہ سفر کا مختصر حال پیش کیا۔ مستقبل میں ہر شعبہِ زندگی سے متعلق سنجیدہ اور دلچسپ موضوعات قلم بند کرنے کا ارادا ہے۔ امید کرتی ہوں کہ لکھنے اور پڑھنے کی اس خوبصورت خاندانی میراث کا کچھ نہ کچھ حق ادا کر سکوں ۔