منظر نامہ ریاض وامریکہ اورتہران ‘ خلیج عدن وبحراحمر
12 دسمبر کو صدر عارف علوی نے ریاض میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی، سرمایہ کاری اور باھمی تعلقات پر بات ہوئی۔ ماشاء اللہ سعودی مالی مدد کی دوسری قسط بھی قومی خزانے تک آگئی ہے۔ طارق باجوہ گورنر سٹیٹ بینک نے 16 دسمبر کو کہا تھا کہ متوقع سعودی آئل سہولت سے پاک کرنسی پر دباؤ ختم ہو جائے گا۔ یہ مالی سعودی 3 بلین ڈالر کی مدد جنوری میں میسر آنے والی ہے انشاء اللہ سعودی وزیر حج سے مکہ مکرمہ میں وفاقی وزیر مذہبی امور نورالھدیٰ القادری کی ملاقات ہوئی‘ پانچ ہزار کا حج کوٹہ اس ملاقات میں پاکستان کو مزید دیا گیا ۔ پاک سعودی ان معاملات کے ساتھ حیرت اور تعجب ہے کہ چیف جسٹس محترم میاں ثاقب نثار نے سپریم کورٹ کی طرف سے وزارت دفاع اور فوج کے اسلامی عسکری اتحاد کے کمانڈر حیثیت منصب کے لیے ملے ہوئے جنرل (ر ) راحیل شریف کے این او سی کو نامکمل اور نادرست کیوں قرار دیا ہے؟ کیا وزیراعظم عمران خان وفاقی کابینہ میں این او سی معاملہ کو پیش کرکے پہلے سے طے شدہ معاملے کو ہی سپریم کورٹ کے حسب خواہش بنا دیں گے؟ انشاء اللہ اس کی توقع رکھنی چاہیے۔ اب آتے ہیں مشرق وسطیٰ میں جاری عالمی اور علاقائی مدوجذر کی طرف‘ بظاہر حوثی ویمنی ھادی حکومت میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا ہے اور الحدیدہ بندرگاہ کے حوالے سے بھی مفاھمت ہوئی ہے۔ مگر میں کافی شک میں مبتلا ہوں کہ یہ معاہدہ مستقبل کا حقیقی اور دائمی معاہدہ بن سکے گا۔ جب سعودی واماراتی اتحاد کے اہداف اور مقاصد یمن اور الحدیدہ بندرگاہ کے حوالے سے یقینی طور پر پورے نہیں ہونگے تو وہ کیسے مبہم اور مشکوک اور کمزور معاہدے پر ہاں کریں گے؟ جبکہ حوثیوں کی تاریخ ہے کہ وہ ایک وقتی معاہدہ کرکے کچھ عرصہ بعد معاہدہ توڑ دیتے ہیں۔ جنرل صالح کو صدر منصب سے معزول کرنے کے لیے اس کے خلاف بغاوت کی۔ جب سعودی عرب نے مداخلت کرکے صدر صالح کو سبکدوش کروا کر نائب صدر ھادی کو اقتدار سونپ دینے پر آمادہ کیا تو حوثیوں نے اس معاملے کو اپنی فتح قرار دیا اور ھادی حکومت کو قبول کرلیا مگر کچھ عرصہ بعد ھادی حکومت کے خلاف اسی ماضی کے ناپسندیدہ سابق صدر جنرل صالح سے اتحاد کرکے سعودیہ کے خلاف اور ان کی مدد سے بنے ہوئے صدر ھادی کے خلاف بھرپورجنگ شروع کر دی۔ پھر ایک دن اپنے اتحادی اسی سابق صدر صالح سے جنگ شروع کر دی حتی کہ ان کو ساتھیوں سمیت قتل کردیا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ذریعے طے ہو چکے معاہدے کا ٹوٹ جانا کافی ممکن رہے گا۔ سعودی عرب کا بحراحمر اور خلیج عدن پر سیاسی وعسکری بالادستی کا حصول بہت جائز ضرورت ہے۔ 12 دسمبر کو ریاض میں بحراحمر اور خلیج عدن ( الحدیدہ بندرگاہ سمیت) کے لیے نیا سیاسی اتحاد جو علاقائی 7 ممالک پر مشتمل ہوگا پر غور ہوا۔ یہ ممالک سعودی عرب‘ مصر‘ جبوتی‘ صومالیہ‘ سوڈان‘ یمن اور اردن ہیں۔ ان ممالک کے نمائندوں نے ریاض میں متوقع اتحاد کی تشکیل پر مشاورت کی ہے۔ اس اتحاد کا مقصد بحراحمر اور خلیج عدن میں ایران‘ ترکی ‘ قطر کے اثرورسوخ میں کمی کرنا ہے۔ اگر ہم تجزیہ کر سکیں تو سعودیہ کی فوری اور شدید ضرورت تھی کہ پاکستان خلیج عدن میں اپنی بحری قوت متعین کرکے الحدیدہ بندرگاہ تک حوثیوں کے لیے اسلحہ ومالی مدد لے جاتے جہازوں کی تلاشی لیکر سعودیہ کی مدد کرے مگر ہماری حکومت اور پارلیمنٹ نے یمن جنگ کا نام لیکر سعودیہ جائز خواہش کو پورا نہ کیا اور سبب بتایا گیا کہ ایران پڑوسی ہے وہ ناراض ہوگا۔ ماضی میں جو ضرورت پاکستان نے پوری نہیں کی تھی اب سعودیہ نے اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے 7 علاقائی ممالک پرمشتمل سیاسی اتحاد کی تشکیل کا سوچا ہے۔ سوڈان‘ جبوتی‘ مصر وغیرہ آسانی سے اپنی افراد ی عسکری قوت دیں گے اور مالی وسیاسی فوائد حاصل کریں گے؟ 9 دسمبر کو تہران میں افغانستان‘ چین‘ ایران ‘ پاکستان ‘ روس‘ ترکی کی پارلیمان کے اسپیکرز کا اجلاس ہوا۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے اس اجلاس میں خطاب کے ذریعے تجویز دی کہ ان سب ممالک پر مبنی علاقائی اتحاد بننا چاہیے جو امریکی اقتصادی دہشت گرد پالیسیوں اور پابندیوں کے خلاف ہو۔ جہاں تک صدر ٹرمپ کی طرف سے ایرانی تیل کی خریداری پر سخت پابندیاں عائد ہیں میں انہیں بالکل غلط سمجھتا ہوں۔ بالکل ایران کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے نکلا ہوا تیل دنیا بھر میں روس اور سعودیہ کی طرح ہی آسانی سے فروخت کرے۔ مشورہ ہے کہ ایران الحدیدہ وخلیج عدن میں اپنی غلط مداخلت ختم کرکے اپنی پریشان کن معاشی اور اسٹرٹیچک مشکلات کو ختم کرنے کے آپشن پر غور کرے۔ مجھ سے قارئین نے بار بار مطالبہ کیا ہے کہ ان کی خواہش کالم کا حصہ بناؤں کہ سعودیہ وامارات کھل کر پاک ایران پائپ لائن کی تکمیل کی حمایت کر دیں کیونکہ ایرانی حکومت پہلے ہی بلوچستان میں متوقع سعودی آئیل ریفائنری اور سرمایہ کاری پر اپنا مثبت موقف دے چکی ہے۔ کیا عرب سفراء اہل پاکستان کی جائز خواہش کو اپنی حکومتوں کے سامنے مثبت سفارش کے ساتھ پیش کریں گے؟ قارئین کا اصرار ہے کہ سعودیہ وامارات پاک ایران مثبت تعلقات کے قیام پر ناراض ہو جانے کی اپنی پرانی عادت بھی چھوڑ دیں۔ اسی طرح پاک قطر اقتصادی تعلقات پر بھی ناراض نہ ہوں کیونکہ پاکستان کو افرادی قوت کے روزگار کے لیے قطر کی طرف سے خوش آمدید کہا جارہا ہے۔ ممکن ہے وزیراعظم عمران خان قطر کا دورہ کریں۔ 9 دسمبر کو ریاض میں خلیج تعاون کونسل کا جو اجلاس ہوا تھا اس میں امیر قطر نے خود شرکت نہیں کی تھی بلکہ اس حوالے سے بحرین اور قطر کے وفود میں تلخ کلامی ہوئی کہ امیر قطر کیوں کانفرنس میں خود شریک نہیں ہوئے ۔ شاہ سلمان نے کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے ارشاد کیا تھا کہ ’’ ممبر ممالک‘ کویت‘ عمان (مقسط) امارات‘ بحرین اور قطر مل جل کر ایران اور دھشت گردی کے مخالف اپنا کردار ادا کریں ‘‘ میں مسکرا رہا ہوں کہ سعودی واماراتی معاشی وسیاسی وجغرافیائی محاصرے کے بعد امیر قطر بھلا کیسے خوش دلی کے ساتھ اس سعودی خواہش کو پورا کریں گے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کانفرنس کے بعد سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ عرب ممالک امریکہ کے ساتھ بیرونی جارحیت سے تحفظ کے لیے نیا سیکورٹی معاہدہ کرنے کے لیے بات چیت کررہے ہیں مگر 12 دسمبر کو حکمران ریپبلیکن سینیٹر لنڈ سے گراھم نے کہا کہ عرب امریکی حمایت کے بغیر کچھ نہیں‘ سعودی عرب پر اعتماد کرنا ضروری نہیں سمجھتا‘ اگر امریکی حمایت حاصل نہ ہو تو نوبت یہ آجائے گی کہ لوگ فارسی بولنے لگیں گے۔ سعودی عرب کی فوج میں مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ امریکہ کو اتنی سعودی عرب کی ضرورت نہیں جتنی سعودی عرب کو امریکہ کی ہے‘‘ لگتا ہے امریکہ ہر کوشش میں ہے کہ پاک سعودی واماراتی وعرب عسکری تعلق ختم ہو جائے ۔جبکہ 16 دسمبر کو ایرانی وزیر خارجہ جوادظریف نے فرمایا کہ امریکہ وسعودی عرب مشرق وسطیٰ عدم استحکام کے اصل ذمے دار ہیں۔ میں اس بیان پر مسکرا رہا ہوں کہ شاہ کے عہد میں تو سعودی وایرانی عمدہ ترین تعلقات تھے۔ البتہ انقلاب کے بعد عموما اور موجودہ روحانی رہبر علی خامنائی کی آمد سے جنگی فضاء تیار ہوئی ۔ سینیٹر گراھم کو میرا جواب یہ ہے کہ آپ حماس اور غزہ کے قاتل اسرائیل کے بھرپور حامی ہیں۔ فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام کے حامی ہو کر آپ کس طرح خاشکجی کے حوالے سے مسلسل ولی عہد کو بلیک میل کررہے ہیں؟ اصل میں سینیٹر گراھم کو یہ بھی غصہ ہے کہ شاہ سلمان نے حال ہی میں غزہ کے فلسطینی مظلوموں کی بھرپور امداد کا اعلان کیا جس میں فوری بہت زیادہ مالی مدد سر فہرست ہے جبکہ غزہ وحماس کے خلاف امریکی واسرائیلی قرار داد اقوام متحدہ میں نہ صرف مسترد ہوئی بلکہ حماس وغزہ کی مظلومیت کے حوالے سے قرار داد پاس بھی ہوئی اس عرب ’’ڈیپلومیسی‘‘ کی وجہ سے بھی گراھم نے سعودیہ مخالف بیان دیا ہے دو ٹوک بات ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کی حمایت کرتا ہوں کیونکہ ان کی موجودہ منصب پر بقاء اصل میں آل سعود کی ’’بقائ‘‘ کا معاملہ بھی ہے۔ اگرآج محمد بن سلمان کو صرف خارجی دباؤ پر محروم اقتدار کیا گیا تو خود سعودی بادشاھت کا مستقبل ہی سوالیہ نشان بن جائے گا لہذا پاکستان کو شہزادہ محمد کی بھرپور حمایت کرنی چاہیے جبکہ اوائل دسمبر میں امریکی جریدے ٹائم میگزین نے۔ شہزادہ محمد کو صدر ٹرمپ وصدر پیوٹن سے بھی آگے کی ممتاز ترین شخصیت قرار دیا ہے۔