مسلم لیگ (ن) کا زوال
پاکستان کی سیاسی جماعتیں ملک میں جمہوریت کے فروغ اور استحکام کی ہمیشہ خواہش مند رہی ہیں لیکن خود ان میں جمہوریت کا فقدان رہا ہے۔ جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں کا جو کردار ہے ہمارے یہاں ایک خامی رہی ہے کہ تنظیم کو شاہانہ انداز سے چلایا جاتا ہے۔ دوسری طرف ماسوائے ایک دو جماعتوں کے باقی کا ووٹ بنک اُنکی شخصی قیادت کا مرہون منت ہوتا ہے۔ مثلاً میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کا ووٹ بنک نواز شریف، پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک بھٹو خاندان اور پی ٹی آئی کا ووٹ بنک عمران خان کا مرہون منت ہے۔
مسلم لیگ (ن) کا قیام 1993ءمیں عمل میں آیا تھا جب میاں نواز شریف نے 1993ءمیں مسلم لیگ نواز کو الیکشن کمشن میں رجسٹرڈ کروایا۔ سرتاج عزیز، سرانجام خان اور اقبال ظفر جھگڑا اُنکے ساتھ سیکرٹری جنرل رہے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے مسلم لیگ (ن) میں سیکرٹری جنرل کا عہدہ خالی چلا آ رہا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی پارٹی کا نہ کوئی صوبائی صدر ہے اور نہ ہی جنرل سیکرٹری۔ بس کام اللہ توکل چل رہا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) میں پہلی دراڑ پرویز مشرف کے دور میں پڑی جب مسلم لیگ (ن) کے بطن سے مسلم لیگ (ق) نے جنم لیا۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے 2002ءمیں ق لیگ کی حکومت بنوانے کیلئے پیپلز پارٹی کے چوٹی کے بعض لیڈرں کوتوڑ لیا اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنا کر اس کا ق لیگ سے الحاق کروا دیا۔ سو مسلم لیگ (ق) کے ظفر اللہ جمالی اس طرح ایک ووٹ کی اکثریت سے ملک کے وزیراعظم بنے۔ مسلم لیگ (ن) نے پارٹی قائدین نواز شریف ، شہباز شریف اور اُنکے اہل خانہ کی جلاوطنی کے باوجودحوصلہ دکھایا اور محض چند ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی نے مرکز، پنجاب اور کے پی کے میں جاندار اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ 2007ءمیں شریف خاندان کی وطن واپسی پر مسلم لیگ (ن) کو دوبارہ عروج حاصل ہوا جبکہ 2018ءکے الیکشن میں پی ٹی آئی کے مرکز، پنجاب اور کے پی کے میں حکمران بن جانے کے بعد اس جماعت پر برا وقت آیا۔ الیکشن 2018ءسے پہلے مسلم لیگ (ن) کو توڑنے کی سرتوڑ کوششیں ہوئیں لیکن سیاست میں نواز شریف کا جادو چل رہا تھا سو اس پارٹی کو توڑا نہ جا سکا البتہ اسکے بعض ٹکٹ ہولڈر جو مسافر سیاستدان تھے یکے بعد دیگرے اُنکا ساتھ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوتے چلے گئے۔
الیکشن 2018ءسے پہلے بعض دیگر ایسے واقعات ہوئے جو کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اور یہاں اُن کا ذکر بے محل ہو گا سو ہم آگے بڑھتے ہیں۔ میاں نواز شریف نے بعض غلط فیصلے کئے ،پارٹی کی تنظیم سازی کے حوالے سے بھی انہوں نے ایک غلط فیصلہ کیا اور ماضی میں پارٹی کے آرگنائزر یا کوآرڈی نیٹر کے طور پر اپنی ذمہ داری احسن انداز میں نبھانے میں ناکام ثابت ہونیوالے چودھری احسن اقبال کو پارٹی کا ایک مرتبہ پھر پارٹی کا مرکزی چیف آرگنائزر بنا دیا۔ اُنکے ہمراہ پہلے اٹھارہ رکن اور پھر چار ممبران کے اضافے سے بائیس رکنی آرگنائزیشن کمیٹی تشکیل دی گئی جو پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔ پنجاب میں تو پہلے ہی کوئی صدر، جنرل سیکرٹری نہیں تھا۔ سندھ میں تنظیم توڑ کر مشرف دور کے بعد مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونیوالے اور ماضی قریب میں گورنر سندھ رہنے والے محمد زبیر کو پارٹی کا آرگنائزر بنا دیا ۔
بلوچستان میں یہ ذمہ داری جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کو سونپی گئی۔ سندھ میں محمد زبیر صاحب نے اپنی آرگنائزنگ کمیٹی کے ایک تعارفی اجلاس کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ سو وہاں کچھ اچھا نہیں ہوسکا تو پارٹی کو اس سے ذیادہ نقصان نہیں پہنچا کہ چند کام کرنےوالے عہدیداران شاہ محمد شاہ ، علی اکبر گجر، خواجہ طارق نذیر اور ان جیسے بعض پرانے ورکر گھر بیٹھ گئے لیکن بلوچستان میں تو جنرل (ر) عبدالقادر نے پارٹی کی لٹیا ہی ڈبو دی۔ انہوں نے پارٹی کو اپنی بٹالین سمجھ کر احکامات دئیے۔ اُنکا مینڈیٹ صوبائی ڈھانچے کےلئے مرکزی آرگنائزر احسن اقبال اور صدر شہباز شریف کو اپنی سفارشات پیش کرنا تھا لیکن دھونس اور دھاندلی کی سیاست کر کے انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی تقسیم کا آغاز بلوچستان سے کر دیا۔ انہوں نے اپنے طور پر پہلے 30 نومبر کو بلوچستان تنظیم کے انتخابات کروانے کا اعلان کیا جبکہ صوبائی ورکنگ کمیٹی کے 40 میں سے لگ بھگ29 ارکان اس کیخلاف تھے۔ جناب احسن اقبال کو بلوچستان مسلم لیگ کے قائم مقام جنرل سیکرٹری سیدال خان ناصر نے جو کہ پچھلے 29 سال سے پارٹی کے کارکن ہیں اور ہر طرح کے حالات میں نواز شریف کے سپاہی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اس صورتحال سے تحریری طور پر آگاہ کیا لیکن انہوں نے اُنکی فریاد نہ سنی اورپارٹی آئین کے دئیے گئے حوالے سے مزین انکے یکے بعد لکھے گئے خطوط کوخطوط کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ حالیہ ابتلاءکے دور میں پارٹی کے قائم مقام صدر بنائے جانےوالے سردار یعقوب ناصر اور 2001ءتا 2012ءپارٹی کے مرکزی نائب صدر رہنے والے رفیق اعوان اور خیر بخش مری کے پاکستان کے سپاہی بیٹے نوابزادہ چنگیز مری فریاد کرتے رہے خدا را پارٹی نہ توڑیں، نواز شریف، شہباز شریف سمیت پارٹی کے چوٹی کے رہنما مخالفین کی سازشوں کا شکار ہیں، پارٹی پر بُرا وقت ہے مل جل کر معاملات کو ٹھیک کر لیتے ہیں لیکن جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے اُن کی ایک نہ سنی وہ خود کو پہلے بلوچ اور بعد میں کچھ اور کہنے والے نواب ثناءاللہ زہری کے ہتھے چڑھے رہے۔ اُن کا 30 نومبر کو الیکشن کروانے کا فیصلہ نامناسب قرار دیا جا رہا تھا لیکن انہوں نے 23 نومبر کو پارٹی الیکشن کروانے کی نئی تاریخ دے دی۔ صوبائی کنونشن بلایا اور انٹرا پارٹی الیکشن ہو گئے۔ مسلم لیگ (ن) کے بلوچستان میں مخالفین نے اس ساری صورتحال سے چودھری احسن اقبال کو تحریری طور پر آگاہ کیا۔ میاں شہباز شریف اور چیئرمین راجہ ظفرالحق تک بھی بات پہنچی لیکن شکایات کا کوئی مداوا نہیں ہو سکا۔ بالآخر 15 دسمبرکو بلوچستان میں پارٹی اس وقت واضح دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی جب پارٹی کی صوبائی ورکنگ کمیٹی کے 40 میں سے آدھے سے زیادہ ارکان نے پریس کانفرنس کر کے 23 نومبر کے الیکشن کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیکر مسترد کر دیا۔ اب سردار یعقوب ناصر، سیدال خان ناصر، رفیق اعوان، نوابزادہ چنگیز مری، صوبائی ورکنگ کمیٹی کے ممبران محمد اجمل اعوان(ضلع ژوب) عبدالقدیر بلوچ (ضلع تربت) ، فتح علی خان کھوسہ (ضلع جعفر آباد) ، میر عالم خان گولہ (ضلع نصیر آباد) ملک کرم خان فجک (ضلع سبی) محمد ہاشم خان بڑلچ (کوئٹہ سٹی) عمران علوی ایڈووکیٹ لائرز ونگ، سید شرافت الدین شاہ (یوتھ ونگ)، ظہور خان درانی کوئٹہ سٹی اور میڈم ممتاز اختر (شعبہ خواتین) ایک طرف ہیں جبکہ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، نواب ثناءاللہ زہری، جمال شاہ کاکڑ دوسری طرف ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں بلوچستان صوبے سے جو دراڑ ڈلوائی گئی ہے اس کی ٹیسیں باقی صوبوں میں بھی محسوس ہوں گی۔