وزیر اعلیٰ کیلئے چند صائب مشورے!
پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اسکی آبادی بارہ کروڑ ہے۔ باالفاظ دیگر بقیہ تین صوبوں کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ۔ پاکستان کی جیو پالیٹیکس یہ ہے کہ جس کے پاس پنجاب ہے، مرکزی حکومت کی تاریں بھی وہ ہی ہلاتا ہے اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اسکی وزارت اعلیٰ ایک نہایت اہم عہدہ ہے اگر مرکز اور اس صوبے کی حکومت ایک پارٹی کے پاس ہو تو بھی پارٹی کے سربراہ کو وزیر اعلیٰ کا انتخاب بڑی سوچ بچار کے بعد کرنا پڑتا ہے۔ میاں نواز شریف نے بطور وزیر اعلٰی پنجاب وزیراعظم محترمہ بے نظیر کو زچ کر دیا تھا۔ انکی حکومت کو ٹھیک طرح سے چلنے نہ دیا جب اس نے اپنا چیف سیکرٹری بھیجنا چاہا تو میاں صاحب نے اس کو باغ جناح کا سپرنٹنڈنٹ گارڈن بنانے کی دھمکی دی۔ دھمکی کارگر ثابت ہوئی اور چار و ناچار مرکز کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا یہی کڑوی گولی میاں نواز شریف کو اس وقت نگلنا پڑی ان کے مقرر کردہ چیف سیکرٹری، پرویزمسعود کے وارنٹ گرفتاری وزیراعلیٰ میاں منظور وٹو نے نکال دئیے۔ پرویز مسعود اور کمشنر طارق فاروق کو رات کے وقت جسٹس میاں محبوب سے ضمانت قبل از گرفتاری کرانا پڑی۔ وٹو نے عملاً میاں صاحب کا پنجاب میں داخلہ بند کر دیا تھا۔ اس ڈیڈ لاک کی وجہ سے اسمبلیاں ٹوٹ گئیں اور ازسرنو الیکشن کروانے پڑے۔ الیکشن میں میاں صاحب کا دھڑن تختہ ہو گیا یہی وجہ ہے کہ اگلے الیکشن میں جب مقتدر طاقتوں نے سابقہ خطائیں معاف کر کے میاں صاحب کو دوبارہ وزیراعظم بنوایا تو انہوں نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے پرویز الٰہی کی جگہ برادر خورد شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنا دیا۔ ہم خُرما وہم ثواب! حبیب جالب نے ایک مرتبہ صدر ایوب خان اور اُسکے بھائی سردار بہادر خان کے متعلق طنزیہ نظم لکھی تھی۔ انور بھائی، بابر بھائی، بیچوں بیچ بنے گندھارا، پوبارہ، سردار بہادر خان حزب اختلاف کے لیڈر تھے۔ میاں صاحب کے ”پوبارہ“ ہوگئے کیونکہ وزارت عظمٰی اور اعلیٰ کے عہدے یکجا ہو گئے تھے۔ مصلحت کوشی کے تحت اس وقت تو چوہدری برادران منقارِ زپر ہو گئے، لیکن جب مشرف نے نواز شریف کو جلا وطن کیا تو اُنہوں نے بھی آنکھیں پھیر لیں اور ڈیل کر کے وزرات اعلیٰ ہتھیا لی! گذشتہ ستر برس سے میوزیکل چیئرز کی یہ گیم ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ کھیلی جا رہی ہے۔ شیکسپیئر نے کہا تھا OPPORTUNITY THOU FALT IS GREAT ہر کسی نے موقع سے فائدہ اُٹھایا ہے اور بہتی گنگا میں صرف ہاتھ ہی نہیں دھوئے باقاعدہ اشنان کیا ہے ۔
فرانسیسی فلاسفر مانٹیک نے کہا تھا POWER CORRUPTS AND ABSOLUTE POWER CORRUPTS ABSOLUTELY۔
پہلی غلطی بھٹو نے کی گونہایت زیرک انسان تھا مگر مردم شناس نہیں تھے انہوں نے غلام مصطفی کو مدار الہام بنا دیا۔ کھر صاحب کو اپنی دم پر کھڑا ہونے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ الیکشن سے پہلے بھٹو کے ڈرائیور کہلاتے تھے، جلد ہی شیر پنجاب بن گئے۔ ایک نہایت تکلیف دہ اور صبر آزما عمل کے بعد شیر کو پنجرے میں بند کر دیا گیا اور اسکی جگہ ایک بے ضرر مصور کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ انکی حیرانی کی حد نہ رہی جب حنیف رامے نے بھی اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا شروع کر دی۔ گو بعداز خرابی بسیار اسے بھی کینوس کی طرف دھکیل دیا گیا لیکن مرکز میں ایک سوچ راسخ ہو گئی۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو وقتاً فوقتاً تاش کے پتوں کی طرح پھینٹنا چاہیے تاکہ پر پُرزے نہ نکال سکےں۔ نیز ایسے شخص کو وزیر اعلیٰ بنانا چاہیے جس کی سوچ اپنے محیط سے بھی باہر نہ نکل سکے از قسم عارف نکئی، غلام حیدر وائیں وغیرہ! وہ اپنی آگ کو خور روشن نہ کر سکتا ہو بلکہ دریوزہ گر آتش بیگانہ ہو۔حاضر جناب ٹائپ!
پنجاب کے وزیراعلیٰ کیلئے بڑے جغادری پہلوان اس منصب کے اُمیدوار تھے۔مگر عثمان بزدار عمران خان کا انتخاب قرار پائے۔ بزدار صاحب پر آئے روز طنز و تشنیع کے نشتر چلائے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ سے ہے۔ میں 1997ءمیں ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان تھا۔ خواندگی کے اعتبار سے یہ تحصیل بہت آگے ہے۔ اس نے فکر تونسوی‘ طاہر تونسوی اور دیگر بے شمار شاعر اور ادیب پیدا کئے ہیں۔ دریا سے جو نہر نکلی ہے‘ اس نے اسکی دھرتی کو گلزار بنا ڈالا ہے۔عثمان بزدار کے والد صاحب سے اکثر ملاقات ہوتی رہی۔ نہایت شریف‘ کم گو اور اپنی ذات میں گم انسان ہیں۔ کھوسوں اور لغاریوں‘ مزاریوں کے مقابلے میں بزدار قبیلہ چھوٹا ہے۔ سردار ذوالفقار کھوسہ اور فاروق لغاری اپنی پبلسٹی کرنا خوب جانتے تھے۔ یہ اس سے بے نیاز ہیں۔ یہ اس شخص کے جانشین بنے ہیں جو اپنی تشہیر کرنے میں یدطولیٰ رکھتا تھا۔ یہ نہ تو ربڑ کے گھٹنوں تک لمبے بوٹ پہن کر سیلاب کے پانی میں چھلانگ لگا سکتے ہیں اور نہ چنگچی رکشا میں بیٹھ کرگردن اکڑا کر انہیں فوٹو کھنچوانے کا فن آتا ہے۔ غالباً آئے روز سرکاری ملازمین کی گوشمالی اور تضحیک کرنے کی بھی ان کا ضمیر اجازت نہ دے۔ طبعی شرافت کی وجہ سے یہ ”ہل من مبارز“ کا نعرہ بھی نہیں مار سکتے۔ فلاں کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالوں گا۔ گوالمنڈی کی سڑکوں پر گلے میں رسا ڈال کر گھسیٹوں گا۔ مینار پاکستان کے سائے میں ”پکھیاں بھی نہیں جھل سکتے“ ان کا خوبصورت سا نام ہے۔ اس کو بدلوانے کا شوق بھی نہیں ہوگا۔ ان معروضی حالات میں ہم انہیں چند مشورے ہی دے سکتے ہیں۔
i۔ عمومی تاثرکے برخلاف حکومت چلانا کچھ اتنا مشکل کام نہیں ہے۔ یہ ملک بھی تو گزشتہ ستر برس سے خدا کے سہارے چل ہی رہا ہے۔ اس ملک کی بیورو کریسی تجربہ کار اور گرم و سرد چشیدہ ہے۔ امور سلطنت وہ ہی چلاتے ہیں۔ ہر محکمہ کا اپنا نظام ہے۔ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ جو بجٹ مختص کیا گیا ہے‘ اس کو کس طرح خرچ کرنا ہے۔ چیف سیکرٹری تمام محکموں کی کوآرڈینیشن کرتا ہے اور انکی کارکردگی سے وزیراعلیٰ کو خبردار کرتا رہتا ہے۔ اتفاق سے یوسف نسیم کھوکھر چیف سیکرٹری مقرر ہوئے ہیں۔ اس قسم کے ایماندار‘ زیرک‘ معاملہ فہم اور فرض شناس افسر کی خداداد صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ یہ آپ کو کبھی بھی Let Down نہیں کرینگے۔
ii۔ آپکے پیش رو نے انڈر 19 ٹیم منتخب کی تھی۔ آپ اپنی ٹیم میں تجربہ کار اور ایماندار لوگ مقرر کریں۔ اس سلسلے میں صوبائی اور مرکزی سروسز میں ایک توازن قائم کریں۔ اس طرح سروسز میں جو بددلی پھیلی ہوئی تھی‘ وہ ختم ہو جائیگی۔ چیف جسٹس صاحب نے لندن میں حضرت علیؓ کا قول دہرایا۔ معاشرہ کفرسے تو شاید قائم رہ سکے‘ بے انصافی سے قائم نہیں رہ سکتا۔ صوبے کے 1200 کے لگ بھگ افسروں میں یہ تاثر نہیں ہونا چاہئے کہ انکے ساتھ صریحاً ناانصافی ہو رہی ہے۔ ترقی اور تبادلے تادیبی کارروائی ہو سکتی ہے۔ مرکز کے کسی افسر کو آپ نہ تو معطل کر سکتے ہیں اور نہ برخاست!
iii۔ محکمہ اطلاعات والے ہمہ وقت ہوشیار اور خبردار رہنے چاہئیں۔ صوبے میںہر واقعے کی بروقت اطلاع آپ تک پہنچنی چاہئے۔ اخبارات میں ایک تسلسل سے آپکے بیانات چھپنے چاہئیں۔ اپنی کارکردگی سے آگاہ کرتے رہیں۔ جو ہورہا ہے‘ جو کیا جا چکا ہے‘ ان تراشوں کے علاوہ جو آپ کا PRO ہر صبح پیش کرتا ہے آپ کو اخبار باقاعدگی سے پڑھنا چاہئے کیونکہ محکمے والے کچھ ناخوشگوار خبریں عملاً چھپا جاتے ہیں۔ اس قسم کی خبروں کو ”انڈر لائن“ کرکے محکمے سے رپورٹ طلب کریں۔
v۔ اہل صحافت سے مسلسل رابطے میں رہیں۔ پریس کانفرنس کے علاوہ بھی ایک ذاتی تعلق قائم رکھیں۔ ان کو باقاعدگی سے مدعو کریں۔ یہ ہمہ وقت آپکو باخبر رکھیں گے۔
vi۔ ایکشن لینے سے پہلے پوری طرح تسلی کریں کہ شکایت کے پیچھے کوئی ذاتی بغض اور عناد تو نہیں چھپا ہوا۔
vii۔ آپکے متعلق عمومی تاثر ہے کہ آپ تقریر نہیں کر سکتے۔ ذرا سی محنت اور خوداعتمادی سے تقریر کی جاسکتی ہے۔ عمران خان اور میاں نوازشریف کی مثال آپکے سامنے ہے۔ شروع شروع میں یہ بھی شرماتے تھے اور بات کرتے ہوئے ہکلاتے تھے۔ اب دیکھیں! کیسے فر فر بولتے ہیں۔ ہمیشہ لکھی ہوئی تقریر کریں۔ محکمہ اطلاعات کے پاس ”اسپیچ رائٹرز“ کی کمی نہیں ہے۔ vii۔ آخری بات! ناروے میں اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی کو صبح کی سیر کرتے ہوئے میں نے مشورہ دیا تھا کہ شہبازشریف کے چھوڑے ہوئے ادھورے منصوبوں کو مکمل کریں کیونکہ نہ کرنے سے نقصان ملک و قوم کا ہوگا۔ انہوں نے اتفاق کیا۔ شہبازشریف صاحب کی باری آئی تو انہوں نے سابقہ حکومت کے منصوبوںکو انتقاماً مکمل نہ کیا۔ یہ بہت بڑی غلطی تھی۔ آپ اس غلطی کو نہ دہرائیں۔ فرانزک آڈٹ بے شک ہوتا رہے۔ پراجیکٹ مکمل ہونا چاہئے۔ اس کی سب سے بڑی مثال اورنج لائن ٹرین ہے۔ایسا کرنے سے یہی لوگ جوآج تمسخر اڑاتے ہیں‘ کل انگشت حیرت دانتوں میں ڈال لیں گے۔