منگل ‘ 10 ربیع الثانی 1440 ھ ‘ 18 دسمبر 2018ء
ٹنڈو الہ یار میں زرداری کی آمد پر راتوں رات سڑک بن گئی
یہ ہوتی ہیں پھرتیاں۔ سندھ حکومت عرصہ 10 سال سے غربت بے روزگاری اور بیماریوں کو ختم کرنے کے پلان پر عمل پیرا ہے۔ روٹی ، کپڑا اور مکان مہیا کرنے کی دعویدار ہے۔ مگر معلوم نہیں یہ کون سا سازشی ٹولہ ہے جو سندھ کے حکمرانوں کو ان کے پارٹی کے منشور پر عمل کرنے نہیں دیتا۔ سندھ میں وزیروں ، مشیروں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ان کو بھی اپنے علاقوں میں کام کرنے نہیں دیا جا رہا ۔ اربوں روپے کے فنڈز انہیں ملتے ہیں نجانے کون سے پس پردہ ہاتھ ہیںجو وہ عوام کی فلاح و بہبود پر استعمال کرنے کی بجائے یہ رقم ان کے ذاتی خفیہ اکاﺅنٹس میں پہنچادیتے ہیں۔ عوام کا وہی حال ہے جو برسوں پہلے تھا‘ نہ روٹی میسر ہے نہ کپڑا اور نہ ہی مکان ہے۔ اندرون سندھ سڑکوں کی حالت زار کا کیا رونا وہاں تو اب بھی موہنجوڈارو دور چل رہا ہے۔ دیہات میں قدیم دور کی بنی بیل گاڑیاں، کچی دھول سے اٹی راہگزاروں پر رواں دواں ہیں۔ مٹی سے بنے کچے گھروندے ، گھاس پھونس سے بنی جھونپڑیاں جابجا صوبے کی ترقی کاراز کھولتی نظر آتی ہیں۔ اب یہ تو گوٹھ شاہ پور رضوی کے باشندگان کی قسمت اچھی ہے جو پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف زرداری نے وہاں آنا تھا۔ اس دورہ کی بدولت وہاں کے لوگوں کی سنی گئی ا ور راتوں رات سندھ حکومت نے اپنے قائد کے اعزاز میں سڑک تعمیر کر دی تاکہ انہیں سفر میں تکلیف نہ ہو۔ یہی پھرتی اگر سندھ حکومت گزشتہ 10 برسوں میں دکھاتی تو آج پورا سندھ ترقی کی معراج پر ہوتا اور دیگر صوبوں کے لئے مثال بنتا۔
٭٭٭٭٭
کھوکھرا پار کی راہداری بھی کھول سکتے ہیں، بھارت پہل کرے۔ گورنر سندھ
آج کل حکومتی کارندوں کے دلوں میں اچانک بھارت کی محبت کچھ زیادہ ہی جاگ اُٹھی ہے۔ ابھی دو ہفتے قبل کرتار پور کی راہداری میں یہ محبت ابل ابل کر دوستی کا یکطرفہ راگ سُناتی رہی۔ راوی کے اس پار سے اس راگ محبت کے جواب میں بھی نفرت کی دھن پر ماتمی شہنائی بجتی رہی۔ بھارت کے حکمرانوں سے لے کر مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ تک کے لبوں سے کوئی محبت بھرا جملہ سننے کو نہیں ملا۔ البتہ ہمارے حکمرانوں سے لے کر وزیراعلیٰ تک سب سکھوں کو اپنی محبت کا‘ بابا گرونانک سے عقیدت کاپاٹھ سناتے رہے۔ نجانے کیوں انہیں 1947ءکا وہ قتل عام بھول گیا۔ اب سندھ کے گورنر کے دل میں بھی کھوکھرا پار کی سرحد پر محبت کی راہداری کھولنے کی خواہش چٹکیاں لے رہی ہے۔ اگر جذبہ دل سچا ہے تو جلد ہی لوگ دیکھیں گے کہ کھوکھرا پار کی راہداری بھی کھل گئی ہے اور ا س پار کے ہندو اپنے مقدس مقامات کی یاترا کے لئے آسانی سے سندھ آ سکیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بھارت بھی اسی راستے سے مسلمان زائرین کو آسانی سے اجمیر شریف جانے کی اجازت دے گا اور ایسی ہی اجازت خواجہ نظام الدین کی درگاہ پر جانے کی دی جائیگی کیونکہ لاہور سے دہلی چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے۔ بھارت کی طرف سے ہمارے لئے کوئی محبت کا درد نہیں جاگتا ہم نجانے کیوں یکطرفہ محبت کا شکار ہو رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
جعلی نیب اہلکار بن کر لاکھوں روپے بٹورنے والے 5 پولیس والوں سمیت 9 افراد گرفتار
حکومت بدلی۔ روایات بدلیں۔ مگر نہیں بدلا تو پولیس تھانوں کا کلچر نہیں بدلا۔ پولیس والوں کی روایات نہیں بدلیں۔ آج بھی پولیس والوں کے وہی لچھن ہیں۔ لوگ نیب کا نام سُن کر تھر تھر کانپنے لگتے ہیں ، بہت سے کمزور دل تو ہسپتال پہنچ جاتے ہیں۔ پولیس کے ظلم کی داستانوں کی طرح نیب کے مظالم کے قصے بھی اب تھڑوں پر سنائے جانے لگے ہیں۔ مگر یہ نیب بھی پولیس کے سامنے پانی بھرتا نظر آتا ہے۔ پولیس میں ایسے ایسے نایاب فراڈیئے موجود ہیں جو نیب سے بھی خوفزدہ نہیں بلکہ نیب سے بھی ”دودو ہاتھ“ کر رہے ہیں۔ لاہور میں پولیس کے حاضر سروس کچھ نکے تھانیداروں اور کاکا سپاہیوں نے کمال مہارت سے ایک خود ساختہ نیب قائم کر لی۔ یہ نڈر پولیس اہلکار اپنے دیگر 9 ساتھیوں کے ساتھ مل کر گن پوائنٹ پر جعلی وارنٹ دکھا کر پیسے والی آسامیوں کو گھیرتے اور انہیں نجی ٹارچر میں لے جا کر ڈرا دھمکا کر ان سے لاکھوں روپے بٹورتے رہے۔ یہ حاضر سروس سب انسپکٹر اور سپاہی مل کر نیلی بتی والی گاڑی میں بیٹھ کر وارداتیں کرتے۔ اب تو نیب والے بھی ان فراڈیوں کی کارکردگی دیکھ کر سر پیٹ رہے ہوں گے کہ یہ تو ان کے ساتھ بھی ہاتھ ہو گیا جو مال نیب والے نکلواتے تھے اب ازخود نوٹس پر پولیس والے اپنی مہارت سے نکلوا رہے ہیں وہ بھی اس طرح کہ خود نیب والوں کو بھی پتہ نہیں چلتا۔ خدا جانے پولیس کا یہ لوٹ مار والا کلچر کب اور کون تبدیل کرے گا۔ ازخود یہ تو دو نمبری سے باز آنے والے نہیں۔
٭٭٭٭٭
روپے کی قدر میں کمی سے صنعت بہتر ہوئی، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ عبدالرزاق داﺅد
آج تک دنیا بھر کے ماہرین معاشیات یہی کہتے کہتے مر گئے کہ روپے کی قدر میں کمی کسی بھی معیشت کے انحطاط کے باعث ہوتی ہے۔ مگر ہمارے وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت اپنی نئی تاریخ معاشیات مرتب کرنے پر تلے نظر آتے ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں مگر اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ماہر معاشیات مشیر خزانہ کو یہ سنائی نہیں دے رہی اور وہ معیشت کی بہتری کا راز روپے کی قدر میں کمی میں تلاش کر چکے ہیں۔ مگر یہ نہیں دیکھ رہے کہ اس نتیجے میں جو مہنگائی کا طوفان سونامی بن کر عوام کو بہا کر لے جا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ ہر چیز مہنگی ہونے کے بعد ان کا خریدار کہاں سے آئیگا۔ اگر روپیہ اسی رفتار سے پستی کی طرف سفر کرتا رہا تو بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب پاکستان میں بھی بدترین معاشی بدحالی کا شکار ممالک کی طرح روٹی ایک ہزار روپے کی ہو جائے گی اور ٹوکری بھر کے نوٹوں کے بدلے ایک کلو آلو ملے گا۔ خدا جانے مشیر خزانہ کو ترقی کا یہ معکوس سفر کن زاویوں سے بلندی کا سفر نظر آ رہا ہے۔ اسے بصارت کا دھوکہ کہیں یا بصیرت کا زوال کہ عوام کش اقدامات کو ملکی معاشی حالات کی بہتری قراردیا جا رہا ہے۔ جن سے مالی واجبات وصول کرنے ہیں قرضے واپس لینے ہیں ان کو کوئی چھیڑتا تک نہیں۔ جو بےچارے ایمانداری سے بجلی ، پانی ، گیس کا بل جمعہ کراتے ہیں ان کے لئے روٹی خریدنا بھی محال کیا جا رہا ہے۔ یہی حالت رہی تو جلد ہی حقیقت میں بھوکے ننگے عوام پاکستان کی سڑکوں پر ناقص معاشی پالیسیوں کا پول کھولتے نظر آئیں گے۔
٭٭٭٭٭