پیٹرول کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ،،،مہنگائی کی نئی لہر
اوپیک اور غیر اوپیک ممالک تیل کی پیداوار میں کمی پر راضی ہوگئے ہیں۔ جس کے بعد عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔جون 2014سے جنوری 2016 تک تیل کی قیمتوں میں کمی کا رحجان دیکھنے میں آیا۔جو 115ڈالر فی بیرل سے گر کر 27ڈالر فی بیرل رہا۔اس دوران تیل پیدا کرنے والے ممالک میں بھی معاشی ناہمواری محسوس کی گئی۔ اوپیک ممالک کے ممبران جن کی تعداد 13 ہے۔یہ ممالک مختلف اوقات میں اس بات کی کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح تیل کی قیمتوں میں گرتے ہوئے رحجان میں کمی لائی جائے۔لیکن قیمتوں میں استحکام کیونکہ پیداوار کی کمی پر منحصر ہے اور اس میں کمی کرنے پر اس سے پہلے اوپیک ممبران میں اختلاف رہا۔ جبکہ غیر اوپیک ممالک کی جانب سے عالمی مرکیٹ میں تیل کی فراہمی بھی ،اوپیک کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کمی کرنے کے فیصلے میں ہچکچاہٹ کی ایک وجہ رہی ہے۔ ایران بین الاقوامی پابندیاں اٹھنے کے بعد مزید پیداوار بڑھانا چاہتا تھا اور اس سلسلے میں معاہدے کو عملی شکل دینا ناممکن تھا تاہم اب ایران اپنی پیداوارکسی حد تک بڑھا چکا ہے جبکہ سعودی عرب نے بھی اپنے موقف میں ایران ،نائجیریہ اور لیبیا کے حوالے سے نرمی پیدا کی ہے۔اوپیک حقیقت میں تیل پیدا کرنے والے تمام ممالک کی نمائندگی نہیں کرتا۔ امریکہ ،روس کینیڈا اور چین وہ بڑے ممالک ہیں جو تیل کی پیداوار رکھتے ہیں۔ عالمی سطح پر اوپیک کوتقریباً 40 فیصد مارکیٹ کی نمائندگی حاصل ہے، تاہم عالمی سطح پر یہ ادارہ تیل کی قیمتوں پر پیداوار میں کمی کی صورت میں اثرانداز ہوسکتا ہے۔ ماضی میں بھی اوپیک تیل کی قیمتوں میں کمی کے جواب میں تیل کی پیداوار میں کمی کرتا رہا ہے۔عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی پوری دنیا خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں مہنگائی کی نئی لہر آجائے گی۔خاص طور پر پاکستان جہاں تیل کی قیمتوں میں اضافے کا فارمولہ جو کہ پہلے ہی ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے اور حکومتیں اپنے خرچے پورے کرنے کیلیئے تیل کی قیمتوں میں رد دو بدل کرتی رہی ہیں بری طرح متاثر ہوسکتا ہے ۔پاکستان میں آنے والے دنوں میں پیڑول سیاست بھی دیکھی جائے گی ،جس میں عموما حزب اختلاف پیڑول کی قیمتوں پر احتجاج اور حکومت سے اس کے واپسی پر مطالبہ کرتی نظر آسکتی ہے۔جبکہ حکومت عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں بڑھتے ہوئے رحجان کا تذکرہ بڑے زور رو شور سے کرئے گی۔اس سارے عمل میں عوام پر مہنگائی کے بوجھ کا خوب چرچا ہوگا۔جواب میں حکومت بھی 10 روپے بڑھا کر 2 روپے کم کر کے عوام کو ریلیف دے گی۔لیکن تیل کی قیمتوں کو لگام دینا نہ تو ہمارے حکمرانوں کے بس میں ہے نہ ہی اپوزیشن کے پاس اس کا کوئی حل موجود ہے ،یہ تو تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک کی مرضی پر منحصر ہے۔معاشی ماہرین کے مطابق تیل کی عالمی قیمتیں جو اس وقت تقریبا 52 ڈالر فی بیرل ہیں 70 سے 80 ڈالر فی بیرل تک جاسکتی ہیں جو ترقی پذیر ممالک کیلیئے آنے والے دنوں میں نئے چیلینجز پیدا کر سکتا ہے۔توانائی کسی بھی ملک کیلیئے ترقی کا زینہ چڑھنے کی پہلی شرط ہے۔پاکستان میں اس وقت توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ تیل اور گیس ہیں۔ہائیڈرو انرجی کے پاکستان میں گو کہ کافی مواقع موجود رہے لیکن ڈیموں کی تعمیر پر سیاست نے اس سستے حل کو لاتلافی نقصان پہنچایا ہے۔اس کے علاوہ ونڈ اور سولر توانائی کے ذریعوں کے استعمال اور اس سلسلے میں عملی اقدامات بھی نا پید ہیں۔پاکستان جیسے ملکوں کو تیل کی کم قیمت کی وجہ سے گزشتہ دو سالوں میں ذبردست ریلیف اور اسی کے لحاظ سے مواقع بھی حاصل ہوئے۔صرف پاکستان ہی کی صورت حال دیکھی جائے تو گزشتہ ایک سال میں 5۔5ارب ڈالر کی بچت دیکھنے میں آئی۔یعنی ہمارا تیل کا بل جو 12 یا 13 ارب ڈالر کے درمیان ہوتا تھا گر کر 7۔5ارب ڈالر تک آگیا۔لیکن حکومت اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھاسکی کیونکہ برآمدات میں اسی دوران 5 ارب ڈالر کی کمی ہوئی۔اسی لیئے اسے وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو تیل کی کمی سے تقریبا 5 ارب ڈالر کا فائدہ برآمدات کے اتنے ہی خسارے کو پورا کرنے کے کام آیا۔گو حکومت یہ دعوی کرسکتی ہے کہ اس نے کبھی دو روپے تو کبھی پانچ روپے تیل کی قیمتوں میں کمی کر کے عوام کو ریلیف پہنچایا لیکن معاشی طور پر جو ٹھوس فائدہ اس زبردست تیل کی قیمتوں کی کمی سے اٹھایا جاسکتا تھا وہ نہ اٹھایا جاسکا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہماری حکومتیں معیشت اور اقتصادیات کو قطعاً اہمیت نہیں دیتیں اور اپوزیشن سمیت ایک دوسرے پر الزام تراشی اور نچلے درجے کی سیاست میں مصروف رہتی ہیں۔ نتیجے میں کوئی بھی پارٹی یا ماہرین طویل مدت کے اندازے لگانے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ تیل کی قیمتوں میں جب کمی ہوئی تو ہماری حکومت کیلیئے ایک حیرت انگیز تبدیلی تھی۔ جس پر اس نے چھوٹے موٹے فائدے ،یا پھر عوامی مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کی۔لیکن جس طرح ایک منظم ملک اس قسم کی عالمی قیمتوں کی کمی سے فائدہ اٹھاتا ہے وہ ہمارے ملک کی ترقیاتی پالیسی میں کہیںنظر نہیں آیا۔ بہتر ہوگا کہ اب جو تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے اثرات پڑیں گے ان کا بغور جائزہ لیا جائے اور طویل مدتی ایسی پالسی مرتب کی جائے۔جس سے آنے والے دنوں کی صورت حال سے بخوبی نمٹا جا سکے۔