اسلام و پاکستان کے دشمن دہشت گردوں نے ایک بار پھرخون کی ہولی کھیلی اور پشاور میں آرمی سکول کے ننھے معصوم بچوں پر گولیاں برساد یں جس سے ڈیڑھ سو کے قریب بچے شہید ہو گئے اور کثیر تعداد میں زخمی ہوئے ہیں۔اس افسوسناک اور دل دہلا دینے والے واقعہ پر پوری پاکستانی قوم کا بچہ بچہ شدید صدمہ سے نڈھال ہے۔ مائوںنے اپنے جگر گوشوں کونہلا دھلاکر ‘ یونیفارم پہنا کرتیار کر کے سکول بھیجا تھالیکن انہیں کب معلوم تھا کہ آج انہیں اپنے معصوم بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ نہیں بلکہ انکے زخمی اور لہو لہان چہرے دیکھنا پڑیں گے۔
سینکڑوں کی تعداد میں خون سے لتھڑے ہوئے ان پھولوں کو جب ہسپتالوں میں لیجایا گیا تو دن رات میتوں کو دیکھنے والے ڈاکٹرز اور نرسیں بھی زاروقطار روتی رہیں۔ہر طرف آہ و بکا کا عالم اور قیامت برپا تھی۔ ہسپتالوں سے تابوتوں میں بچوں کی لاشیں لیجائی جارہی تھیں، مائیں صدمہ سے بے ہوش اور باپ اندر سے ٹوٹے ہوئے ‘ آنسوبہاتے انہیں تسلیاں دینے میں مصروف تھے۔ کئی مائیں دیوانہ وار بھاگتے ہوئے اپنے بچوں کی تلاش کر رہی تھیں۔ ایسے قیامت خیز مناظر کو میڈیا پر دیکھنا اور سننا بھی محال تھا۔ پوری دنیا کی تاریخ میں ایسا ہولناک واقعہ کبھی پیش نہیں آیاکہ اتنی بڑی تعداد میں چھوٹے بچوں کو اس طرح بے رحمی سے نشانہ بنایا گیا ہو۔ پشاور آرمی سکول میں داخل ہونیو الے چھ دہشت گرد کیری ڈبہ میں سکول کی عقبی سمت پہنچے، ثبوت مٹانے کیلئے پٹرول چھڑک کر اسے آگ لگائی اور دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوگئے۔
تحریک طالبان جس نے اس سانحہ کی ذمہ داری قبول کی ہے‘ کے سفاک دہشت گردوں نے کلاس رومز میں گھس کر اندھا دھند گولیاں برسائیں جس سے بے شمار بچے موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ دہشت گردوںنے بڑی تعداد میں بچوں کو سکول آڈیٹوریم میں یرغمال بنا لیا جہاںمیٹرک کے طلباء کی الودائی تقریب جاری تھی۔ اس دوران پاک فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کے جوان بھی وہاں پہنچ گئے اور دلیری و بہادری اور انتہائی حکمت سے دہشتگردوں کو ٹھکانے لگاتے رہے تاکہ بچوں کی جانوں کا نقصان کم سے کم ہو۔
چھ گھنٹے تک جاری رہنے والے اس آپریشن میں تمام دہشت گرد جہنم واصل ہوئے اور پاک فوج کے چند ایک جوان بھی زخمی ہوئے۔پشاور میں بچوں کے قتل عام کا یہ افسوسناک سانحہ اس دن پیش آیا ہے کہ جب پورے ملک میں 16دسمبر سقوط ڈھاکہ کے حوالہ سے تقریبات کا انعقاد کیاجارہا تھا۔ اس وقت بھی کچھ لوگ ایسے تھے جو کلمہ پڑھے والوں کے گلے کاٹ رہے تھے۔ وہ خود کو حق پر سمجھتے تھے مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ وہ جس جنگ کو اپنی سمجھ رہے تھے وہ درحقیقت انڈیا کی تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج بھی کچھ لوگ کی سازشوں کوتقویب پہنچا رہے ہیں۔ افغان طالبان نے تحریک طالبان کی اس دہشتگردی کو خلاف اسلام قرار دیا ہے اورواضح طور پر کہا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جنگ کے دوران کفار کے چھوٹے بچوں اور عورتوں کو بھی قتل کرنے سے منع کیا ہے۔جہاد اسلام کی کوہان اور ایک عظیم عمل ہے جو ہمیشہ ظلم و دہشت گردی کے خاتمہ اور دنیا میں امن و امان کے قیام کیلئے ہوتا ہے۔معصوم بچوں کا قتل جہاد نہیں فساد ہے اور اسلام کے اس عظیم عمل کو بدنام کرنے کی خوفناک سازش ہے۔
بعض لوگ ایسی ظالمانہ کاروائیوں کی آڑ میں اسلام و جہاد کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ‘ یہ بات درست نہیں ہے۔وہ عظیم مذہب جوجنگ کے دوران کفار کے بچوں و عورتوں کے قتل اور پھل دار درختوں کا نقصان کرنے سے منع کرتا ہے اس مذہب میں پشاور جیسی دہشت گردی کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟ معصوم نونہالوں کا قتل کرنیوالے مسلمان کہلوانے کے حقدار بھی نہیں ہیں۔ بالفرض بعض گمراہ لوگ بچوں کی قتل و غارت گری کو درست سمجھتے ہیں اور دشمن کی گود میں بیٹھ کر کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کئے گئے ملک میں سقوط ڈھاکہ جیسی سازشیں ایک بار پھر پروان چڑھانا چاہتے ہیں تو حکومت، فوج اور سکیورٹی اداروں کو اس حوالہ سے اپنی ذمہ داری بھرپور انداز میں ادا کرنی چاہیے پوری پاکستانی قوم ان شاء اللہ سیسہ پلائی دیوار بن کر ان کی پشت پر کھڑی ہو گی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا ہے کہ ہم اس بات کو اچھی طرح جان چکے ہیں کہ یہ کون سا گروپ تھا‘ وہ کہاں بات کر رہے تھے اور یہ آپریشن کہاں سے کنٹرول ہو رہا تھا تاہم آپریشنل وجوہات کی بنیاد پر مزید تفصیلات ابھی نہیں بتا سکتے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حملہ آور لمبی منصوبہ بندی کے تحت آئے تھے، انکے پاس راشن اور وافر اسلحہ تھا۔ اگر ایس ایس جی کمانڈوز آپریشن کے دوران انہیں ایک بلاک میں محدود کر کے ختم نہ کرتے توانکے ارادے بہت خطرناک تھے۔میجر جنر ل آئی ایس پی آر کی باتیں بہت واضح ہیں۔
بہرحال سانحہ پشاور کے موقع پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف خود پشاور میں موجود رہے اور آپریشن کی نگرانی کی۔ پاک فوج کے کمانڈوز نے جس طرح جرأتمندی سے اس آپریشن کو مکمل کیا اس سے پوری قوم کے سرفخر سے بلند ہو گئے ہیں اور پوری قوم انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ بچوں کے قتل جیسے ظالمانہ حملے کرنے اور انہیں پناہ دینے والوں کا سرحد پار تک تعاقب کرنا چاہیے۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف افغانستان ہو گئے ہیں جہاں وہ افغان حکام سے ملاقاتیں کرینگے اورنہ صرف اس مسئلہ کو اٹھایا جائیگا بلکہ مولوی فضل اللہ اور دیگر مطلوب افراد کی حوالگی کا مطالبہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔ ان کا یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
سانحہ پشاور کیخلاف ملک بھر میں احتجاج کیاجارہا ہے۔ پورے ملک میں شہداء کی غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کیا گیا اور واضح طور پر اس دہشتگردی کی مذمت کرتے ہوئے شہداء کے لواحقین اور پاک فوج کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔پورا ملک سوگوار ہے لیکن ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ہم اس وقت حالت جنگ میں ہیں اور ہمیں ان حالات میں بھی شعور کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا بلکہ جرأت و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہے اور پاکستان کے دشمنوں کا مقابلہ کرنا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت پارلیمانی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس ہوئی ۔ اسی طرح وزیر اعظم اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ملاقات کے بعداعلان کیا گیا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات میں سزائے موت پانے والے دہشتگردوں کواب پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا جاسکے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلہ خوش آئند ہے۔ اس سے یقینی طور پر دہشت گردی ختم کرنے میں مددملے گی۔ تمام سیاسی جماعتوںکو چاہیے کہ وہ ملک سے سیاسی افراتفری ختم کرنے کیلئے کردار ادا کریں اور ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی سطح پر اتحادویکجہتی کی فضا پیدا کی جائے تاکہ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاسکے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024