احتشام صاحب امریکہ میں رہتے ہیں ہمیں اور پاکستان کی تار یخ کے حوالے سے کتاب لکھنا چاہتے ہیں۔ چند روز قبل وہ اسی سلسلے میں مجھے ملنے تشریف لائے۔ سولہ دسمبر قریب تھا چنانچہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر گفتگو چل نکلی میرا اور ان کا اس نقطے پر اتفاق تھا سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے چھپنے والی تحریروں اور یوم سیاہ کا احتساب کرنے والے دانشور اس سانحے کا ایک اہم پہلو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ میں نے خود اس موضوع پر پڑھنے اور غور کرنے پر خاصا وقت لگایا ہے اور میری طالب علمانہ کتاب ”پاکستان کیوں ٹوٹا؟“ اسی تحقیقی سلسلے کی منطقی کڑی ہے جو حضرات اس سانحے کا تاریخی پس منظر سمجھنا چاہتے ہیں اور اس سانحے کے کرداروں اور دوسرے ممالک کی مداخلت کی تفصیلات جاننا چاہتے ہیں۔ یہ کتاب ان کےلئے ایک بنیادی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس خونی ڈرامے کا ڈائریکٹر کون تھا؟ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کس کی سرپرستی اور مدد سے عمل میں آئی؟ اس کا ہر گز مطلب اپنی سیاسی غلطیوں، کوتاہیوں، مختلف حکومتوں، حکمرانوں اور فوجی راج کے پیدا کردہ احساس محرومی پر پردہ ڈالنا نہیں کیونکہ وہ سب کچھ بہر حال تلخ حقیقتیں ہیں اور انہیں تسلیم کرنا پڑے گا۔ اسی سے دوسرا سوال جنم لیتا ہے کہ کیا اس قسم کی محرومیاں، کوتاہیاں، غیر دانشمندانہ پالیسیاں اور بے انصافیاں صرف پاکستان میں ہی روا رکھی گئیں؟ کیا صوبائی کشمکش اور نفرتیں صرف پاکستان کی سیاست کا ہی حصہ تھیں؟ نہیں ہرگز نہیں۔ اسی طرح کی صورت حال بہت سے نو آزاد یا ترقی پذیر ممالک میں موجود ہے وہاں مرکز یا وفاقی حکومت پر بے انصافی کے الزامات بھی لگتے ہیں۔ صوبوں میں رسہ کشی اور نفرت بھی رنگ دکھاتی ہے، بعض اوقات حکمران اور حکومتیں غلط فیصلے بھی کرتی ہیں لیکن ان تمام عوام کے باوجود وہ ممالک اندرونی طور پر تقسیم ہونے کے باوجود ٹوٹتے نہیں۔ ان کے کچھ علاقے یا صوبے آزادی کا نعرہ بھی لگاتے ہیں، علیحدگی کا مطالبہ بھی کرتے ہیں جیسا کہ خود ہندوستان میں کوئی درجن بھر علیحدگی کی تحریکیں جاری و ساری ہیں لیکن کبھی یہ نہیں ہوا کہ کسی علاقے کو فوجی قوت کی بنا پر الگ ہونے کی اجازت دی جائے۔ ہندوستان کے کئی صوبوں میں علیحدگی پسندی اور آزادی کی تحریکوں کے ساتھ ساتھ گوریلا جنگ بھی جاری ہے، حکومت کی بعض علاقوں میں رٹ بھی موجود نہیں لیکن اس کے باوجود وہاں کوئی صوبہ یا علاقہ نہ ہندوستان سے علیحدہ ہوا ہے ا ور نہ ہی آزاد۔ تو آخر پاکستان ہی کو کیوں اس قیامت صغریٰ سے گزرنا پڑا؟
ایک بار پھر میں ببانگ دہل تسلیم کرتا ہوں کہ مشرقی پاکستان سے بے انصافیاں ہوئیں، ان کا معاشی حصہ انہیں اس قدر نہ ملا جس قدر ان کا حق تھا، مشرقی پاکستان آبادی میں 56 فیصد تھا اس لئے پیرٹی یا برابری بھی ان کے ساتھ زیادتی تھی۔ یہ الگ بات کہ ہمارے وہ دانشور جو آئین میں پیرٹی پر احتجاج کرتے اور اسے ہمالہ جیسی غلطی قرار دیتے ہیں۔
جذبات کی رو میں بہہ کر یہ بھول جاتے ہیں کہ جغرافیائی فاصلے کو حقیقت تسلیم کرتے ہوئے برابری یا پیرٹی کا اصول سب سے پہلے محمد علی بوگرہ کے آئینی فارمولے میں آیا تھا جس کی بنیاد پر 1954ءمیں دستور بنایا جانا تھا لیکن غلام محمد نے اسمبلی برخاست کر کے دستور سازی کی بساط لپیٹ دی۔ اس سے قبل خواجہ ناظم الدین فارمولے میں بھی برابری کا مقصد ایک اور طریقے سے حاصل کیا گیا تھا جس کی تفصیل میری کتاب”پاکستان تاریخ و سیاست“ میں موجود ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آئین میں برابری کا اصول بنگالی سیاستدانوں نے خوش دلی سے تسلیم کیا تھا۔ سولہ دسمبر کے حوالے سے پروگراموں میں 1956ءکے آئین میں طے کردہ پیرٹی کے اصول کو خوب رگڑا دیا گیا۔ رگڑا دینے والوں کو علم نہیں تھا کہ 1956ءکا آئین جناب حسین شہید سہروردی کا کارنامہ تھا اور وہ نہ ہی صرف بنگالی تھے بلکہ شیخ مجیب الرحمن کے استاد، سیاسی رہنما اور گرو بھی تھے۔ دراصل اب یہ ساری باتیں خیال رفتہ After Thuoght ہیں۔ اگر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ بنتا تو یہ باتیں کسی کو یاد بھی نہ ہوتیں اور نہ ہی موضوع گفتگو ہوتیں۔ یہ بھی درست ہے کہ مشرقی پاکستان میں سیاسی احساس محرومی کو ایوبی مارشل لاءاور فوجی طرز حکومت نے ابھارا اور اسے باقاعدہ ایک تحریک کی شکل دی۔ پارلیمانی جمہوریت میں بنگالیوں کو اقتدار ملنے کی توقع تھی، وہ جانتے تھے کہ کسی بھی چھوٹے صوبے کو ساتھ ملا کر پیرٹی کے باوجود اقتدار حاصل کر سکیں گے لیکن ایوبی مارشل لاءنے ان کی امید کی یہ شمع بھی بجھا دی اور انہیں یقین دلا دیا کہ اب کبھی بھی ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔ پھر ایوبی مارشل لاءکی آمرانہ سختیوں، میڈیا، سوچ اور اظہار پر شدید پابندیوں اور سیاسی مخالفوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی کارروائیوں نے بنگالیوں پر یہ بھی واضح کر دیا کہ ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہے۔ ”پاکستان سے بنگلہ دیش“ میں سابق بنگالی سفیر اور کرنل شریف الحق نے بالکل درست لکھا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن نے 1969ء میں علیحدگی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ کرنل شریف الحق بنگلہ دیش کی تحریک آزادی اور 1971ء کی جنگ کے ہیرو ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کے سابق سفیر اور شیخ مجیب الرحمن کے خلاف بغاوت کرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں چنانچہ ان کا لکھا ہوا مستند ہے۔ اس پر تھوڑی سی روشنی اگلے کالم میں ڈالوں گا۔ اس الجھی ہوئی کہانی کو سمجھنے کےلئے اس پہلو پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ جب1956 کے آئین میں بنگالی لیڈر شپ نے پیرٹی کا اصول مان لیا تھا تو پھر یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی اس اصول کو کیوں ختم کر دیا اور کس اتھارٹی کے تحت ون یونٹ ختم کرنے اورون مین ون ووٹ کا اصول نافذ کرنے کا اعلان کیا کیونکہ یہ فیصلے تو نئی دستور ساز اسمبلی نے کرنے تھے۔ دراصل یحییٰ خان صدارت پکی کرنے کےلئے مجیب الرحمن سے ساز باز کرنے میں مصروف تھا اور یہ دو بنیادی فیصلے اسی حرص کے تحت کئے گئے تھے۔
یہ بات بھی سو فیصد درست ہے کہ انتخابات کروانے کے بعد اقتدار منتقل نہ کرنا پاکستان کو توڑنے کے مترادف تھا۔ سیاسی بصیرت اور ملکی اتحاد کا تقاضا تھا کہ اقتدار اکثریتی پارٹی کے حوالے کیا جاتا۔ اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کے نتیجے کے طور پر مشرقی پاکستان میں بغاوت ہوئی جسے کچلنے کیلئے آرمی ایکشن کیا گیا۔ گولی سیاسی مسائل کا کبھی بھی حل نہیں ہوتی، چاہے وہ مشرقی پاکستان ہو یا بلوچستان۔ سیاسی مسائل ہمیشہ سیاسی بصیرت سے ہی حل ہوتے ہیں چنانچہ آرمی ایکشن نے بظاہر پاکستان کو اسقدر کمزور کر دیا کہ اب اسکا ٹوٹنا محض ایک رسمی بات رہ گئی تھی اور اس رسم کو بھارت نے پورا کر دیا۔
سولہ دسمبر کے سانحے کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم ایک بنیادی پہلو اور اہم ترین فیکٹر کو پس پشت ڈال دیتے ہیں کہ وہ بنیادی حقیقت ہے بھارت کی ہمسائیگی اور بھارت کے ساتھ دو تہائی بارڈر کا مشترک ہونا۔ فرض کیجئے کہ مشرقی پاکستان بھارت کا ہمسایہ نہ ہوتا تو کیا بنگالی برادران کو کہیں سے اتنی مالی اور سیاسی مدد ملتی، اگر وہ بڑی تعداد میں ہجرت بھی کر جاتے تو کیا دوسرا ہمسایہ ملک انہیں وہاں جلا وطن حکومت قائم کرنے دیتا۔ ان کے نوجوانوں کو مکتی باہنی بنا کر رات دن فوجی تربیت اور اسلحے سے لیس کر کے گوریلا کارروائیاں کرنے کی اجازت دیتا۔ آرمی ایکشن کی زیادتیوں کو نہایت طاقتور میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں پھیلاتا اور پاکستان کی کردار کشی کرتا، روس جیسی سپرپاور کو اندرونی معاملے میں شامل کرتا اور روس سے بے پناہ فوجی اسلحہ لے کر اپنے ہمسایہ ملک پر چڑھ دوڑتا۔ اگر یہ مکتی باہنی، کی فتح تھی تو پھر پاکستان کی فوج نے ہندوستان کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالے؟ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ہندوستان کا کیا دھرا تھا، ہندوستان نے بنگالیوں اور مکتی باہنی کی آڑ میں اپنے انتقام کی آگ ٹھنڈی کی ورنہ آرمی ایکشن سری لنکا میں بھی ہوتے رہے، ہندوستان میں بھی سکھوں کا قتل عام ہوا کیا وہ علاقے اپنے ملکوں سے الگ ہوئے؟ اسی لئے سولہ دسمبر 1971ءکو اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے ہندوستان ماتا کی تقسیم کا بدلہ لے لیا اور نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا۔ بلاشبہ غلطیاں، زیادتیاں اور بے انصافیاں ہوئیں جن کا جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ اس طرح کی غلطیاں اور بے انصافیاں بہت سے ممالک میں ہوتی رہیں ہیں لیکن ان کے استحکام پر زد نہیں پڑی۔ دراصل ہمارے اس سانحے کا ڈائریکٹر ہندوستان تھا اور یاد رکھئے اسے آئندہ بھی موقعہ ملا تو باز نہیں آئے گا۔ یہ بھی یقین رکھئے میں نے یہ الفاظ کسی نفرت کے جذبے کے تحت نہیں لکھے بلکہ میرے ان احساسات و خدشات کے سوتے ملک کی محبت سے پھوٹے ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024