سٹیزن کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام ہمدرد ہال میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا، جس کا عنوان ’’پاکستان میں تمام سکول ہائے سسٹم کیلئے یکساں نصاب تعلیم کیوں اور کیسے‘‘ تھا۔ اس سیمینار کی اہمیت بہت زبردست تھی۔ سیمینار کا آغاز فاروق اکرم صابری نے قرآن کی تلاوت سے کیا جبکہ راقم نے بطور سٹیج سیکرٹری اپنا ایک نعتیہ شعر نذرِ سامعین کیا۔ جو حسب ذیل ہے۔
کسی کا فیض رہا ہے کہاں صدی بہ صدی
فقط حضورؐ ہیں رحمت فشاں صدی بہ صدی
اس نعتیہ شعر کے بعد پروفیسر سلمان احمد خان نے ایک انگریزی نظم سنائی اس کے بعد سٹیزن کونسل آف پاکستان کے صدر رانا وحید احمد خان نے ابتدائی کلمات حاضرین کی خدمت میں پیش کیئے اور سیمینار کی اہمیت کی وضاحت کی۔ اس تقریب کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر محمد شفیق جالندھری نے کی۔ سب سے پہلے مقرر پروفیسر نصیر چوہدری نے پورے پاکستان میں شعبہ تعلیم سے متعلق اعداد و شمار پیش کیئے۔ جن پر راز کھلا کہ پاکستان کے زیادہ تر بچے سکولوں میں جا ہی نہیں رہے اور جہالت کا شکار ہو رہے ہیں۔ محترمہ ثروت روبینہ جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ انہوں نے پرائیویٹ سکولوں کی لوٹ مار کو آشکار کیا۔ پروفیسر فرخ زیبا نے نظام تعلیم کی خامیوں کو اجاگر کیا۔ جبکہ کرنل (ر) مقصور مظہر راٹھور ایڈمنسٹریٹر ذیشان اقبال لاہور نے ایک ایسا زبردست مقالہ پڑھا۔ جس کی حاضرین نے زبردست داد دی۔ اب آتے ہیں ایک زبردست اور پُر اثر مقالے کی طرف۔ یہ مقالے پروفیسر اشتیاق احمد (گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کالج خانیوال) نے تحریر کیا تھا لیکن وہ اچانک طبیعت خراب ہونے کے باعث تقریب میں شرکت نہیں کر سکے۔ ان پر مقالہ پروفیسر ڈاکٹر راشدہ قریشی (پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج رائے ونڈ) نے تقریب میں پڑھ کر سنایا۔ اس مقالے میں اردو بطور قومی زبان تمام سکولوں میں نصاب تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔اب آتے ہیں اس مقالے کے مندرجات کی طرف۔ یہ مقالہ تو بہت طویل تھا لیکن اس کالم میں ہم ان نکات کو بیان کریں گے جو قومی سطح پر اہمیت کے حامل ہیں۔ پروفیسر اشتیاق احمد کے مقالے کا آغاز مندرجہ ذیل سطور سے ہوا۔پروفیسر اشتیاق احمد کا تحریر کردہ مقالہ پڑھتے ہوئے ڈاکٹر پروفیسر راشدہ قریشی نے ایک طویل مضمون پڑھا۔ جس میں انیس نکات بیان کئے گئے تھے۔ انکی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے۔پہلی سے پانچویں جماعت تک صرف دو کتابیں ہوں پہلی اُردو اور دوسری ریاضی کی ہو۔ معاشرتی علوم، اسلامیات، جغرافیہ اور دیگر علوم کی بابت مضامین سادہ اور آسان اردو میں پہلی کتاب میں شامل ہوں۔ ریاضی کی کتاب میں جمع تفریق اور ضرب تقسیم کی بنیادی مہارتیں شامل کی جائیں اور ان مہارتوں کو پختہ کرنے کیلئے تختی اور سلیٹ کا استعمال لازمی ہو۔ اسی طرح بھاری بھرکم کاپیوں، سادہ کاغذوں اور پنسلوں کا بوجھ جو صرف اشرافیہ کے چونچلے ہیں اور غریب طالب علموں کی مفت تعلیم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ چھٹی سے آٹھویں جماعت میں اردو اور ریاضی کے ساتھ ایک تیسری کتاب سائنس کی ہو۔ انگریزی یا کوئی دوسری زبان لازمی طور پر نافذ نہ کی جائے۔ نویں اور دسویں جماعت میں اردو اور ریاضی کی لازمی حیثیت کے ساتھ طبعیات، کیمیا، حیاتیات اور کمپیوٹر کے آسان فہم کورس پڑھائے جائیں۔ ان مضامین کے ساتھ آرٹس کے تمام مضامین شامل کئے جائیں اور ان تمام کورسز کا معیار ترقی یافتہ ممالک کے برابر ہونا چاہیے۔ گیارہویں اور بارہویں جماعت میں اردو، اسلامیات، مطالعہ پاکستان کے ساتھ ساتھ تمام سائنسی اور غیر سائنسی مضامین اردو میں پڑھائے جائیں جیسا کہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں سندھی اور اردو میں پڑھائے جاتے ہیں۔ انٹرمیڈیٹ میں بھی تمام تر مضامین قومی زبان اردو میں پڑھائے جائیں۔ یہاں بھی دیگر زبانیں اختیاری طور پر پڑھانے کے انتظامات ہوں۔ بی ایس سی اور ایم ایس سی کے تمام تر کورسز فوری طور پر اردو میں تیار کئے جائیں یہ تمام کورسز اُردو یونیورسٹی کراچی اور مولانا ابوالکلام یونیورسٹی حیدر آباد دکن نے پہلے سے تیار کئے ہوئے ہیں۔ ان تمام کورسز کو پورے پاکستان میں فوری طور پر رائج کیا جانا چاہیے۔ پچھلے پانچ سالوں میں ہر مضمون کا امتحان اردو میں دینے کی اجازت دی جائے اس طرح ہر طرح کا نصاب اردو میں ترجمہ ہونا شروع ہو جائے گا۔ سب سے پہلے ایم بی بی ایس کا نصاب اردو زبان میں نافذ کیا جائے ہر یونیورسٹی میں دارالترجمہ قائم کیا جائے یہاں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالہ جات دیگر کتب کی تصنیف و اشاعت کا اردو زبان میں ہدف مقرر کیا جائے۔ اس طرح خود انحصاری اور تحقیق اور تخلیق کی وہ دولت ہاتھ آئے گی جس کے طفیل پہلی جماعت میں داخل ہونے والے بچوں کا 80 فیصد حصّہ ماسٹر ڈگری حاصل کر سکے گا اور ایجادات کے صدیوں سے بند دروازے کھل جائیں گے۔ پہلی جماعت سے ایم بی بی ایس اور ایم ایس سی تک تمام کورسز آسان فہم اردوزبان میں سی ڈیز پر تیار کئے جائیں جو بازار میں باآسانی دستیاب ہوں۔ ان سی ڈیز کی مدد سے ٹیوشن کا مذموم کاروبار خودبخود دم توڑ جائے گا۔ دینی مدارس میں دینی علوم کیساتھ سائنس اور معاشرتی علوم بھی پڑھائے جائیں تا کہ وہاں سے فارغ التحصیل ہونیوالے طلبا صرف عالم دین نہ بنیں بلکہ بڑے سائنس دان بھی بن سکیں۔ مسجدوں کو بھی سکولوں کی طرز پر چلایا جائے اور نماز کے بعد انہیں دسویں جماعت تک تعلیم دی جائے۔ تمام تر مقابلے کے انتخابات اردو میں لئے جائیں تا کہ غریب عوام کے بچے بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو سکیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024