پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ ایک اعلیٰ اور بنیادی اہمیت کے حامل ادارے کے سربراہ ہیں۔ اُن کی غیر معمولی صلاحیتوں کا عام طور پر اعتراف کیا جاتا ہے۔ حالیہ چند ہفتوں میں انہوں نے بعض مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے مختلف ملکی اور بین الاقوامی تقریبات میں خطاب کے دوران بے حد فکر انگیز اور غیر معمولی اہمیت کی حامل گفتگو کی ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ نظام عدل سے جھوٹی گواہی کا سلسلہ مکمل طور پر ختم ہونا چاہیے۔ پولیس کے تفتیشی نظام کو بہتر بنایا جائے کیونکہ یہ سب کچھ ایک مثالی معاشرے کے لئے بہت ضروری ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے نہایت درد مندی، اپنے گہرے مشاہدے اور مطالعے سے یہ باتیں کی ہیں ۔ بنیادی طور پر کسی بھی مثالی معاشرے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہاں حقیقی انصاف پر مبنی نظام عدل و انصاف موجود ہو اور عوام اس سے مستفید بھی ہوتے ہوں۔ انصاف مہیا کرنے کے لئے بنیادی طور پر عدلیہ اور پولیس کو ذمے دار قرار دیا جاتا ہے ۔ کوئی بھی معاملہ ہو، جرم سرزد ہونے اور پھر انصاف کو یقینی طور پر مظلوم تک پہچانے کے لئے پولیس کا کام شروع ہو جاتا ہے کہ تفتیش بلا تاخیر اور غیر جانبدار ہو گی تو پھر عدالتوں میں بہتر طور پر جرم ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ بہتر طریقے سے ممکن ہو گا ۔ پولیس اور عدلیہ ، دونوں شعبے ہی اپنے اپنے کردار کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔ قانون کی خلاف ورزی اور ظلم کی ابتداء کے ساتھ ہی انصاف کی فراہمی کا آغاز ضروری ہوتا ہے جس طرح کسی عمارت کی تعمیر ہونے لگے تو اس کی بنیادوں کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔ اگر بنیادیں مضبوط اور مسلمہ اصولوں کے مطابق نہیں ہوں گی تو عمارت کے ڈھانچے کی مضبوطی اور استحکام کی ضمانت کیسے دی جا سکتی ہے ۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں نظامِ عدل کے وہ بنیادی تقاضے عموماًپورے نہیں ہوتے جن کا تعلق پولیس تفتیش سے ہوتا ہے یعنی بنیادیں ہی رشوت ، سفارش ، غیر جانبداری اور ظالمانہ رویوں کی وجہ سے کمزور اور ناقابل اعتماد ہوتی ہیں۔ رہی سہی کسر سیاسی مداخلت کی وجہ سے پوری ہو جاتی ہے ۔ جب پولیس تفتیش سے منظر نامہ دھندلا جائے ، حقیقت پر مبنی تفتیش اور چالان پیش نہ ہو تو عدالت میں کمزور مقدے کی سماعت کا آغاز ہو گا۔ عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار، ججوں کی کمی کے بنیادی مسائل پہلے ہی مقدمات میں انصاف کی فراہمی میں مشکلات لئے ہوتے ہیں۔ اس ماحول میں جھوٹی گواہی سے مقدمے کا حُلیہ ہی بدل کر رہ جاتا ہے کسی جج کیلئے بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ پولیس کی جانبداری اور مختلف وجوہ سے اس گہرائی تک پہنچے کہ حقائق کیا ہیں، کیونکہ پولیس اہلکاروں اور افسروں کا تفتیش میں کردار عام طور پر افسوسناک ہوتا ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اسی حوالے سے جھوٹی گواہیوں کے خاتمے پر زور دیا ہے ۔ انہوں نے درست اور بجا طور پر انصاف کی راہ میں حائل بنیادی رکاوٹ کی نشاندہی کی ہے ۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے ۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ پولیس سسٹم خصوصاً تفتیشی شعبے کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کو یقینی بنایا جائے ۔ اس حوالے سے عموماًہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کے ساتھ ساتھ فاضل جج صاحبان بھی آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ حکومتی اور عوامی حلقوں تک یہ آواز وقفے وقفے سے سنی جاتی رہی ہے۔ پولیس کے تفتیشی سسٹم میں بہتری لانے کیلئے عدلیہ کی طرف سے اس لئے بھی زور دیا جاتا ہے کہ مقدمات کی سماعت اور انصاف کی فراہمی میں جن مشکلات اور مسائل کا سامنا ججوں کو کرنا پڑتا ہے۔ وہی اس سنگین مسئلے کی بجا طور پر نشاندہی کرتے ہیں اور جج صاحبان بہتر طریقے سے یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے اپنا بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پولیس سسٹم کی بنیاد اس لحاظ سے غلط ہے کہ ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات شروع ہی سے کم رہی ہیں جبکہ انہیں بہت زیادہ اختیارات دئیے گئے۔ چنانچہ رشوت اور تشدد کے ساتھ ساتھ تفتیشی سسٹم میں جانبداری اور دھاندلی رچ بس گئی ہے ۔تنخواہیں اور مراعات بڑھا کر بھی بہتر نتائج حاصل نہیں کئے جا سکے کیونکہ اس محکمے میں احتساب برائے نام موجود ہے۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔ چندگندی مچھلیوں اور کالی بھیڑوں کا خاتمہ بوجوہ ممکن نہیں ہو سکا چنانچہ کرپشن ، ناقص کارکردگی اور ظالمانہ سلوک آج بھی تمام تر تحفظات اور اقدامت کے باوجود سوحانِ روح بنا ہوا ہے۔ پولیس ملازمین اپنے طور پر اختیارات کا ناجائز استعمال جس طرح کرتے ہیں ، اس کا مشاہدہ روزانہ ہی مختلف جگہوں پر ہوتا رہتا ہے ۔ اس قدر ظلم، زیادتی اور ناانصافی ہوتی ہے کہ روح کانپ اٹھتی ہے۔ پو لیس کے بعد ہم اگر عدلیہ کے حالات کا جائزہ لیں تو یہ افسوسناک حقائق سامنے آتے ہیں کہ مقدمات کی بھرمار پورے ملک میں رہتی ہے، ججوں کی تعداد کبھی پوری نہیں ہوتی ۔ ججوں کی بھرتی پوری نہ ہونے کی کئی وجوہ ہیں ۔ جھوٹی گواہیوں کا سلسلہ ختم کرنے کیلئے حکومت، پولیس اور عدلیہ سخت پالیسی پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں تو مقدمات کی بھرمار عدالتوں میں سماعت کا معیار اور انصاف مہیا کرنے میں مشکلات کو بہت زیادہ کم کرنے میں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے ۔ اس کی بنیاد کو بہتر مضبوط اور مستحکم بنانے کیلئے جھوٹی گواہی کا خاتمہ اور تفتیش سسٹم میں بہتری لانے کیلئے ٹھوس اور مربوط پالیسی بنانے کی ضرورت ہے ۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جس مثالی معاشرے کی ضرورت کا ذکر کیا ہے وہ اسی طرح قائم ہو سکتا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024