موجودہ دور جدید کو جمہوریت کی دنیا کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں جمہور کی نمائندگی اس وقت اربوں انسان کر رہے ہیں جن کی زندگی مشقت و مصیبت اور غربت سے بھرپور عبارت ہے۔ آج تک جتنی حکومتیں بنیں یہ سب غریبوں کے ووٹوں سے بن پائیں مگر غریبوں کی زندگی میں کوئی انقلاب نہیں آسکا۔ حکومتی سطح پر پالیسیاں بناتے وقت اس غریب عوام کی خواہشات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے، نہ انہیں خوشحالی کے قریب پھٹکنے دیا جاتا ہے کسی بھی آنے والی حکومت اور حکمرانوں نے آج تک غریبوں کی تقدیر بدلنے کا کبھی نہیں سوچا۔ یہ حکمران ان غریب عوام کے ووٹوں سے اقتدار کے بھرپور مزے لوٹتے ہیں اسے خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی کہ پاکستان کا شمار ایسی ہی جمہوریائوں میں ہوتا ہے۔ یہاں کی نوے فیصد آبادی مستقبل میں اچھے دنوں کے انتظار میں ساری زندگی گزار دیتی ہے۔ وہ حکمران سیاستدان جو اچھے دنوں کے خواب دکھانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں وہ لوگ یہ کام ساری زندگی اتنی مہارت سے کرتے ہیں کہ مسائل و مشکلات کی دلدل میں گھرے ہوئے غریب عوام خوابوں کے سراب درسراب مرحلوں سے گزرنے کے باوجود ان کی طرف ہر بار نئی امید کے ساتھ دیکھنے لگتے ہیں۔ غریبوں کو ظلم و صبر کی قوتوں کے آگے ہر دور میں اپنی عزت نفس سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے ملک میں ہر انتخاب میں سیاسی جماعتوں نے غریبوں کی حالت سنوارنے کے نعرے کو بنیاد بنایا، ہزاروں مربعوں کے مالک زمینداروں اور اربوں روپے پر سانپ بن کر بیٹھے سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں نے بھی انتخابات میں غریب عوام کی دگرگوں حالت کو ایشو بنایا ہے کیونکہ غریب عوام کے ووٹ کے بغیر کسی بھی پارٹی کا برسراقتدار آجانا ممکن نہیں ہوتا، اس لئے ہر دور میں غریب عوام کو سبزباغ دکھا کر کہا جاتا ہے، اب ہم وعدہ کرتے ہیں کہ غریب عوام کی زندگی میں ہم انقلاب لائیں گے، غریب عوام کو ایک بار پھر مجبوراً سبز باغ دیکھنے کی کڑوی گولی کو نگلنا پڑتا ہے، غریب عوام اگر ایسا نہ کریں تو اور کوئی چارہ بھی نہیں۔ انتخاب لڑنا سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا کام ہے کیونکہ یہ لوگ پیسہ اور اثرورسوخ کے مالک ہوتے ہیں۔ غریب کی تو یہ حالت ہے کہ غریب تو غریبوں میں اپنا امیدوار کھڑا کرکے اسے کامیاب نہیں کرا سکتے۔ ہمارے معاشرے میں غریب آدمی کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، وڈیرے، سرمایہ دار جو ان کے ووٹوں سے اقتدار میں پہنچے ہیں اسی عوام سے نفرت کرتے ہیں، مہنگائی جہاں غریبوں کے رہے سہے خون کو چوس رہی ہے وہاں سرمایہ داروں اور وڈیروں کے خون میں ڈھیروں اضافہ کرنے کا باعث بنتی ہیہمارے ملک کے غریبوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں کھانے پینے کی اشیا ہی نہیں مہنگی ملتیں بلکہ ان کیلئے انصاف کا حصول بھی مہنگا ہو جاتا ہے، انہیں بنیادی سہولتوں سے محروم کے راگ ہی نہیں سننے پڑتے بلکہ جبر کی قوتوں کے آگے اپنی خودداری اور عزت نفس سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے۔جس طرح وڈیرے اپنے علاقوں میں تعلیمی معیار کو بہتر نہیں ہونے دیتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی غریب کا بچہ پڑھ لکھ کر اگر بڑا انسان بن گیا تو ہماری کرتوتوں کا پول کھل جائے گا۔ اس لئے یہ لوگ نہیں چاہتے کہ غریب ختم ہو جائیں کیونکہ انہیں کی وجہ سے تو ان کے ایوانوں میں اقتدار کے چراغ چلتے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی اس 98 فیصد آبادی کو زندگی کی خوشحالی سے دور رکھ کر یہ ڈرامہ کب تک چلے گا؟ ہم نے جس جمہوری تمدن کو اوڑھ رکھا ہے وہ آخر ہمارے مسائل کا حل کیوں پیش نہیں کرتا اسمبلیوں میں دھنگا مشتی اور گالی گلوچ کے ذریعے کروڑوں ووٹروں کی توہین کرنے والے کیا کسی ایسے لمحے کا انتظار کر رہے ہیں جب تخت گرائے جائیں گے اور تاج اچھالے جائیں گے
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024