امریکہ ایران ایٹمی معاہدہ ؟
امریکی صدر کی ایرانی ایٹمی معاہدے کی منسوخی پر بات کرتے ہوئے کہاکہ امریکی صدر کی ایرانی ایٹمی معاہدے سے ایران کی معیشت پر کوئی منفی اثرات نہیں پڑیںگئے۔ ایران پہلے ہی اس قسم کی پابندیوں کا عادی ہے۔ اس وقت یورپی یونین نے ایران کے حق میں بڑا قدم اٹھا یا ہے۔وہ اب براہِ راست ایرانی تیل کی قیمت سٹیٹ بنک آف ایران میں منتقل کریں گئے ۔ یورپی یونین کا یہ اقدام میں بھی امریکہ کے لئے بڑا تکلیف دہ ہو گا۔ اگر امریکہ نے براہ راست ایرانی تیل کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی تو یہ تیل کا بہت بڑا بحران پیدا ہو گا۔ چونکہ دنیا کو ساٹھ فیصد تیل خلیج کی عرب ریاستیں پوری کرتی ہیں ۔ اور یہ سارا تیل آبنائے ہرمز سے گزر کر جا تا ہے تو ایران کوشش کرے گا کہ وہ آبنائے ہرمز کی گزرگاہ میں خلل پیدا کرے جس سے تیل لے جانے والے بحری جہاز یہاں سے نہیں گزر پائیں گئے۔ سعودیہ کے مغربی شہر ینبوع جو بحرِ احمر پر واقع ہے سعودی عرب بہت سے یورپی ممالک کو یہاں سے تیل دیتا ہے ۔ صرف ایک یہی راستہ ہے تیل کی رسد کا۔ ان حالات میں تیل کی قیمتیں آسمان تک پہنچ سکتی ہیں اور بہت بڑا معاشی بحران پیدا ہو گا۔اس کے علاوہ بھارت نے بھی چاہ بہار بندر گاہ میں بہت انوسٹمنٹ کی ہوئی ہے۔ اس چاہ بہار سے بہت سارا سامان افغانستان کو بھی جا تا ہے جہاں امریکی فوجیں بنکروں میں چھپ کر بیٹھی ہیں ان کو بھی کھانے پینے کی چیزوں کی کمی کا سامنا ہو گا۔اب ایران نے بھی یہ اعلان کر دیا ہے جو ملک اس کے ساتھ تیل کی تجارت نہیں کرے گا وہ اس کے ساتھ دوسری چیزوں میں بھی تجارت نہیں کرے گا۔امریکہ نے ایک طرف ترکی پر پابندیاں لگا دی ہیں تو دوسری طرف روس پر او ر تیسرا اس نے کچھ چینی اشیاء پر بھی پابندی لگا دی۔روس ایران کا حلیف ملک وہ کبھی بھی اسے اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ اس وقت ایران قطر اور سعودی عرب کی ناراضگی سے استفادہ ہوتے ہوئے قطر کی معیشیت میں اپنا اہم رول ادا کر رہا ہے۔ قطر کی تقریبا ساٹھ فیصد ضروریاتِ زندگی ایران پوری کر رہا ہے او ر اس سے زرِ مبادلہ بھی کما رہا ہے۔ ایران نے جو اپنا ہاتھ یمن میں اور شام میں پھنسایا ہوا ہے اسے ان حالات میں وہاں سے نکلنا ہو گا۔ اس پر بھی ایران کے بہت بڑے اخراجا ت آ رہے ہیں او آئی سی اس کوشش میں مصروفِ عمل ہے کہ کسی طرح سعودی عرب قطر اور سعودی عرب ایران کا تصفیہ ہو جا ئے بیک چینل سے امریکہ ایران اور ایران سعودی عرب کے درمیان ربطے ہو رہے ہیں۔ پابندی کسی مسلئے کا حل نہیں جہاں راستے نہیں مل رہے ہوں وہا ں کوئی متبادل حل ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ اس وقت ایران اور پاکستان کے درمیاں بہت اچھے تعلقات ہیں اور پاکستان ایران امریکہ کے لئے سفارتی ادا کرتا رہا ہے پاکستان اور امریکہ کے مابین اچھے تعلقات ہیں۔ پاکستان میں انتخابات کے بعد نئی ابھرتی ہوئی قیادت عمران خان اور پی ٹی آئی کی شکل میں آئی ہے۔ جو کہ اقتدار میں آنے کے بعد ایران و سعودی عرب اور ایران و امریکہ کے درمیان اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، سفارتی تعلقات کو دوبارہ بحال کرو ا سکتا ہے ۔ ابھی پاکستان میں نئی حکومت کی تشکیل نہیں ہوئی ہے اور سعودیہ نے اسلامک ڈیولپمنٹ بنک سے مبلغ چار ارب ڈالر دینے کا اندیہ دیا ہے جو کہ سعودیہ کا پاکستان کے لئے بہت اہم پیشرفت ہے۔ سعودی عرب ہمارا برادر اسلامی ملک ہے پاکستانی سعودی عرب کو اپنا دوسرا ملک سمجھتے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات عشروں سے بہت گہرے ہیں سعودی عرب نے ہر مشکل کی گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ اس میں ۱۹۶۵ کی جنگ ہو یا ۱۹۹۸ کی ایٹمی پابندیاں سعودی عرب ہر مشکل کی گھڑی میں پاکستان کے ساتھ رہا۔ اسی طرح پاکستان نے بھی ۱۹۸۰ میںمکہ پر قبضہ ہو یا خلیج کی جنگ سعودی عرب نے جب بھی پاکستان کو پکارا پاکستان مدد میں پیش پیش رہا۔ ایٹمی معاہدے پر پوری دنیا کو کوئی اعترااض نہیں تو پھر امریکہ کو کیونکر اعتراض ہو سکتا ہے دراصل امریکہ اور روس نے مختلف حیلوں بہانوں سے شام کو دبوچ لیا ہے اس وقت شام سے اسی فیصد سے زیادہ آبادی نقل مکانی کر چکی ہے۔شام سرائیل کے باڈر پر واحد طاقت تھی جو اسرائیل کی پیش قدمی کو روکتی تھی شام کو کمزور کرنے کے بعد امریکہ نے ایران کو بھی پابندیوں کے بہانے کمزور کرنا چاہتا ہے تا کہ اسرائیل کے خلاف خطے میں کوئی طاقت نہ رہے اس لئے امریکہ پابندیوں کے ذریعے ایران کو ختم کرنا چاہتا ہے تا کہ گریٹر اسرائیل بنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ انسان جتنے بھی منفی منصوبے بنائے ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے۔ اسرائیل کے خلاف اس کمزور شام سے ہی لوگ اٹھیں گئے اور اس کو نیست و نابود کریں گئے ایران پر عربوں کے علاوہ کسی نے آج تک حکومت نہیں کی ۔ ایران اس وقت ترقی پزیر کی منزل سے گزر چکا ہے وہ اس وقت بہت بین الاقوامی اشیاء خود بنا رہا ہے ۔ اگر امریکہ نے اس کے ساتھ تجارت نہ کی یا امریکہ نے جو پابندیاں لگائیں۔ اسے کچھ فرق نہیں پڑے گا فرق پڑے گا تا صرف امریکہ کو ۔ کیونکہ ایران ترکی اور روس امریکہ کے خلاف ایک بلاک بن رہے ہیں جو ایک دوسرے کی معیشت سے استعفادہ حاصل کریں گئے۔مسلم امہ کے
چھپن ممالک ہیں انہیں اگر اس دنیا میں اپنی حیثیت قائم رکھنی ہے تو آپس میں اتفاق و اتحاد سے رہنا پڑے گا کوشش کریں کہ کسی بھی غیر مسلم ملک کے ساتھ اپنی اسلامی بھائی کے خلاف نہ کھڑیں ہوں اپنے تنازات غیر مسلم ممالک کی بجائے آپس میں بیٹھ کر طے کریں ،وہ قطر وسعودی عرب کے معاملات ہوں یا ایران سعودی عرب کے مابین ، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو یہ جنگ مزید بھڑکے گی اور اس کی لپیٹ میں وہ ممالک بھی آئیں گے جو اس وقت براہ راست متاثر نہیں ، امریکی لالی پاپ تباہی کے سوا کچھ نہیں اور پابندیاں یورپ نے مسترد کرکے خود ہی ناکام بنا دی ہیں ، اس صورت حال میں دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت اور اس کی خارجہ پالیسی کیا کردار ادا کرتی ہے ۔