”کایا“ کیونکر پلٹ گئی؟
یار لوگوں کے قلم گھس گئے۔ اس کٹھن کام میں ان کے ہاتھوں کی انگلیاں دکھنے لگیں۔ بازوشل ہو گئے۔ سوچ سوچ کر ان کے دماغ ماﺅف ہو گئے۔ ہدایات پر عمل کرتے کرتے ان میں چڑچڑا پن آگیا۔ وہ ان محدودے چند میں سے نہیں تھے جوانمول کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان کی کھیپ ہی الگ تھی۔ محنت رنگ لائی‘ خدا معلوم یہ کیوں ہوا‘ کیونکر ہوا۔ مگر یہ واقعہ پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ ہے کہ حال اور مستقبل کا مورخ اس کا ذکر کرتے ہوئے اس کے سوا اور کچھ نہیں لکھ سکے گا کہ 25 جولائی 2018ءملکی تاریخ میں ایک بالکل نئے سیاسی دور کا حرف آغاز بن گیا۔ اس روز کے انتخابی نتائج خواہ غیر متوقع نکلے یا محیرالعقول تھے۔ بحیثیت مجموعی کسی جماعت کو کم ووٹ ملے۔ کسی کو زیادہ ملے۔ ایسا کیوں ہوا‘ کیونکر ہوا۔ اس کے پس پردہ کیا محرکات تھے اور ایسا ہو جانے کی بنیادی وجہ کیا تھی۔ سیاسی حالات کی کامیاب اچانک کیوں پلٹ گئی۔ ایسی تمام صورتحال اور تفصیلات کے حوالے سے کسی قسم کا تذکرہ یا بحث کا دروازہ کھولنا سانپ نکل جانے سے لکیر کو پیٹنے کے مترادف ہے۔ ملک کی سیاسی تاریخ کے نئے باب کا حرف آغاز ان حقائق سے ہوتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک برسراقتدار اور متمول ترین بااثر اور بلا شرکت غیرے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک عناصر کے پاﺅں تلے سے اختیارات کی زمین کھسک گئی۔ یہ تو پاکستان میں کبھی ایسا دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ شاخ اقتدار پر سالہاسال سے مفلس و قلاش کروڑوں عوام کی محنت کے ثمرات کھاتے ہوئے چہچہانے والے قدرت کی پکڑ میں آگئے۔ ملکی تاریخ کا نیا باب ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے کہ ایوان اقتدار سے آئین کی روح سے سبکدوش ہونے والے قارون صفت ارباب اختیار نے اپنی مرضی سے قومی الیکشن کمشن قائم کیا تھا۔ اپنا من پسند چیئرمین نیب نامزد کیا تھا۔ اپنے عہد اقتدار ہی میں رائے شماری کرائی تھی۔ ان کے بنائے ہوئے الیکشن کمشن کے تحت ہی حلقہ بندیاں ہوئی تھیں۔ خیبر سے کیماڑی اور بولان تک ان کی وفاقی حکومت کے پھریرے لہراتے رہے اور پنجاب میںتو ایک عشرہ تک وہ سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے۔ اس عرصے کے دوران میں انہوں نے غیرملکی بھاری قرضوں کا بوجھ مفلس و قلاش اور غربت سے کہیں نیچے کی لکیر تک سسکتے ہوئے زندگی گزارنے والے کروڑوں خاندانوں پر ڈال کر نام و نمود کی خاطر دو تین معاملات پر میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے منصوبے شروع کئے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہ رہی کہ جس ملک کے شہروں اور دیہات کے کروڑوں عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں‘ انہیں مہلک ترین جان لیوا بیماریوںسے محفوظ رکھنے کیلئے پینے کے صاف پانی کی فراہمی اربوں روپے کے کمشن اور منصوبوںسے کروڑوں درجہ بہتر ہیں۔ ماضی کے قارون نما ارباب اختیار نے آئین سے صریحاً انحراف کرتے ہوئے ملک میں موجود تعلیمی اداروں کی حالت بہتر کرنے پر نہ صرف کوئی توجہ نہ دی بلکہ تعلیم عام کرکے غریب عوام کے بچوں کو تعلیم سے بہرہ ور کرنے کی رتی بھر کوشش نہ کی۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں گزشتہ سات برسوں کے دوران دس ہزار کے لگ بھگ تعلیمی اداروں کو نجی اداروں کے حوالے کر دیا گیا اور اس کی بجائے ملک میں تعلیم کو کاروبار کی شکل دینے والوں کی حوصلہ افزائی کی گئی جس کے نتیجے میں عام خاندانوں کیلئے بچوں کو تعلیم دلانا ممکن نہ رہا۔ ملک میں جمہوریت کو شہنشاہت میں تبدیل کرنے کیلئے پارلیمان کا سہارا لینے کے جتن کئے گئے۔ ان حریصان اقتدار نے اور ان کے حاشیہ نشینوں‘ حواریوں اور کاسیہ لیسوں نے باہمی گٹھ جوڑ سے عوامی ضروریات کے ان تمام وسائل پر قبضہ کر لیا جو پیداوار کے منبع ہیں۔ ان میں کھانے کے تیل‘ چینی‘ چاول‘ آٹا‘ دالیں‘ دودھ‘ دہی‘ مکھن‘ گوشت‘ برائلر‘ پہننے کا کپڑا‘ سبزیاں تک شامل ہیں۔ چند ہزار خاندانوں پر مشتمل اس مافیا نے اپنے زیر قبضہ عوامی ضروریات کی اشیاءکی گراں بہا قیمتیں مقرر کرکے عوام سے جینے کا حق چھیننے کی کوشش کی اور اقتدار پر قابض ٹولے نے اس مافیا کے سنگدلانہ اقدامات کی تائید و حمایت میںحکومت کے زیرانتظام سوئی گیس‘ بجلی اور پانی کے نرخوں میںہوشربااضافہ کرکے عوام کی زندگی اجیرن کر دی۔ صوبہ سندھ میں تھر کے معصوم بچوں کی ہلاکتیں سینکڑوں تک پہنچ گئیں۔ ایسے بچوں کے غریب والدین کے ٹیکسوں سے مزے لوٹنے والے ارباب اختیار کو ان بچوں کو ضروری ادویات اور صاف پانی مہیاکرنے تک کی توفیق نہ ہوئی۔ ہسپتالوں میں ادویات کی فراہمی کا فرعون صفت حکمران صرف ڈھنڈورا پیٹتے رہے۔ یار لوگوں کو ایسے حکمرانوں کی قصیدہ خوانی ہی سے فرصت نہ ملی۔ کاش وہ بھی انمول کھیپ سے لگاﺅ رکھتے۔ برسہابرس سے پاکستان کی تاریخ کے سیاہ ترین دور کو سنہرے حروف سے لکھنے پر زور دینے والوں کو بھی کبھی قلم کی حرمت کی پاسبانی کا احساس جگائے گا۔یہ کایا پلٹ نہیںتو اسے کیا نام دیا جا سکتا ہے کہ پہلی دفعہ پاکستان میں بزعم خود ایک مضبوط و مستحکم حکمران انتخابات میں ناقابل بیان شکست پر چیخ و پکار کا سماں پیدا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ حالیہ انتخابات کے نتیجے میں اقتدار سے ہاتھ دھونے والوں کی عظیم اکثریت جمہوریت کے سب سے بڑے دشمن جنرل ضیاءالحق کے دور کی پیداوار ہے۔ اس عہد میں مخصوص ذہن کے کاروباری طبقے کو آمریت کی نرسری کے طورپر پروان چڑھایا گیا۔ ان میں سے اکثر لوگ جنرل ضیاءالحق کے عام جلسوں میں گن گایا کرتے تھے۔ بقول شیخ رشید احمد دو ایک تو ایسے بھی ہیں جو ضیاءالحق کے جلسوں میں ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر نظمیں گایا کرتے‘ وزارتوں کے مزے لوٹتے رہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ جولوگ فوجی آمروں کی گود میں پل کر اقتدار میں آئے‘ اور باامر مجبوری عسکری شعبے کو انہیں آشیرباد دیکر ایوان اقتدار میں داخل کرانے کا کام کرنا پڑا۔ جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید ڈالنے کے مصداق یہ کھیپ اسی قومی شعبے کے درپے ہے کیونکہ قومی اور ملکی مفادات کی روشنی میں فروغ جمہوریت کی خاطر تمام قومی اداروں نے اپنے آئینی فرائض کی انجام دہی اپنا شعار بنانے کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں محروم اقتدار ہونے والوں کے اپنے طویل عہد اقتدار میں عوام کی زندگی کے تمام شعبوں میں جو تذلیل کی اور جس طرح کا تضحیک آمیز سلوک روا رکھا گیا‘ دنیا کے کسی جمہوری ملک میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ قومی زندگی کے جس شعبے کا بھی ذکر کیا جائے تو اس شعبے میں ان حکمرانوں کی ان عوام دشمن پالیسیوں کے ثبوت واضح طورپر ملتے ہیں۔ جس عوام نے انہیں ماضی میں اپنے ووٹوں سے اقتدار سنبھالنے کا موقع دیا تھا‘ اس حوالے سے ملک کے کروڑوں خاندانوں کیلئے چھت کی فراہمی کا معاملہ ہی بے بس ماضی کے حکمرانوں نے اپنے من پسند اور حاشیہ نشین خوشامدی رئیل اسٹیٹ اداروںکو ملک کے بڑے بڑے شہروں کے اردگرد اور اراضیات پر ہر جائز و ناجائز ذرائع سے قبضہ جمانے کا موقع دیا۔ جنہوںنے حکمرانوںکی آشیرباد سے نہ صرف زمین کی قیمتیں اس قدر گراں کر دیں کہ عام آدمی کی خرید سے باہر ہو گئیں جبکہ حکومت نے کسی بھی شہر کے بے گھر غریب لوگوںکیلئے چھت کی فراہمی کا کوئی منصوبہ تیار کرنا گورا نہ کیا۔ ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ شہروں کے اردگردہاﺅسنگ سوسائٹی مافیا اور حکمرانوںکے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار ختم ہو جانے سے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ ماضی کے حکمرا واویلا ضرور کریں مگر خدادرا یہ تو ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ ان کے ساتھ جو ہوا‘ اس کے حقیقی محرکات کیا تھے۔ ملک میں اردو زبان کے ایک شہرہ آفاق مزاح نگار کا اس حوالے سے ایک خوبصورت سا سکرپٹ اس طرح ہے کہ علی بابا نے اپنے ایک ہمدم دیرینہ کو اپنے ساتھ رکھنے سے نکال دیا۔ دوست احباب اگر پوچھنے لگے کہ یہ حرکت کیوں کی۔ کہا کہ رفیق دیرینہ نافرمانبردار تھا کیا وہ دروغ گو تھا؟ ”نہیں۔“ کیا وہ گستاخ تھا کیا وہ چور تھا؟ ”نہیں“ تو پھر اسے کیوں نکالا؟ علی بابا نے اپنا بوٹ اتار کر دوستوں کو دکھایا۔ یہ بوٹ بھدا ہے یا اس کی ساخت خراب ہے؟ ”نہیںتو“ کیا یہ کہیں سے پھٹا ہوا ہے؟ ”نہیں“ کیا اس میں کوئی اور نقص ہے؟ ”نہیں“لیکن یہ صرف مجھ ہی کو علم ہے کہ یہ مجھے کہاں چبھتا ہے؟