سیکولر انڈیا اور سکھ کمیونٹی
جون کے آخری ہفتے حسن ابدال میںواقع گوردوارہ پنجہ صاحب زیارت کیلئے آئے سکھ زائرین نے پاکستان میں مقیم انڈین ہائی کمشنر کے ساتھ ملاقات سے انکار کردیاتھا۔ بھارتی سفارت کاروں کی منت سماجت کے بعد ملاقات تو ہو گئی مگر ہائی کمشنر کو خاصی مہنگی پڑی۔ کچھ عرصہ پہلے ریلیزہونے والی متنازعہ فلم ”نانک شاہ فقیر“ کے حوالے سے موصوف کے خوب لتے لئے گئے کہ سیکولرازم کا پرچار کرنے والے ملک نے بابا گورونانک پر بے سروپا فلم بنا کر سکھ دھرم کی توہین کی ہے۔ ہم دہائی دیتے آئے ہیں کہ ہمارے دھرم اور کلچر کو مت چھیڑو، مگر مہاشوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور اب ان کی یہ جرا¿ت کہ ہمارے گورﺅں کی توہین پر اترآئے ہیں جو ناقابل برداشت ہے اور ہم اس مدعا کو لیکر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
یورپ، امریکہ اور کینیڈا سے آئے ہوئے سکھ زائرین نے انڈین ہائی کمشنر کو متنبہ کیا کہ تمہاری سرکار کا یہ بدنما اور منافقانہ چہرہ ہم پوری دنیا کو دکھائیںگے اور تمہارے سیکولرازم کا بھانڈہ بیچ چوراہے پھوڑیں گے۔ اس بدنام زمانہ فلم کی آخر ضرورت کیا تھی؟ کیا یہ ہندواتا کا شاخسانہ ہے؟ کیا ہندو اکثریت سکھوں کی شناخت ختم کرکے انہیں ہندومت میں ضم کرنا چاہتی ہے؟ مگر جیتے جی ہم تمہارا یہ خواب پورا نہیں ہونے دیں گے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس قسم کے حربے ہندو جاتی اور ہندو سرکار کی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔ کیونکہ سکھ تعداد میں کم ہونے کے باوجود سب کچھ ملیا میٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ابھی تو ہمیں 1984ءوالی خونریزی اورسکھ دھرم کی توہین نہیں بھولی۔ ہمارا قصور کیا تھا؟ یہی نا کہ اپنے مذہب کی حفاظت کیلئے دھرم یدھ مورچہ لگایا تھا۔ جس کے جواب میں دہلی سرکار نے گولڈن ٹیمپل کو جلیانوالہ باغ جیسے سانحہ میں تبدیل کرکے رکھ دیا اور ہزاروں کی تعداد میں سکھ اپنے گوروﺅں کی ناموس پر قربان ہو گئے تھے۔
یاد رہے کہ سکھوں کے احتجاج پر فلم ”نانک شاہ فقیر“ سینماﺅں سے اتر گئی، تو پروڈیوسر معاملہ عدالت میں لے گیا۔ جہاں سکھوں کی سب سے بڑی مذہبی تنظیم گوردوارہ پربندھک کمیٹی نے م¶قف اختیار کیا کہ ان کے دھرم کے مطابق سکھ گورﺅں، ان کی فیملیوں اور پنج پیاروں کی زندگیوں کو فلم کی شکل میں پردہ سیمیں پر نہیں دکھایا جا سکتا کیونکہ ہمارے نزدیک وہ مقدس ہستیاں ہیں اور انہیں عام عوام کی طرح ٹریٹ نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس حوالے سے پربندھک کمیٹی 2003ءمیں باقاعدہ اعلان کر چکی ہے۔ ایسے میں فلم ”نانک شاہ فقیر“ ہمارے مذہبی عقائد کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ فلم کے پروڈیوسر کا م¶قف یہ تھا کہ اول توفلم میں توہین آمیز مواد موجودنہیں اور پھر ”سنٹرل بورڈ آف فلم سٹریفکیٹس“ ریلیز کا اجازت نامہ پہلے ہی جاری کر چکا ہے جس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی میں قائم سہ رکنی بنچ نے عبوری فیصلہ جاری کرتے ہوئے لکھا کہ کسی بھی فلم کی نمائش کیلئے اجازت نامہ کی عطائیگی ”سنٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفکیٹس“ کی ذمہ داری ہے کسی تنظیم یا جتھے کو اس میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ نتیجتاً فلم چلتی رہی اور سکھ تپتے رہے۔ بعض جگہوں پر سینماﺅں اور تماشائیوں پر حملے بھی ہوئے۔ ایک اور سکھ تنظیم”دہلی گوردوارہ مینجمنٹ کمیٹی نے قانونی چارہ جوئی کی مگر لاحاصل۔ حیرت کی بات کہ سکھ کمیونٹی کے ساتھ واجپائی سرکار کی چشمک بھارت سے نکل کر کینیڈا تک پہنچ چکی ہے جس کی زد میں کینیڈا کے ہر دلعزیز وزیراعظم جسٹن ٹروڈو بھی آ گئے تھے۔ فروری 2018ءمیں موصوف اپنی پوری فیملی سمیت ہفتہ بھر کے وزٹ پر انڈیاآئے، تو جس قدر توہین آمیز سلوک دہلی سرکار نے ان کے ساتھ کیا تھا، اس کی مثال سفارتی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مہمان وزیراعظم نے ہر طریقے سے میزبانوں کو لبھانے کی کوشش کی۔ کبھی پوری فیملی نے گیروے پیراہن پہنے، کبھی تلک لگایا، کبھی مقامی ڈانسز کو آزمایا،، مگر سرد مہری کی فضا ختم نہ ہو پائی اور عالمی میڈیا پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ مسٹر ٹروڈ و انڈیا میں بیٹھے کیا کر رہے ہیں؟ عقدہ کھلا کر موصوف کو اگنور کرنے کی وجہ ترک سکونت کر کے کینیڈا جا بسنے والے سکھ ہیں جو وہاں کی اقتصادی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اور پڑھی لکھی سکھ کمیونٹی حکومتی امور میں شریک ہوکر اسمبلی عہدوں پر فائز ہورہی ہے سکھوں کا یہ عروج مودی سرکار کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔
وزٹ کے دوران ہی م¶قرروزنامہ ”دی ہندو“ نے لکھا تھا کہ دہلی سرکار کو شبہ ہے کہ کینیڈا میں موجود اقتصادی اور سماجی طور پر مستحکم سکھ علیحدگی پسند سکھ تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مودی سرکار نے وزیراعظم ٹروڈو کے وفد میں شامل سکھ وزراءپر اعتراض کرتے ہوئے، انہیں ڈراپ کرنے کا کہا تھا مگر ٹروڈو نہ مانے پھر تمام تر سفارتی آداب پس پشت ڈالتے ہوئے مودی سرکاری نے مہمان وزیراعظم کی سبکی کی ایک اور بھونڈی کوشش کی۔ موصوف کے طے شدہ پروگرام میں ترمیم کر کے پنجاب کے چیف منسٹر امرندر سنگھ کی ملاقات ان کے ساتھ فکس کرنا چاہی۔ سازش کی بوپاکر جس پر کینڈین فارن آفس راضی نہ ہوا تھا۔ دراصل 2016ءمیں کینیڈا نے امرندر سنگھ کو ویزا دینے سے انکار کردیا تھا اور مودی سرکاری وہ سکور برابر کرنا چاہتی تھی۔ واضح رہے کہ 2015ءکے انتخابات میں 20 سکھ کینڈین پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے وزیر دفاع سمیت، جن میں سے چار کابینہ میں شامل ہیں۔ دیار غیر میں بھی سکھوں کی یہ عزت افزائی بھارت کیلئے سوہان روح ہے۔