قائداعظم، علامہ اقبال کا سیاسی ، معاشی نظریہ
بزرگ نسل آنےوالی نسلوں کو قائداعظم اور علامہ اقبال کے سیاسی و معاشی نظریات اور تصورات سے آگاہ کرنے سے قاصر رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ موجودہ نسل یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ پاکستان کا موجودہ سیاسی، جمہوری اور معاشی نظام قائداعظم اور علامہ اقبال کی سوچ اور فکر کے عین مطابق ہے۔ یہ تاثر ہرگز درست نہیں ہے دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی، مذہبی رہنماﺅں، دانشوروں، اساتذہ اور صحافیوں نے بھی نوجوانوں کی درست رہنمائی نہ کی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم گزشتہ ستر سالوں سے مغربی جمہوریت اور مغربی سرمایہ دارانہ معاشی نظام چلارہے ہیں۔ ان غیر ملکی، غیر اسلامی اور عوام دشمن سیاسی و معاشی نظاموں کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوا اور موجودہ پاکستان ابھی تک اپنے پاﺅں پر کھڑا نہیں ہوسکا۔
مغربی سیاسی و معاشی نظام کی وجہ سے پاکستان مقروض، جاہل، غریب اور پسماندہ ہے۔ اگر پاکستان کے ریاستی نظام کی قائداعظم اور علامہ اقبال کے تصورات کے مطابق تشکیل نو کی جاتی تو پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوچکا ہوتا۔ اگست آزادی کا مہینہ ہے ۔ پاکستان کے نوجوانوں کو قائداعظم اور علامہ اقبال کے نظریات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے اور انکی روشنی میں ریاستی نظام کی تشکیل نو کے لیے توانا آواز بلند کرنی چاہیئے۔
علامہ اقبال نے 1909ءکے تاریخی آرٹیکل ”اسلام کا سیاسی و اخلاقی تصور“ میں تحریر کیا ”مسلمان کمیونٹی کیلئے ایسی جمہوریت ہی بہترین حکومتی نظام ہے جس کا مثالی تصور اور مقصد یہ ہو کہ انسان (فرد) کو اسکی فطرت کے تمام امکانات کی ترقی اور نشوونما کے مواقع مل سکیں“۔ موجودہ مغربی جمہوریت میں یہ ممکن نہیں ہے اور عوام مساوی مواقع سے محروم ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی شہرہ آفاق نظم ”ابلیس کی مجلس شوریٰ“ میں مغربی جمہوریت کو شیطانی نظام اور ”دیواستبداد“ قراردیا تھا۔
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندرون چنگیز سے تاریک تر
علامہ اقبال نے اپنی تحریروں میں ”روحانی جمہوریت“ اور ”سماجی جمہوریت“ کی اصطلاحات استعمال کیں۔ اپنے ایک آرٹیکل میں علامہ اقبال نے تحریر کیا ”جمہوریت انسانوں کی غیر مشروط اور کامل مساوات پر مبنی ہو۔ مسلم امہ کے تمام افراد معاشرتی اور معاشی فرق کے باوجود قانون کی نظر میں مساوی حقوق کے مالک ہوں“۔ علامہ اقبال نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جو پروگرام پیش کیا اس میں زرعی اصلاحات، زرعی انکم ٹیکس، امیروں پر ٹیکس اور غریبوں پر سرمایہ کاری جیسی عوامی و فلاحی تجاویز پیش کیں۔ علامہ اقبال مغربی سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ معاشی نظام کے اس حد تک مخالف تھے کہ جس کھیت سے کسان کو روزی میسر نہ ہو اس کھیت کی فصل کو جلادینا چاہیئے۔
قائداعظم نے اپنے تاریخی خطبے 23مارچ 1940ءمیں فرمایا ”ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے عوام اپنے لائحہ عمل، اپنے آئیڈیلز اور اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کیمطابق روحانی، ثقافتی، معاشی، سماجی اور سیاسی اعتبار سے مکمل طور پر ترقی کرسکیں“۔ قائداعظم موجودہ مغربی جمہوریت کیخلاف تھے اور اسے اسلامی، فلاحی، پاکستانی اور عوامی بنانے کے خواہش مند تھے۔ انہوں نے 25جنوری 1948ءکو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے مساوات، انصاف، فیرپلے اور دیانت کے اعلیٰ معیار کو جمہوریت کی بنیادیں قراردیا۔ وہ اشرافیائی اور خاندانی نہیں بلکہ ”عوامی جمہوریت“ یعنی ایسی جمہوریت جس پر عوام کی مکمل بالادستی ہوکے علمبردار تھے۔
قائداعظم سرمایہ داری اور جاگیرداری کے سخت خلاف تھے۔ انہوں نے ایک خطبے میں جاگیرداروں کو بدفطرت، مفاد پرست اور ناقابل اصلاح قراردیا اور دوٹوک الفاظ میں کہا کہ انہوں نے پاکستان سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کیلئے نہیں بلکہ غریب عوام کیلئے حاصل کیا۔ وہ پاکستان میں ایسا نظام نافذ کریں گے جسکے نتیجے میں عام آدمی کے معیار زندگی میں اضافہ ہو۔
قائداعظم نے 26مارچ 1948ءکو چٹاگانگ میں اپنے خطاب میں فرمایا:
”پاکستان کی قطعی اساس معاشرتی انصاف اور اسلامی سوشلزم پر ہونی چاہیئے جو مساوات اور انسانی اخوت پر زور دیتا ہے“۔
قائداعظم نے یکم جولائی 1948ءکو سٹیٹ بنک پاکستان کا افتتاح کیا اور اپنی زندگی کے آخری خطاب میں فرمایا:
”مغربی معاشی نظام کے نفاذ سے ہم اپنے اس مقصد کو حاصل نہیں کرسکیں گے کہ ہمارے عوام خوش اور مطمئن ہوں۔ ہمیں اپنے مقدر کا فیصلہ اپنے طریقے سے کرنا ہے اور دنیا کو اپنا معاشی نظام دکھانا ہے جو اسلام کے حقیقی تصور مساوات اور سماجی انصاف پر مبنی ہو“۔
اب بھی وقت ہے کہ مغربی سیاسی جمہوری اور سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے حامی توبہ کرلیں۔ اپنے طبقاتی مفاد اور اپنی پسند کی شخصیات کی اندھی تقلید چھوڑ کر اللہ اور عوام سے اپنا رشتہ جوڑ لیں۔ قائداعظم اور علامہ اقبال کے نظریات اور تصورات کے منافی سیاسی معاشی نظام ریاست اور عوام کیلئے زہر قاتل ثابت ہورہا ہے اسے ہنگامی بنیاد پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے عوام نے ملک بھر میں 14اگست 2018ءکا یوم آزادی بڑے جوش و خروش سے منایا ہے۔ قومی دولت کی لوٹ مار کرنےوالی قیادت حب الوطنی کے جذبات کو دبادیتی ہے جبکہ دھرتی اور عوام سے محبت کرنے والی قیادت نیشنلزم کو فروغ دیتی ہے۔ لاہور کے ادبی فکری حلقوں کی ہردلعزیز شخصیت بزم خالد کے صدر جناب میجر(ر) خالد نصر نے اپنی رہائش گاہ پر یوم آزادی کے حوالے سے ایک باوقار تقریب کا اہتمام کیا جس میں راقم کو ”جناح کا پاکستان“ کے موضوع پر اظہار خیال کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس تقریب میں میجر(ر) آفتاب ، ممتاز راشد لاہوری، اسد اللہ ارشد میو، مسز ریحانہ اشرف، مسز نجمہ خالد، مسز پروین وفا، رضوان احمد اور محمد فاروق نے شرکت کی۔ پاکستان کی سالگرہ کا کیک کاٹا گیا اور شعراءنے یوم آزادی کے سلسلے میں اپنا کلام سنایا۔ شرکاءنے اتفاق کیا کہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں قائد اور اقبال کا پاکستان بنائے بغیر اسے اجتماعی ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کرنا ممکن نہیں۔پائنا اور مرکز تحقیق برائے جنوبی ایشیا پنجاب یونیورسٹی نے ”آزادی کے تحفظ میں داخلی ہم آہنگی کی اہمیت“ پر فکر انگیز سیمینار کا اہتمام کیا جس میں بزرگ صحافی و دانشور جناب الطاف حسن قریشی، جسٹس(ر) فقیر محمد کھوکھر، ڈاکٹر عنبرین جاوید، پروفیسر شبیر احمد، احسان وائیں، جمیل بھٹی، میجر(ر) ایرج زکریا، رﺅف طاہر، یٰسین وٹو اور راقم نے اظہار خیال کیا۔طلباءو طالبات نے بھاری تعداد میں شرکت کی۔ سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم چوہدری نے اپنے صدارتی خطبے میں پاکستان کیلئے آباﺅ اجداد کی بے مثال قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے پاکستان کو مسلمانوں کیلئے خدا کا عظیم انعام قراردیا جس کی حفاظت ہر شہری کا اولین قومی فریضہ ہے۔ انہوں نے انتباہ کیا کہ مسلم دشمن قوتیں عالم اسلام کی عسکری طاقت کو پارہ پارہ کرنے کیلئے سازشیں کررہی ہیں۔ عراق، مصر اور شام کے بعد پاک فوج ان کا نشانہ ہے جو پاکستان کی سلامتی اور آزادی کا ضامن ریاستی ادارہ ہے۔ پاکستان کے عوام کو اپنی بہادر افواج کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہوجانا چاہیئے اور اس سلسلے میں کسی مذموم پروپیگنڈے کا شکار نہیں ہونا چاہیئے۔
مقررین نے کہا کہ ہم سب کی عزت، شناخت اور وقار پاکستان کے دم سے ہے۔ قائداعظم نے اپنی 11اگست 1947ءکے تاریخی خطاب میں کرپشن کے زہر، اقرباپروری، صوبائی تعصبات، بدامنی، مذہب کے سیاسی عزائم کیلئے استعمال اور آقائی ذہنیت کو ریاست کیلئے خطرہ قرار دیا تھا۔ داخلی استحکام اور قومی یکجہتی کے بغیر قومی آزادی کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔ قومی آہنگی کیلئے استحصال کا خاتمہ، سماجی انصاف، مساوات،سب کیلئے مساوی مواقع اور سیاسی و معاشی نظام کو اسلام کے سنہری اُصولوں کے مطابق ڈھالنا لازم ہے۔ سیمینار میں عمران خان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ریاست مدینہ کے میثاق مدینہ کی طرز پر تمام پارلیمانی جماعتوں میں قومی آہنگی اور یکجہتی پیدا کرنے کی کوشش کریں تاکہ قوم متحد ہوکر بیرونی چیلنجوں کا مقابلہ کرسکے۔ مقررین نے کہا کہ امیر اور غریب کے درمیان تشویشناک حد تک بڑھتے ہوئے فرق کو روکے بغیر داخلی استحکام اور امن کا خواب پورا نہیں ہوسکے گا۔