آرمی چیف کی طرف سے دہشتگردوں کو سزائے موت کی توثیق
آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے 15 خطرناک دہشتگردوں کی سزاﺅں کی توثیق کر دی۔ یہ دہشت گرد قانون نافذ کرنےوالے اہلکاروں پر حملوں، تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے کے واقعات اور عام شہریوں کے قتل میں ملوث تھے۔ دہشتگردوں پر مجموعی طور پر 4 شہریوں اور 41 سکیورٹی اہلکاروں کے قتل اور 103 کو زخمی کرنے کا الزام تھا، جبکہ ان کے قبضے سے اسلحہ و بارودی مواد بھی برآمد کیا گیا تھا۔
پاکستان میں کئی سال تک سزائے موت پر عملدرآمد معطل رہا جس سے دہشت گردی، قتل اور اغوا برائے تاوان جیسے جرائم میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا۔ چند سال قبل سزائے موت پر پھر سے عملدرآمد ہونے لگا تو دہشتگردی سمیت ان سنگین جرائم میں کمی نظر آنے لگی جن جرائم کی سزاموت ہے۔ دہشتگردی ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ اس کےخلاف پاک فوج کی طرف سے اپریشن شروع ہوئے ، جن میں دہشتگردوں کے ٹھکانے تباہ کئے گئے، انکی اسلحہ ساز فیکٹریوں اور گولہ بارود کے ذخائر کو نشانہ بنایا گیا۔ شمالی وزیرستان میں انکے گڑھ کو منتشر کر دیا گیا تو بہت سے دہشت گرد فرار ہو کر افغانستان چلے گئے جبکہ کچھ مختلف شہروں میں پھیل گئے۔ ان کا تیزی سے تعاقب کیا جا رہا ہے۔ ان کوجیسے بھی موقع ملتاہے دہشتگردی کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ جو سکیورٹی اداروں کی حراست میں آتے ہیں ان کو صفائی کا پورا موقع دے کر سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ بے گناہ ثابت ہونے والوں کو رہا کر دیا جاتا ہے۔ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے سپریم کورٹ میں اپیل بھی کر سکتے ہیں۔ اس سب سے بڑے انصاف کے فورم سے اپیل کی صورت میں انصاف کے تقاضے پورے ہونے میں کوئی کسر نہیں رہ جاتی۔ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے دہشتگردوں کے ساتھ انکے سہولت کاروں سے بھی بے رحمی سے پیش آنے کی ضرورت ہے۔