اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے انہیں بطور وزیراعظم فری ہینڈ ملنا چاہیے
عمران خان کا22ویں وزیراعظم کے طور پر انتخاب اورسب کے کڑے احتساب کا اعلان
گزشتہ ماہ 25 جولائی کے انتخابات کے نتیجہ میں قائم ہونیوالی پندرھویں قومی اسمبلی نے گزشتہ روز وزیراعظم کے انتخاب کیلئے منعقد ہونیوالے اپنے اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو اپنے 22ویں قائد ایوان کے طور پر منتخب کرلیا۔ وہ آج بروز ہفتہ وزیراعظم کا حلف اٹھا کر باضابطہ طور پر مسند اقتدار پر بیٹھ جائینگے۔ صدر مملکت ممنون حسین ایوان صدر میں منعقد ہونیوالی تقریب میں ان سے حلف لیں گے۔ اس تقریب کیلئے انہوں نے اپنا دورہ¿ برطانیہ منسوخ کردیا تھا۔ عمران خان کا وزیراعظم بننے کا دیرینہ خواب تھا جو انکے عزم و ہمت کی بنیاد پر 22 سال بعد شرمندہ¿ تعبیر ہوا ہے۔ وزیراعظم کے انتخاب کیلئے قومی اسمبلی کا اجلاس جمعة المبارک کی سہہ پہر ساڑھے تین بجے طلب کیا گیا تھا تاہم سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر کی زیرصدارت یہ اجلاس ایک گھنٹہ کی تاخیر سے شام ساڑھے چار بجے شروع ہوا جس میں سپیکر نے وزیراعظم کے انتخاب کے طریقہ کار سے آگاہ کیا تاہم اجلاس شروع ہوتے ہی مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے اجلاس میں شور شرابا اور نعرہ بازی کا سلسلہ شروع کردیا جو بطور خاص عمران خان کے ساتھ ہاﺅس میں زبردستی داخل ہونے اور ہلڑ بازی کرنیوالے پی ٹی آئی کے ارکان کے طرز عمل پر احتجاج کرتے ان لوگوں کو ہاﺅس سے باہر نکالنے کا سپیکر قومی اسمبلی سے تقاضا کرتے رہے۔ بعدازاں پیپلزپارٹی کے سید خورشید شاہ نے بھی سپیکر قومی اسمبلی سے یہی تقاضا کیا جس پر سپیکر نے اسمبلی کے سارجنٹ ایٹ آرمز کو ہاﺅس غیرمتعلقہ افراد سے خالی کرانے کا حکم دیا اور پھر انتخابات کے عمل کا آغاز کیا۔ وزیراعظم کے انتخاب کیلئے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعتوں کیلئے الگ الگ بلاک بنائے گئے جہاں جانیوالے ارکان قومی اسمبلی کی گنتی مکمل ہونے کے بعد سپیکر نے نتائج کا اعلان کیا جن کے تحت عمران خان نے مجموعی 176 ووٹ حاصل کئے جبکہ انکے مدمقابل مسلم لیگ (ن) کے وزیراعظم کے امیدوار میاں شہبازشریف 96 ووٹ حاصل کر پائے۔ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کے ارکان نے اپنی اپنی پارٹی کی پالیسی کے تحت وزیراعظم کے انتخاب میں ووٹ نہیں ڈالے اور وہ انتخابی عمل کے دوران خاموش تماشائی کی حیثیت سے ہاﺅس کے اندر ہی موجود رہے۔ اس طرح ایوان میں وزیراعظم کے انتخاب کی بنیاد پر متحدہ اپوزیشن کا وجود بھی ختم ہوگیا۔ اب قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی دوبارہ صف بندی ہوگی اور اپوزیشن لیڈر کے انتخاب میں اپوزیشن جماعتوں میں جوڑ پڑیگا۔ عمران خان نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں ایک پبلک جلسے کی صورت میں خطاب کیا اور سب کے کڑے احتساب کا اعلان کیا۔
ملک کی 71 سال کی تاریخ میں وفاقی پارلیمانی جمہوریت کے ماتحت گزشتہ روز 15ویں اسمبلی میں 22ویں قائد ایوان کے انتخاب کا مرحلہ طے کرکے سلطانی¿ جمہور گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے قائم اپنے تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے اب استحکام کی منزل کی جانب گامزن ہوچکی ہے اور قائد ایوان کے انتخاب کے ساتھ ہی گزشتہ ماہ 25 جولائی سے شروع ہونیوالا انتقال اقتدار کا مرحلہ بھی مکمل ہوگیا ہے۔ ملک کے 22ویں قائد ایوان کے طور پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا انتخاب عمل میں آیا ہے جو بطور وزیراعظم ملک اور عوام کا مقدر سنوارنے اور اس مملکت خداداد کو ریاست مدینہ میں ڈھالنے کا بھرپور عزم اور ایجنڈا رکھتے ہیں۔ انہوں نے بطور قومی ہیرو کھیل کے میدان کو خیرباد کہنے کے بعد 22 سال قبل اسی ایجنڈے کے تحت سیاست کی پرخاروادی میں قدم رکھا تھا جنہیں اپنی سیاست کی ابتداءمیں ملک کے سٹیٹس کو والے سیاسی کلچر اور سیاسی جماعتوں میں راسخ ہونیوالی موروثی سیاست کے پیش نظر اپنی سیاست اور قیادت کو آگے بڑھانے کیلئے بہت کٹھنائیوں کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ انہوں نے اپنی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر ملک کی پارلیمانی سیاست کے ماتحت پہلی بار 1997ءکے انتخابات میں حصہ لیا جو اس وقت کے صدر مملکت سردار فاروق لغاری کے ہاتھوں قومی اسمبلی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کئے جانے کے بعد ملک معراج خالد کی زیرنگرانی منعقد ہوئے تھے۔ ان انتخابات میں عمران خان سمیت انکی پارٹی کے تمام امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اسکے باوجود وہ مایوس نہیں ہوئے اور اپنی پارٹی کو منظم کرنے کی جانب توجہ دینے لگے۔ انکے بارے میں انکے قریبی حلقوں اور دوستوں کی یہی رائے رہی ہے کہ وہ دھن کے پکے ہیں اور جو کام کرنے کا عزم باندھ لیتے ہیں وہ اس سے دستکش نہیں ہوتے اور بالآخر اس کام کو پایہ¿ تکمیل کو پہنچا کر دم لیتے ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کا قیام انکے اسی عزم اور دھن کا عملی ثبوت ہے۔ اسی طرح انہوں نے ملک کے سیاسی نظام میں تبدیلی کا عزم باندھ کر سیاست میں قدم رکھا تو اپنے لئے حوصلہ شکن حالات کے باوجود انہوں نے اپنا قدم پیچھے نہیں ہٹایا۔ انہوں نے 2002ءکے انتخابات میں بھی اپنی پارٹی کو میدان میں اتارا۔ اس وقت وہ جرنیلی آمر مشرف کی ”گڈبکس“ میں تھے اور انکے بارے میں یہ تاثر قائم ہوچکا تھا کہ مشرف انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کرنے کے خواہش مند ہیں مگر انہوں نے اسمبلی میں تابع فرمان بچہ بن کر بیٹھنے والی مشرف کی ڈکٹیشن قبول کرنے سے انکار کردیا جس کا اعتراف خود مشرف بھی اپنے ایک انٹرویو میں کرچکے ہیں۔
عمران خان کو 2002ءکے انتخابات میں اتنی کامیابی ضرور مل گئی کہ انہوں نے اپنے آبائی حلقہ میانوالی سے منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کیلئے ایک نشست کی جگہ بنالی۔ اس الیکشن کے بعد ملک کی پارلیمانی سیاست میں عمران خان کی بطور قومی سیاسی قائد قبولیت کی گنجائش نکل آئی۔ انہوں نے 2008ءکے انتخابات کیلئے تشکیل پانے والے انتخابی اتحاد اے پی ڈی ایم میں شمولیت اختیار کی جس کے میاں نوازشریف سربراہ تھے تاہم اے پی ڈی ایم نے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ بعدازاں آصف علی زرداری کے قائل کرنے پر میاں نوازشریف انتخابی سیاست میں واپس آگئے اور انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کردیا جسے عمران خان نے منافقت کی سیاست سے تعبیر کیا اور بائیکاٹ کے فیصلے پر کاربند رہنے کا اعلان کردیا۔ اس طرح وہ انتخابی سیاست سے باہر نکل گئے تاہم انہوں نے سسٹم کی تبدیلی کیلئے امید کا دامن پھر بھی نہ چھوڑا اور اگلے انتخابات میں جانے کیلئے پارٹی میں موجود تنظیمی خامیاں دور کرنے پر توجہ دینا شروع کی۔ چونکہ مشرف کی جرنیلی آمریت کے بعد معرض وجود میں آنیوالی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) حکومتوں سے عوام اپنے گوناںگوں مسائل کے حل کے معاملہ میں قطعی طور پر مایوس ہوچکے تھے اور انہوں نے اسی بنیاد پر پیپلزپارٹی کو 2013ءکے انتخابات میں بری طرح مسترد کرکے گھر بھجوایا تھا اس لئے عمران خان نے تبدیلی اور نئے پاکستان کا نعرہ لگایا تو عوام کی نگاہیں فطری طور پر ان پر مرکوز ہوگئیں چنانچہ 2013ءکے انتخابات میں پیپلزپارٹی مسترد ہوئی تو عمران خان کی تحریک انصاف ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر ابھر کر انتخابی سیاست میں شامل ہوگئی۔ انکی پارٹی کو 2013ءکے انتخابات کے نتیجہ میں صوبہ خیبر پی کے میں جماعت اسلامی کی معاونت سے حکومت تشکیل دینے کا موقع مل گیا جبکہ انہوں نے خود قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا بھرپور کردار ادا کیا اور پورے پانچ سال تک حکمران مسلم لیگ (ن) کو تگنی کا ناچ نچائے رکھا۔ انہوں نے اس پورے عرصہ میں انتخابی سیاست کو دھاندلیوں اور کرپشن سے پاک کرنے کا عزم باندھے رکھا اور پانامہ سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد اپنی اسی سیاست کی بنیاد پر وہ میاں نوازشریف کو اقتدار کے ایوانوں سے باہر نکلوانے اور انہیں تاحیات نااہل کرانے میں کامیاب ہوگئے جبکہ اب 2018ءکے انتخابات میں حکومت کی تشکیل کیلئے بطور سنگل مجارٹی پارٹی مطلوبہ اکثریت حاصل نہ ہونے کے باوجود اپنی اتحادی جماعتوں اور آزاد ارکان کی معاونت سے وہ بالآخر اقتدار کی منزل حاصل کرنے میں سرخرو ہوگئے جنہیں خیبر پی کے میں بھی قطعی اکثریت حاصل ہوچکی ہے جبکہ پنجاب اسمبلی میں انکے نامزد کردہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے منتخب ہونے سے پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت کی تشکیل کی راہ ہموار ہوچکی ہے۔ اس طرح اب ان پر نہ صرف سسٹم کی تبدیلی سے متعلق اپنے عزم اور ایجنڈے کو عملی قالب میں ڈھالنے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوچکی ہے بلکہ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجوں اور عوام کیلئے روٹی‘ روزگار‘ مہنگائی‘ لاقانونیت‘ میرٹ اور انصاف کے قتل اور حکمران طبقات کی ناجائز بخشئیوںکے پیدا کردہ گھمبیر مسائل سے بھی عہدہ برا¿ ہونا ہے۔ انہیں اپنے عزم کی بنیاد پر اقوام عالم میں اس ملک خداداد کا جھنڈہ بھی سربلند رکھنا ہے۔ سابق جرنیلی آمریت کی جانب سے اپنائے گئے امریکی فرنٹ لائن اتحادی کے کردار میں ڈومور کے امریکی تقاضوں سے بھی ملک اور قوم کی خلاصی کرانی ہے اور اس پر لٹکائی گئی گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کی تلوار کو ہٹوانے کیلئے بھی قومی خارجہ پالیسی کو ملکی سلامتی اور بہترین قومی مفادات کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے جبکہ سب سے بڑا چیلنج انہیں ملک کی سلامتی کے حوالے سے بھارتی سازشوں کو ناکام بنانے کا درپیش ہوگا جس کیلئے وہ 25 جولائی کے انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنی پہلی نشری تقریر میں پہلے ہی دوٹوک الفاظ میں اعلان کرچکے ہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ دوستی‘ تجارت اور بہتر دوطرفہ تعلقات کے حق میں ہیں تاہم اس کیلئے پہلے مذاکرات کی میز پر مسئلہ کشمیر حل کرنا ہوگا۔ بلاشبہ یہی ایک دیرینہ مسئلہ دونوں ممالک کے مابین سازگار تعلقات کی راہ میں رکاوٹ ہے جس کے باہمی مذاکرات کے ذریعے حل سے اب تک بھارت ہی بدکتا رہا ہے۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ ملک کا کوئی بھی حکمران بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر کسی قسم کی مفاہمت کی جرا¿ت نہیں کر سکتا کیونکہ کشمیر ہی پاکستان کی تکمیل‘ سلامتی اور استحکام و بقاءکی ضمانت ہے جس کی بھارتی تسلط سے آزادی اور تقسیم ہند کے ایجنڈا کے مطابق اسکے پاکستان کے ساتھ الحاق کیلئے کشمیری عوام گزشتہ 71 سال سے قربانیوں سے لبریز تحریک چلا رہے ہیں اور آج تک انکے پائے استقلال میں ہلکی سی بھی لغزش نہیں آئی۔ اس طرح کشمیریوں کے دل پاکستان اور اسکے عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں چنانچہ کشمیر پر بھارت سے کسی قسم کی مفاہمت کرنا کشمیری عوام کا سفر کھوٹا کرنے کے مترادف ہوگا جس کی قوم اپنے کسی بھی حکمران کو اجازت نہیں دے سکتی۔ اس تناظر میں عمران خان کو مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ بھارت سے سازگار تعلقات قائم کرنے کے عزم پر کاربند رہنا ہوگا اور اس کیلئے قومی جذبات اور امنگوں کی بھی بھرپور ترجمانی کرنا ہوگی۔ اس کیلئے انہیں اپوزیشن ہی نہیں‘ قومی ریاستی اداروں بشمول عدلیہ کی جانب سے بھی فری ہینڈ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ انکے سر پر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی جانب سے دائر کئے گئے نااہلیت والے کیس کی تلوار نہ لٹکائی رکھی جائے اور اس کیس کا جلد فیصلہ کرکے انہیں اپنے ایجنڈے کے مطابق سکون سے حکومت کرنے دی جائے۔ انہیں اپوزیشن بینچوں کی جانب سے یہ اطمینان ضرور حاصل ہوگیا ہے کہ متحدہ اپوزیشن میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے راستے ایک دوسرے سے الگ ہونے کے باعث انہیں ایک مضبوط اور کایاں اپوزیشن کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا جبکہ مسلم لیگ (ن) کیلئے بھی مزاحمت کی سیاست پر قائم رہنے کے امکانات معدوم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ منتخب ایوانوں کے اندر اور باہر اپوزیشن کو بہرصورت تعمیری اور مثبت اپوزیشن کا کردار جاری رکھنا چاہیے تاکہ حکمرانوں کو ماضی کی طرح من مانیوں اور آئین و قانون سے سرکشی کا موقع نہ مل سکے۔ اگر عمران خان اپنے اقتدار کے پانچ سالوں میں اپنے ایجنڈے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ملک اور عوام کا مقدر سنوارنے میں کامیاب ہوگئے اور بھارت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر انہوں نے کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرالیا اور اسی طرح انہوں نے قومی اتفاق رائے کی بنیاد پر کالاباغ ڈیم کی تعمیر بھی ممکن بنا دی اور ملک کو امن و امان کا گہوارہ بنادیا تو وہ کھیل کے میدان کی طرح سیاست کے میدان میں بھی قوم کے ہیرو بن جائینگے۔ ادارہ نوائے وقت عمران خان کو وزیراعظم منتخب ہونے پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہے اور ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں سے مطابقت رکھنے والی انکی پالیسیوں کی بھی حمایت کی جائیگی تاہم انکی حکومتی پالیسیوں کی سمت قومی مفادات کے تقاضوں سے ہٹے گی تو نوائے وقت اپنے ماٹو ”بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ¿ حق ادا کرنا ہے“ پر ہی کاربند رہے گا۔