بالآخر پاکستان کی 15 ویں قومی اسمبلی نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران احمد خان نیازی 176 ووٹ لے کر وزیراعظم پاکستان منتخب ہو گئے ہیں۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں قائد ایوان کے انتخاب کے موقع پر پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے کئے جانے والی نعرے بازی اور ہنگامہ آرائی نے پاکستان تحریک انصاف کی بننے والی حکومت کو یہ باور کرا دیا ہے کہ ہ’’ووٹ کو چوری کرنے کی واردات ‘‘ کے سامنے سر تسلیم
خم نہیں کریں گے اور اس وقت تک پارلیمنٹ میں احتجاج جاری رکھا جائے گا جب تک عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لئے ایک کمیشن قائم نہیں ہو جاتا جو ایک ماہ کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے ارکان نے ایوان میں وزیراعظم نواز شریف اور میری آواز تیری آواز مریم نواز مریم نواز کے نعرے لگا کر پاکستان تحریک انصاف کو یہ پیغام دیا ہے کہ ان کے قائد کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دینے کے باوجود ان کے دلوں سے میاں نواز شریف کو نہیں نکالا جا سکتا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے ارکان رانا ثناء اللہ، محسن نقوی، مرتضیٰ جاوید عباسی، مریم اورنگزیب، طاہرہ اورنگزیب سیما جیلانی اور مسرت خواجہ نے وزیراعظم نواز شریف کے فلک شگاف نعرے لگائے۔ سیما جیلانی جن کا 2 روز قبل نعرے بازی سے گلا شدید خراب ہو گیا تھا، انھوں نے جمعے کو بھی بھرپور نعرے بازی کی۔ مریم اورنگزیب نےکورس کی صورت میں نعرے بازی کر کے ایوان میں ماحول بنا دیا۔ ایک مسلم لیگی رکن اسمبلی میاں نواز شریف کی تصویر اٹھائے احتجاج میں شریک تھا۔جب مسلم لیگی ن کے ارکان داخل ہوئے تو گیلریوں پر قابض پی ٹی آئی کے کارکنوں نے نعرے بازی شروع کر دی جس پر مسلم لیگی ارکان نے عمران خان کی نشست کا گھیرائو کر لیا اور اس وقت تک احتجاج جاری رکھا جب تک سپیکر نے گیلریوں میں بیٹھے ہوئے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو خاموش نہیں کرا دیا۔ سپیکر اسد قیصر نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو سخت وارننگ دی کہ وہ نعرے بازی ترک کر دیں وگرنہ نعرے لگانے اور سیٹیاں بجانے والوں کو گیلریوں سے نکال دیا جائے گا۔ گیلریوں میں بیٹھے ارکان وزیراعظم عمران خان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔ پیپلز پارٹی کے ارکان نے بھی بلاول بھٹو کی آمد پر جئے بھٹو کا نعرہ لگا کر اپنے وجود کو تسلیم کرایا۔ لیکن جمعہ پاکستان مسلم لیگ ن کا دن تھا جو وزیراعظم کے انتخاب اور بعد ازاں تقریب تک چھائی رہی۔ مسلم لیگی ارکان نے نو منتخب وزیراعظم عمران خان کو سکون سے تقریر نہیں کرنے دی اور ان کی تقریر کے دوران مسلسل نعرے بازی کرتے رہے۔ جمعہ کے روز ایوان میں اہم بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے اپنے ارکان کو مسلم لیگی ارکان کو جوابی نعرے لگانے کی ہدایت کر کے اپنے لئے اپوزیشن جیسا کر دار منتخنب کر لیا کسی وقت بھی ایوان میں سنگین نوعیت کا واقعہ پیش آسکتا ہے ک شاہ محمود قریشی ،شیریں مزاری سمیت کچھ ارکان مسلم لیگ ن کی قیادت سے احتجاج ختم کرنے کی درخواست کرتے رہے لیکن ان کی درخواست کو قبولیت حاصل نہیں ہوئی۔ مسلم لیگ ن نے احتجاج کو ختم کرنے کو انتخابات میں دھاندلیوں کی تحقیقات کیلئے تحقیقاتی کمیشن کے قیام سے مشروط کر دیا۔ تاہم عمران خان نے یہ شرط نہیں مانی۔ بظاہر عمران خان نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ انھیں نعرے بازی سے کوئی پریشانی نہیں لیکن ایسا دکھائی دیتا تھا کہ عمران خان اس قسم کی صورتحال کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے۔ عمران خان نے منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کے دوران پہلا خطاب کیا۔ ایسا دکھائی دیتا تھا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی حیثیت سے خطاب کر رہے ہیں۔ ان کا خطاب ایک وزیراعظم کا خطاب نظر نہیں آتا تھا بلکہ اپوزیشن لیڈر جیسے جارحانہ انداز میں خطاب تھا۔ وہ اپوزیشن کے ساتھ اسی انداز میں مخاطب ہوئے جس انداز میں وہ ماضی قریب میں حکومت کو رگیدتے رہے ہیں۔ بہر حال عمران خان پاکستان کے 22 ویں وزیراعظم بن گئے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اب پی ٹی آئی کو حکومت مل گئی ہے۔ ان کی حکومت چلنے کا انحصار ان کے رویے پر ہے۔ عمران خان اپوزیشن کے طرز عمل پر جتنا شدید ردعمل ظاہر کریں گے، اتنا ہی ان کے اقتدار کے دن کم ہوتے جائیں گے۔ موجودہ اپوزیشن کے سامنے حکومت کو سر تسلیم خم کر کے چلنا پڑے گا۔ اپوزیشن کو یکطرفہ احتجاج کرنے کا موقع دے کر ایوان کو پرامن ماحول میں چلانا پڑے گا۔ اگر پی ٹی آئی‘ جس کے ارکان کی تعداد 158 ہے اس سے الجھتی رہی تو کسی دن بھی ایوان میں کوئی سنگین نوعیت کا واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ جمعہ کو پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے میاں شہباز شریف کو ووٹ نہ دے کر جہاں مقتدر قوتوں کو اپنا مفاہمانہ کردار ادا کرنے کا پیغام دیا ہے وہاں اس کے اپوزیشن کے کردار پر بھی کئی سوالات اٹھ گئے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی سے آج کی پیپلز پارٹی جس کی سربراہی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کر رہے ہیں، قطعی مختلف نظر آتی ہے، اگر پاکستان پیپلز پارٹی نے دبائو کے سامنے مصلحت پر مبنی پالیسی اختیار کی اور فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا تو پھر ایوان میں پاکستان مسلم لیگ ن ہی اپوزیشن کے چراغ جلائے نظر آئے گی اور اسے جمعیت علماء اسلام ف اور عوامی نیشنل پارٹی کی بھرپور حمایت حاصل رہے گی۔ اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی نے وزیر اعظم کے انتخاب میں obstain رہنے کا غیر سیاسی فیصلہ کر لیا ہے لیکن اب بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں ’’گونگلوئوں سے مٹی چاہڑنے‘‘ کی بات کی عمران خان elect prime mnisterکہنے کی بجائے prime miniaster selectکہہ کر طعنہ زنی کی اور عمران خان کو ان باتیں یاد کرائیں میاں شہباز شریف نے ایوان جارحانہ انداز میں تقریر کی اور پی ٹی آئی کے ارکان کے جوابی احتجاج کی پروا کئے بغیر اپنی تقریر کی اور خطابت کے جوہر دکھائے جب بلاول بھٹو زرداری نے تقریر شروع کی تو پی ٹی آئی کے ارکان نے نعرے بازی بند کر دی بلاول بھٹو زرداری طنزیہ انداز میں عمران خان کو selectکہا تو عمران خان کو سمجھ نہ آیا اور وہ بھی ڈیسک بجاتے رہے ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024