میں نے ان کے لئے ممبر اسمبلی اس لئے لکھا کہ وہ ممبر پنجاب اسمبلی تھیں اور ممبر قومی اسمبلی بھی تھیں۔ حیرت ہے اور کمال بات ہے کہ انہوں نے اس بار اپلائی ہی نہیں کیا۔ کئی خواتین تو باقاعدہ اس کے لئے بھی سیاست کرتی ہیں۔ اپلائی کرنے والی خواتین کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہے۔ جبکہ ان کا ممبر بن جانا یقینی تھا۔ وہ وقار اور اعتبار کے اعلیٰ درجے پرفائز تھیں وہ اس طرح کی ایک اعلیٰ خاتون ہیں کہ وہ ممبر اسمبلی ہوں یا نہ ہوں۔ ان کی عزت اور قدر و منزلت میںکوئی فرق نہیں آیا۔
وہ امریکہ میں ہیں پاکستان آئیں تو ممبر پنجاب اسمبلی بنا لی گئیں، اپنی قابل احترام شخصیت اور بہت اعلیٰ کارکردگی اور خدمات کے طفیل بنیں۔
قومی اسمبلی میں بلا لیاگیا۔ ان کی بہت عزت ایوان نمائندگان میں اور اقتدار کے ایوانوں میں تھی وہ عام انسانوں کے درمیان بھی بہت خوش مطمئن رہتی ہیں۔ اپنی جماعت نون لیگ کے انتخابی فیصلوں سے پہلے ہی وہ امریکہ چلی گئیں۔ وہاں ان کے گھر والے ان کے منتظر تھے۔
میں ان کے لئے کھل کر اس لئے لکھ رہا ہوں کہ وہ اب ممبر اسمبلی نہیں ہیں۔ میں بہت کم خواتین ممبران اسمبلی کو جانتا ہوں۔ کبھی خواتین کے بنچوں سے ایسی بات سامنے آتی ہے جو مرد حضرات بھی اسمبلی میں نہیں کر سکتے۔ بالعلوم مرد ممبران اسمبلی بھی خاموش ہی رہتے ہیں۔ بلکہ سوئے رہتے ہیں اپنی نیند پوری کرتے ہیں۔ نجانے ان کے جگراتے کہاں گزرتے ہیں۔ صرف چند لوگ ہی بولتے رہتے ہیں اور اپنے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ باقی سوئے رہتے ہیں ان کی نیند اسمبلی میں روٹین کی باتوں سے ڈسٹرپ نہیں ہوتی۔ ان کی ڈیوٹی صرف حکومتی بل کی حمایت میں صرف ہاتھ کھڑا کرنا ہوتا ہے۔
ایک ممبر صاحب ہڑبڑا کے اٹھے اور بل کی حمایت میں ہاتھ کھڑا کر دیا بعد میں پتہ چلا کہ یہ تو حکومت کے خلاف کوئی بات تھی۔
بشریٰ رحمان جب ایم پی اے تھیں اور پھرایم این اے بنیں تو ان کی آواز دونوں ایوانوں میں گونجتی تھی۔ وہ تو بہت بڑی ادیبہ بھی ہیں اس کے ساتھ خطیبہ بھی بہت کمال کی ہیں وہ بڑے لوگوں سے بھی بہتر تقریر کرتی ہیں۔ اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہر ان کی موجودگی اچھی طرح محسوس کی جاتی ہے اب وہ ممبراسمبلی نہیں ہیں کیوں نہیں ہیں یہ ہم نہیں جانتے اور بشریٰ جی بتاتی نہیں ہیں۔ ان کی کئی کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ادب اور سیاست میں ان کے کمالات سے سب واقف ہیں۔ لوگوں کے لئے یہ پریشانی بھی ہے کہ انہیں وزیر کیوں نہ بنایا گیا۔ اپنے ساتھ ان زیادتیوں کا غم و غصہ بشریٰ بی بی کے دل میں بھی ہے۔ شاید ہی کسی ملک میں یہ صورتحال ہو کہ خواتین بغیر الیکشن کے اسمبلیوں میں پہنچ جائیں پھر انہیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ اس منصب اور اعزاز کی مستحق ہیں۔ میں عارفہ خالد کو اس حوالے سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میرے لئے بشریٰ رحمان کا بھی بڑا مقام ہے اس کے علاوہ مجھے شائستہ پرویز ملک یاد آتی ہیں۔ وہ بہت زبردست خاتون ہیں اور خاتون ممبر اسمبلی ہیں۔ ان کے شوہر پرویز ملک بھی ممبر اسمبلی ہیں میں انہیں پسند کرتا ہوں کہ وہ شائستہ پرویز ملک کے شوہر بھی ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ اپنی انفرادی حیثیت بھی سامنے لائیں ۔ ایک جگہ ایک بڑی اچھی خاتون کا تعارف کرایا جا رہا تھا۔ یہ پرویزملک ہیں ممبر قومی اسمبلی ہیں۔ یہ شائستہ پرویز ملک کے شوہر ہیں۔
عارفہ خالد امریکہ میں بھی پاکستان کی عزت بڑھانے کے لئے اب کوئی پلاننگ کریں تاکہ خواتین و حضرات کو یاد رہے کہ وہ پاکستان میں ممبر اسمبلی رہی ہیں۔ خواتین و حضرات امریکہ جائیں اور عارفہ سے ملیں تو وہاں انہیں پاکستان یاد آئے گا۔
اکثر حکمرانوں اور سیاستدانوں سے سُنتے ہیں کے ہم لاہور کو پیرس بنا دیں گے کبھی تو یہ کہا جائے کہ ہم پیرس کو لاہور بنا دیں گے۔
امریکہ میں نوائے وقت کی ہماری ایک ممتاز کالم نگار طیبہ ضیاءبھی ہیں۔ عارفہ خالد ان سے ضرور ملیں۔ طیبہ ضیا کئی کتابوں کی مصنف بھی ہیں وہ پاکستان آتی رہتی ہیں۔ خواہش ہے اور گزارش ہے کہ عارفہ خالد بھی پاکستان کبھی کبھی آتی رہیں اور ممبراسمبلی بھی بنیں....
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024