قیام پاکستان کے مقاصد
گزشتہ سے پیوستہ
اگست1941ئ میں قائدِ اعظم ؒ عُثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد میں طُلباءکے سوالوں کے فِکر انگیز جوابات دیئے ۔۔۔
ایک سوال کے جواب میں کہا
جب میں انگریزی میں مذہب کا لفظ سُنتا ہوں تو اس زُبان اور محاورے کیمطابق لامُحالہ میرا ذہن خُدا اور بندے کے باہمی پرائیویٹ تعلق کیجانب مُنتقل ہو جاتا ہے لیکن میں خوب جانتا ہوں کی اسلام اور مُسلمانوں کے نزدیک مذہب کا یہ محدود اور مُقید مفہوم یا تصوّر نہیں ۔ میں کو ئی مولوی ہوں نہ مُلّا، نہ مُجھے دینیات میں مہارت کا دعویٰ ہے ۔البتہ میں نے قُرآنِ مجید اور قوانینِ اسلام کے مُطالعہ کی اپنے طور کوشش کی ہے ۔ اِس عظیم الشان کتاب کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے ہر باب کے مُتعلق ہدایات موجود ہیں ۔ زندگی کا رُوحانی پہلو ہو یا معاشرتی، سیاسی ہو یا مُعاشی ، غرض یہ کہ کوئی شُعبہ ایسا نہیں جو قُرآنی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔قُرآنِ کریم کی اُصولی ہدایات اور طریقہ کار نہ صرف مُسلمانوں کے لئے بہترین ہیں بلکہ اسلامی حکومت میں غیر مُسلموں کے لئے حُسنِ سلوک اور آئینی حقوق کا جو حصّہ ہے ، اس سے بہتر کا تصور ناممکن ہے۔
انہوں نے کہا اسلامی حکومت کے تصور میں یہ امتیاز ہمیشہ پیشِ نظر رہنا چاہیئے کہ اس میں اطاعت اور وفا کیشی کا مرجع صرف خُدا کی ذات ہے۔ جسکی تکمیل کا عملی ذریعہ قُرآن مجید کے احکام اور اُصول ہیں ۔ اسلام میں اصلاً کسی بادشاہت کی اطاعت ہے نہ پارلیمان کی ، نہ کسی شخص یا ادارہ کی ، قُرآن مجید کے احکام ہی سیاست ومعاشرت میں ہماری آزادی و پابندی کی حدود مُتعین کرتے ہیں۔اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قُرآنی اصول و احکام کی حُکمرانی ہے اور حکمرانی کےلئے لامحالہ آپ کو علاقہ و مملکت کی ضرورت ہے۔یعنی قائدِ اعظم ؒ نے واضح فرما دیا کہ اسلامی مملکت کی بُنیاد لَا اِلہٰ الّا اللہ ُ ہے جس کے مُطابق اِس بات کا عملی طور پر اعتراف اور اقرار کرنا ہے کہ خُدا کے سِوا کو ئی اور ہستی نہیں اور صرف اِسکی اطاعت لازم ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اطاعت ِ خُداوندی کیسے کیجائے؟اُس کے احکامات ہم تک کیسے پہنچیں؟ کیونکہ وہ تو اَن دیکھی ذاتِ بابرکات ہے۔اطاعتِ خُداوندی کا عملی ذریعہ صرف قُرآن مجید ہے جو رب کریم نے اپنے حبیب ِ پاک ﷺ پر نازل فرمایااور تا قیامت اِسکی حفاظت ذمہ داری اپنے ذمہ لی ۔اِسمیں ہے کہ ©©” جو کُچھ خُدا نے تُمھاری طرف نازل کیا اِس کا اتباع کرو ، اِس کے سِوا کسی اور سرپرست کا اتباع نہ کرو “ (7/3)۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” جو خُدا کی کتاب کے مُطابق فیصلے نہیں کرتے تو یہی لوگ ہیںجنہیں کافر کہا جاتا ہے “ (5/44) ۔ لہذا ثابت ہو جاتا ہے کہ کسی بھی مُسلم حکومت کے آئین یا قانون کی بُنیاد و اساس صرف قُرآنِ پاک ہو سکتی ہے اور کوئی نہیں۔۔۔ یہ تھے وہ چند خیالات جو ہمارے قومی رہنمُاﺅں کے ذہن میں تھے اور جنکی بُنیاد پر اُنہوں نے ہندوستان کے کروڑوں مُسلمانوں کو ایک پرچم تلے متحد کیا اور آزادی کی شمع روشن کر کے دُنیا بھر پر واضح کردیا کہ اگر عزم و حوصلہ متزلزل نہ ہو اور ہمت جواب نہ دے تو کٹھن ترین سفر بھی طے کر کے منزل تک پہنچا جا سکتا ہے۔آج ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہم جان سکیں گے کہ ہم کسقدر تیز رفتاری سے تنزلی کیجانب سفر کر رہے ہیں ۔
ذرا غور کریں کہ آج ہم کیا کر رہے ہیں اور ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ اگر آج اور ابھی سے ہم اپنے زمینی خُداﺅں سے علیحدگی اختیار کر لیں اور اُس لا فانی شے(قُرآن مجید) سے عملاً راہ نُمائی حاصل کرنے لگیں تو میں کہہ سکتا ہوں کہ ہم اپنی عظمتِ رفتہ کو پھر سے حاصل کر لیں گے اور یہ کام ذرا بھی مُشکل نہیں بس اِس کے لئے ایک کام کرنا ہے اور وہ ہے ۔۔۔ سوچنا ، سمجھنا ، عقل و فکر اور دانش سے کام لینا اور بس۔کیونکہ جب ہم نے اپنے ذہن سے کام لینا شروع کردیا تو نہ صرف ہمارے عقائد دُرست سمت اختیار کرلیں گے بلکہ حقیقی معنوں میں جنت کا حصول ممکن ہو جائےگااور قیام پاکستان کا اصل مقصد اپنی اصلی و حقیقی صُورت اختیار کر کے ہمارے سامنے آکھڑا ہو گا ۔یہی ہے ” 70ویںعیدِ آزادی “ کا ہم سب سے یہی مُطالبہ اور تقاضہ۔۔۔۔۔