کیا ہم آزاد ہیں؟
گزشتہ سے پیوستہ
وہ میدان جو کبھی عسکری تربیت کے لےے سجا کرتے تھے، آج ان میں کرکٹ بلکہ کوڑا کرکٹ میچ کرواکر اتنا مصروف و مشغول کردیا جاتا ہے کہ تم کو وقت کے زیاں کا احساس بھی نہیں ہوتا اور تمہاری زندگی کے پانچ اہم ترین دن ضائع کرنے کے بعد یہ کہہ کر تم کو اٹھا دیا جاتا ہے کہ میچ ڈرا ہوگیا ہے، آﺅ! دیکھو اسلام ہمیں کی پچ دیتا ہے جس پر تمہاری ملت محمدیہ کے کھلاڑیوںنے وہ کھیل پیش کیا کہ دشمن اسلام کی مائیں آج بھی اپنے بچوں کو ہمارے ہیروز کا نام لے کر ڈراتی اور چپ کرواتی ہیں۔ وہ پچ حطین کی ہو یا دیبل بندرگاہ کی وہ سرنگاپٹم کا معرکہ ہو یا سومنات کے مندر کا کھیل۔ وہ رن کچھ کا میدان ہو یا کارگل کے برف پوش کوہسار، تمہارے اسلاف نے جو ہیروز پیدا کےے تھے وہ ہماری تاریخ کے دمکتے روشن ستار ہیں۔ ان کا نام لے کر تو ہماری گردنیں فخر سے تن جاتی ہیں۔ وہ شیر بنگال حیدر علی ہوں یا ٹیپو سلطان، سراج الدولہ ہوں یا محمد بن قاسم، محمود غزنوی ہوں یا سلطان صلاح الدین ایوبی، وہ میجر عزیز بھٹی ہوں یا کرنل شیر خان، غرض کس کس کا نام لوں۔ ایک بڑھ کر ایک ہیں۔ کرکٹ کے میدانوں میں اپنا وقت ضائع کرنے والو! تاریخ کے اوراق تو کھنگال کے دیکھو
تمہیں اپنے آبا سے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سیارہ
مگر آج کا نوجوان گندے کرداروں والے جن کا کوئی حسب نسب ہے اور نہ کوئی خاندان مگر ہم نے ان کو اپنا ہیروز بنا رکھا ہے، کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ ان کی سوچ ہمارے دین، ہمارے رہن سہن و تہذیب و تمدن اور ہماری ارض پاک کے خلاف ہے۔ وہ ہماری شہ رگ پہ پاﺅں رکھ کر اسے پوری قوت سے دبانے کی کوشش میں ہیں، وہ جو گائے کا پیشاب پینے کو عبادت تصور کرتے ہیں، اگر ہمارے کپڑوں پہ اس کی ایک چھینٹ بھی پڑ جائے تو ہم خود کو ناپاک تصور کرتے ہیں، ہم ان کو گلے لگانے کی کوشش میں ہیں۔ اس میں سارا کمال میڈیاکا ہے کہ اس نے ان پر تعفن کردار کے حامل لوگوں اور بھانڈوں کو ایک عالمی سازش کے تحت اسقدر Explode اور اجاگر کیا کہ جھوٹ، فریب اور مکر کی دنیا پر بھی حقیقت کا گمان ہونے لگا ہے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید اسلام نے کہا تھا کہ”مسلمان نوجوانوں کی طاقت کا زیاں مت کرو، اسے کام میں لاﺅ، ان کی انگلیاں بربط و رباب کی تاروں سے کھیلنے کے لےے نہیں، رائفلوں کے ٹریگروں پر چلنے کےلئے بنی ہیں، اگر تم میری بات مان لیتے تو آج سقوط ڈھاکہ نہ ہوتا، آج ہمیں یہ ذلت آمیز دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا“ ہاں! وہ روسیاہ دن انہی مجرمناہ غفلتوں کی بناءپر طلوع ہوا تھا کہ ہم نے علامہ اقبال کی بات کو الٹ کردیا کہ
”طاﺅس و رباب اول، شمشیر و سناں آخر“
خدارا! اب تو سوچیں! ہم دشمن کے جال میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ جب ابھی پاکستان معرض وجود میں نہیں آیا تھا تو برصغیر کے مسلمان راتوں کی تاریکیوں میں اٹھ اٹھ کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے تھے کہ ”یا اللہ کوئی ایسا نجات دہندہ بھیج جو مسلمانوں کی ظلمت میں پھنسی ہوئی کشتی کو پار لگادے، اللہ کی قسم آج بھی وہی وقت ہم پہ آچکا ہے۔
ایک دن تم سب سے پوچھے گی وطن کی آبرو
کس نے کٹوایا ہے سر اور کس نے بیچا ہے لہو
کونسا منہ لے جاﺅ گے خدا کے روبرو
ہمیں سنبھلنا ہوگا اور اس کا ایک ہی فارمولا ہے جو رب کائنات نے اپنی اس مقدس کتاب میں بتلادیا ہے جس کی حفاظت کا ذمہ دار وہ خود ہے۔ آئےے اسی نسخہءکیمیاءسے مستفید ہونے ہیں۔
ترجمہ : واعتصموا بحبل للہ جمعیا ولا تفرقوا (آل عمران 103)
اور اللہ کی رسی کو مضبوط سے تھامے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو
ورنہ آنیوالے کل کو (خاکم بدہن)
”ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں“