آزادی ٹرین آج ملتان پہنچے گی
آزادی سے لے کر اب تک ریلوے اس فکر کا احیا کئے ہوئے ہے جو بنیادی طور پر اسے نظریاتی اساس سے میسر ہے اور جس میں قطعی طور پر پاکستانیت منعکس ہے ریلوے آج بھی ترجیحی بنیادوں پر بلند تر ہے اور اس کے معاملات مسافت ہر طرح سے ارفع ہیں پاکستان آزاد ہوا تو مال بردار اور مسافر ٹرینوں میں لٹے پٹے مسلمانوں کے قافلے سرزمین پاکستان میں آئے کچھ مشرقی حصے میں بسے اور کچھ مغربی حصے میں آباد ہوئے مسلمانوں کو بربریت اور استحصال سے بچانے اور بھارت سے پاکستان لانے میں پاکستان ریلوے نے اہم کردار ادا کیا۔ آج بھی یہ تاریخی پس منظر اس کی عظمتوں میں منعکس و رفتہ ہے یہی سبب ہے کہ یوم آزادی 14اگست کی بابت آزادی ٹرین کا احیاءاور چاروں صوبوں سے گزرتی مذکورہ ٹرین کی آمدورفت نے ریلوے کو ”پاکستان“ بنا دیا ہے۔ ریلوے کی مسافتوں میں خاک و خون کی وہ نشانیاں بھی تازہ ہیں جو ہجرت کرتے وقت مسلمانوں سے روا رکھی گئیں اور قتل و غارت گری میں پاکستان آنیوالوں کو لہولہو کیا گیا عصمت دری سے لے کر قتل کی ظلمت تک سب مظالم روا رکھے گئے مگر رواں رہنے والی پاکستانی ٹرین نے زخمی‘ مقتول اور رنجور مسلمانوں کو پاک خطے میں پہنچانے کا فریضہ ادا کیا۔
70ویں یوم آزادی کے لئے مجوزہ ٹرین مارگلہ (اسلام آباد) ریلوے سٹیشن سے 12اگست سے روانہ ہوئی اور چاروں صوبوں کے مشہور شہروں سے گزرتے ہوئے آج اولیاءکے شہر ملتان پہنچے گی۔ آزادی ٹرین میں پانچ گیلریز اور چھ فلوٹس لگائے گئے ہیں جن سے علاقوں کی ہمہ گیر ثقافت کو اجاگر کیا جانا مقصود ہے۔ ملتان سمیت تمام بڑے سٹیشنوں پر ثقافتی جشن کا اہتمام کیا گیا ہے ثقافتی پروگرام اور نظریاتی جشن سے دوقومی نظریئے کی آبیاری ہوتی ہے اور ان اوراق کو پڑھنے کا جی چاہتا ہے جو تاریخی اعتبار سے پاکستانیت کو جذب کئے ہوئے ہیں قائداعظمؒ نے اس وقت کی قوتوں انگریز‘ ہندو اور سکھوں کو شکست دیتے ہوئے آزادی حاصل کی اور سب کو باور کرا دیا کہ آزادی کے متوالوں کے آگے قوتیں اور چٹانیں ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں۔ قائداعظمؒ ریلوے سے سفر کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتے اور طمانیت کا اظہار کرتے ہوئے ریلوے کی مسافت میں پاکستان اور عوام کے لئے سوچ و بچار کرتے تھے وکیل ہونے کے ناطے وہ وکالت سے متعلق اکثر ایک شہر سے دوسرے شہر میں جانے کے لئے ریلوے سے ہی آتے جاتے اور ٹرین کے فرسٹ کلاس ڈیپارٹمنٹ میں براجمان ہو کر آزادی کا ادراک کرتے اور وکالت کی موشگافیوں کو بھی سلجھاتے ان موشگافیوں کو سلجھاتے اور دقیق راہوں سے گزرتے بالآخر انہوں نے پاکستان کی وکالت میں جنگ آزادی جیت لی اور آج ہم سب غیروں کے تسلط سے آزاد ہو کر غالب ہیں اور آزادی کی راہوں میں بے مثال و اغلب ہیں۔ ریلوے نے اسی جذبے کے پیش نظر ”آزادی ٹرین“ کا احیاءکیا ہے اور ان یادوں کا محرک بنی ہے جو پاکستان کو حقیقی پاکستان بنانے کا عزم لئے ہوئے ہے اور آزادی ٹرین کا روانی کا سہرا ان شخصیات کے سر ہے جو ریلوے اور پاکستان کی آزادی کو لازم و ملزوم گردانتے ہیں۔ محمد جاوید انور کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے وہ بیوروکریٹ ہونے سے پہلے ادیب اور شاعر ہیں وہ اپنی شاعری کی صورت میں ریلوے کو خوبصورت معنی دئے ہوئے ہیں ان کی خواہش ہے کہ ریلوے اور اس کا ہر کارکن اس عمل میں Participate کرے جس سے بزم بھی جاوداں ہو اور پاکستانیت بھی منعکس ہو کہ اس میں آزاد خطے کے آزاد شہریوں کی خوشیاں وابستہ ہیں محمد جاوید انور ریلوے کے بڑے جنرل منیجر ہیں اور اس حساس عہدیداری کے موجب ریلوے کو سب سے آگے اور اداروں میں سب سے بڑا دیکھنے کے خوگر ہیں ثقافت اور آزادی کے سارے احوال ان کے ناولوں اور شاعری میں رقم ہیں اور آزادی ٹرین کا احیا اسی رقمطرازی سے عبارت ہے ریلوے ملتان کے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ علی محمد آفریدی اور ڈویژنل کمرشل آفیسر نبیلہ اسلم کی کا وشیں بھی قابل ذکر ہیں کہ آزادی تقریبات میں وہ ریلوے کی فعالیت میں پیش پیش رہتے ہیں۔ 14اگست کو چراغاں تقریبات آزادی قابل دید ہوتی ہےں مگر میرے نزدیک آزادی ٹرین کا نظارہ اس لئے فائق ہے کہ اہل ریلوے نے چلتی ٹرین میں پورے پاکستان کو اجاگر کر دیا ہے فلوٹس اور گیلریز کی تصاویر اور ثقافت سے نظریئے کا ادراک کیا جا سکتا ہے اور یہی ادراک ریلوے کے آزادی ٹرین کی صورت میں تخلیق کیا ہے ملتان میں آزادی ٹرین دیکھنے والے ضرور تصور کریں گے کہ ایک ٹرین 14اگست 47ءمیں آئی تھی جس میں رنج و الام بھی تھے اور آزادی کی رمق بھی اور جو اس کی یاد میں میں چلائی گئی اس میں تاریخ پاکستان عیاں ہے اور یہ ٹرین ماضی اور حال کے امتزاج سے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لئے آزادی ٹرین کے نام سے موسوم ہے اور جو اس عہد پہ چلائی گئی ہے کہ یہ ہر سال یوم آزادی پر چلائی جائے گی مجوزہ ٹرین کے لئے ڈی ایس ریلوے علی محمد آفریدی کو انتہائی حساس اور بے چین پایا۔ وہ آزادی کی نعمت کو عطیہ خداوندی گردانتے ہیں اور اس کی قدر میں منہمک رہنے کی تلقین کرتے ہیں ان کی خواہش ہے کہ آزادی کی سجاوٹ سے تمام سٹیشن سجتے رہیں اور قوم کا ہر فرد آزادی کی خوشیوں سے پر ارتباط رہے۔ خدا خوش رکھے اہل ریلوے کو کہ انہوں نے آزادی ٹرین چلا کر پاکستانیت عیاں کر دی ہے اور تاریخ پاکستان کی یاد دلا دی ہے کہ نظریہ وطن اور قدر آزادی میں ہی فرد وطن کی توقیر ہے راقم نے ملتان کے خوبصورت ریلوے سٹیشن پر سجاوٹ اور اس ٹرین کے انتظامات دیکھے تو خوشی کی انتہا نہ رہی اور نظریاتی جذبوں کو طمانیت ملی کہ ریلوے نے مسافت کے انداز میں ثقافت و تاریخ وطن کو متعارف کرا دیا ہے خدا کرے کہ ایسے جذبے موجزن رہیں اور ایسے ادارے آباد رہیں جو حب الوطنی میں فائق رہنے کےلئے فکروعمل سے پاکستانیت کا احیا کرتے رہتے ہیں اور قوم کو یاد دلاتے رہتے ہیں کہ نظریہ وطن اور اپنی ثقافت کے بنا سب کچھ بے سود ہے اور انہی عوامل سے مزین آج آزادی ٹرین ملتان پہنچ رہی ہے اور ملتان سٹیشن اور ڈویژن سے متعلقہ تمام ریلوے سٹیشنوں کو آزادی ٹرین کے لئے منضبط کرنے کے لئے ملتان ریلوے کے چیف علی محمد آفریدی کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔