ساقی نامہ
اقبال صدف
ترے ہاتھوںمیںکیسامعرفت کاجام ہے ساقی
کہ توخودبھی تہی دامن ہے تشنہ کام ہے ساقی
طریقت عشق ہے اور ہیںشریعت میں رُموز اس کے
طریقت بے شریعت ایک شغلِ خام ہے ساقی
تصور لاکھ ہو ان کا پہ جب دل ہی صیقل ہو
تو پھر یہ بزم جاناں محفلِ اوہام ہے ساقی
نفس کی پیروی میں ِفقر کی منزل نہیں ملتی
نفس تو خواہشوں کا بندہ بے دام ہے ساقی
مجھے اوروں سے کیا نسبت‘ مجھے اوروں سے کیا لینا
کہ مجھ پر شاہ دو عالم کا لطف عام ہے ساقی
کسی پہ جان کیوں دوں میں‘ اسے اوروں پہ کیوں واروں
عطا کی زندگی جس نے اسی کے نام ہے ساقی
تری دنیا سیاست ہے ترا دین بھی سیاست ہے
اسی خاطر تو ہر اک کام میں ناکام ہے ساقی
حقیقت صرف اتنی ہے خدا لگتی صدف یہ ہے
کہ ہم بھی ہیں غلط کچھ اور کچھ بدنام ہے ساقی