اس سال اگست میں میرے والد ستارہ امتیاز جناب محمد شفیع ملک (مرحوم) کو معبودِ برحق کے پاس لوٹے ہوئے 9سال بیت گئے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے سائے تلے بے فکری سے بچپن اور جوانی کے ایام گزارنا جیسے کل ہی کی بات ہو۔
میرے والد ستارہ امتیاز محمد شفیع ملک مرحوم گیارہ اپریل 1916ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کا آغاز قرآنِ پاک سے کیا بعد ازاں میونسپل ہائی سکول مزنگ سے تعلیم حاصل کی۔ بچپن ہی سے علامہ محمد اقبال ؒ کے عاشق تھے۔ بتاتے تھے کہ پانچ چھ سال کی عمر میں سکول میں ہونیوالی اجتماعی منظوم دعا لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری کے ذریعے علامہ محمد اقبال سے غائبانہ تعارف ہوا۔ عمر بڑھتی گئی، علامہ محمد اقبال ؒ کی بچوں کیلئے لکھی ہوئی نظمیں ایک مکڑا اور مکھی، ایک پہاڑ اور گلہری، ایک گائے اور بکری، بچے کی دعا، ہمدردی، ماں کا خواب اور پرندے کی فریاد وغیرہ پڑھیں جنہوں نے ننھے سے دل میں علامہ اقبال ؒ کی عظمت کا ایک ایسا نقش پیدا کیا جو زندگی بھر نہ مٹ سکا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 1930ء میں جب اُن کی عمر صرف چودہ برس تھی جب علامہ اقبال ؒکا خطبہ صدارت الٰہ آباد سنا تو اُنکے مرید ہوگئے اور انہیں اپنا مرشد قرار دے دیا۔ عظیم شاعر علامہ محمد اقبال ؒ کا جب انتقال ہوا تو ملک محمد شفیع مرحوم کی عمر بائیس برس تھی، انہوں نے علامہ کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ علامہ کے تابوت کو کندھا دیا۔ اُن ہی دنوں غازی علم دین شہید ؒ نے شاتمِ رسول راجپال کو جہنم واصل کیا اور اِس "جرم"میں غازی شہید ؒ کو پھانسی دے دی گئی۔ اُنکی نمازِ جنازہ یونیورسٹی گرائونڈ میں پڑھائی گئی۔ میرے والد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے غازی علم دین شہید ؒ جیسے عاشقِ رسول کے جنازے کو بھی کندھا دیا۔ اِسی طرح جب قائدِ ملت قائد اعظم محمد علی جناح ؒقوم کو داغ مفارقت دے گئے تو اُنکے جنازے میں شریک ہونیوالے لاکھوں مسلمانوں میں میرے والد محترم بھی موجود تھے۔ ایک مرتبہ انہیں مقبوضہ کشمیر میں جانے کا اتفاق ہوا اور سیرو تفریح کے دوران وہ درگاہ حضرت بل تشریف لے گئے جہاں آقائے دوجہاں حضورِ اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ کا موئے مبارک ایک شیشے کی نلکی میں محفوظ ہے جس کی زیارت کا شرف انہیں حاصل ہوا۔ انہوں نے ہمیں یہ ایمان افروزبات بتائی کہ جب موئے مبارک کی زیارت کے وقت زائرین درودِ شریف پڑھتے ہیں تو شیشے کی نلکی میں موئے مبارک حرکت کرتا ہے جسے باآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ موئے مبارک واقعی ہی آقائے دوجہاں حضورِ اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ کا ہی ہے۔ علامہ محمد اقبال ؒ نے جب دوقومی نظریہ پیش کیا اور اُسکے بعد تحریکِ پاکستان کا آغاز ہوا تو محمد شفیع ملک مرحوم بھی قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی سرکردگی میں حصولِ پاکستان کیلئے انتہائی سرگرمی سے مصروفِ عمل ہوگئے۔اُن ہی دنوں ایک واقعہ پیش آیا۔ "ان دنوں شملے میں دو پہیوں والے رکشا چلتے تھے یہ رکشے بالعموم تین چار مرد کھینچتے تھے پہاڑی سڑکوں پر رکشا کھینچنا بڑی ہمت کا کام تھا علاوہ ازیں اس کام میں مہارت بڑی اہم تھی کیونکہ اگر رکشا پر گرفت ڈھیلی ہوجائے اور چڑھائی چڑھی جارہی ہو تو رکشا کے نیچے جاگرنے کا خطرہ ہوتا جس سے رکشا سوار کی جانب بھی جاسکتی تھی ورنہ کم سے کم شدید چوٹیں ضرور آتیں۔ ایک بار قائد اعظم ؒ رکشا میں سوار تھے کہ آناً فاناً رکشا کھینچنے والے ایک شخص کا پائوں پھسلا، اس خوف سے کہ کہیں قائد اعظم ؒ زخمی نہ ہوجائیں سڑک کے کنارے مسلمان برق رفتاری سے لپکے ،رکشا کو تھام لیااور لڑھکنے نہیں دیا۔ قائد اعظم ؒ بڑے سکون سے رکشا میں بیٹھے رہے اور مطلقاً پریشان نہیں ہوئے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے لوگوں کے جذبہ محبت کا شکریہ ادا کیا اور ان کی پریشانی پر اظہار مسرت بھی کیا۔ ان لوگوں میں حسن اتفاق سے میرے والد محمد شفیع ملک مرحوم بھی شامل تھے جو ان دنوں ایک مضبوط اور چاق و چوبند نوجوان تھے قائد اعظم ؒ نے اُن سے دریافت کیا کہ کہاں کے رہنے والے ہو۔ جب میرے والد نے لاہور کا نام لیا تو قائد اعظم ؒ کے بارعب چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ قائد اعظم ؒ کی سرکردگی میں تحریکِ پاکستان زور پکڑتی گئی اور ساتھ ہی سکھوں اور ہندوئوں کے مظالم بھی۔ محمد شفیع ملک مرحوم نے ظلم و بربریت کے بہت سے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے، قیامِ پاکستان کیلئے ذبح ہونیوالے مرد، خواتین اور بزرگوں کی لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کیا۔ ہمیں یہ واقعات سناتے ہوئے اُنکی آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب رواں ہوتا تھا ، میں خود گواہ ہوں کہ قیامِ پاکستان کیلئے جانوں کا نذرانہ پیش کرنیوالے مسلمانوں کی قربانیوں کا دُکھ وہ مرتے دم تک نہیں بھولے۔ 1945ء میں قائد اعظم محمد علی جناح ؒ سے محمد شفیع ملک مرحوم سے ایک ملاقات کے دوران قائد اعظم ؒ نے کہا کہ میں ایک ایسے پاکستان کا قیام چاہتا ہوں جہاں غریب عوام آرام اور سُکھ سے زندگی گزار سکیں چنانچہ میرے والد مرحوم نے قائد اعظم ؒسے وعدہ کیا کہ اگر زندگی اور حالات نے اجازت دی تو وہ قیامِ پاکستان کے بعد غریبوں کی فلاح و بہبود کیلئے کسی منصوبے کا اجراء کرینگے۔پاکستان آنے کے بعد انہوں نے بادامی باغ میں آٹوسپیئر پارٹس کی ایک چھوٹی سی دکان سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا اور ترقی کرتے کرتے ایک بڑے صنعتکار بنے ، حالات بہتر سے بہتر ہوتے گئے مگر وہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ سے کیا ہوا وعدہ نہیں بھولے چنانچہ 1975ء میں انہوں نے ممتاز بختار ہسپتال کی بنیاد رکھی اور کسی بڑی سرکاری شخصیت کے بجائے جامعہ اشرفیہ لاہور کے بانی جناب مفتی محمد حسن ؒ کے صاحبزادے مولانا عبدالرحمن اشرفی سے ہسپتال کا افتتاح کرایا۔ اور بارہ کنال کے وسیع و عریض رقبے پر قائم یہ ہسپتال آج بھی غریب و مفلس لوگوں کو علاج و معالجہ کی جدید ترین سہولیات فی سبیل اللہ مہیا کررہا ہے۔ محمد شفیع ملک مرحوم نے اس ہسپتال کو چلانے کیلئے ایک ٹرسٹ بنایا اور اچھی خاصی جائیداد ہسپتال کے اخراجات کیلئے وقف کردی تاکہ کبھی بھی کوئی پریشانی نہ ہو۔ ہسپتال میں ایک سو بیڈز ہیں اور جنرل وارڈ سمیت سارا ہسپتال مکمل طور پر ایئر کنڈیشنڈ ہیں جبکہ ایمرجنسی چوبیس گھنٹے مریضوں کیلئے کھلی رہتی ہے۔ 1987ء میں انٹرنیشنل لائنز کلب کے صدر برائن سٹیونسن نے دکھی انسانیت کیلئے محمد شفیع ملک مرحوم کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں سپیشل لائنز کلب ایوارڈسے بھی نوازا۔ بعد ازاں اُس وقت کے وزیرِ اعلیٰ میاں محمد نواز شریف نے بھی انہیں خصوصی ایوارڈ دیا۔ ہم سب بھائیوں بہنوں کو انہیں نے ہمیشہ یہی درس دیا کہ دولت آنی جانی شے ہے۔ اسے تجوریوں میں بند کرنے یا بنکوں میں رکھنے کے بجائے خلقِ خدا میں دل کھول کر خرچ کرنا۔ ہم سب نے اُنکی اِس نصیحت پر بھرپور عمل کرنے کی ہرممکن کوشش کی جس کے نتیجے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں بہت نوازا۔چودہ اگست کی شب کو محمد شفیع ملک مرحوم تمام اہلِ خانہ کو اکٹھا کرکے پاکستان کی سالگرہ کا کیک کاٹتے تھے۔ 2007ئکے اوائل میں ان پر فالج کا حملہ ہوا جس کی وجہ سے اُن کا ایک بازو بیکار ہوگیا، چودہ اگست آئی اور شدید بیماری کے باوجود انہوں نے حسبِ معمول ہمیں اکٹھا کیا، کیک منگوایا اور اپنے تندرست ہاتھ سے پاکستان کی ساٹھویں سالگرہ کا کیک کاٹا۔ اُسی رات وہ کومے میں چلے گئے اور دو دن بعد انہوں نے اپنی جاں آفریں کے سپرد کردی اور ہم سب ایک گھنے شجرِ سایہ دار، ایک رحم دل شخص اور تحریکِ پاکستان کے ایک سرگرم کارکن سے محروم ہوگئے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024