عمران خان بنی گالہ محل سے ’’تازہ دم‘‘ ہو کر کر بارش میں سڑکوں پر مارے مارے پھرتے لوگوں سے مخاطب ہوا۔ پرائم منسٹر عمران خان آپ سے کبھی جھوٹ نہیں بولے گا۔ یعنی عمران خان جھوٹ بول دے تو ناراض نہ ہونا۔ پہلے تو مجھے پرائم منسٹر بنائو۔ پرائم منسٹر نواز شریف کو ہٹائو تو پھر میں تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا۔ لوگوں کو ڈر ہے کہ سیاستدان پہلے بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ پرائم منسٹر یا وزیر شذیر بن کر تو جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں بولتے۔ پھر بھی لوگ ان کی بات سنتے ہیں اور یقین بھی کر لیتے ہیں تو قصور سارا حکمران سیاستدانوں کا نہیں ہے۔ لوگوں کو جس کا جی چاہے بے وقوف بنائے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اس میں کسی نہ کسی طرح عمران قادری نواز شریف سراج الحق صدر زرداری اور سب سیاستدان شریک ہیں مگر ہمیں پاک فوج کا ساتھ دینا چاہئے کہ پاکستان کو بچانے کے لئے یہ بہت ضروری ہے۔ ہم مارشل لا کے خلاف ہیں مگر اس کے بھی خلاف ہیں کہ پاکستان کو غیر مستحکم کر دیا جائے۔
بات حامد میر کے حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ حامد میر کا دوست عمران خان اس کے الیکٹرانک میڈیا کے خلاف ہو گیا۔ معاملہ آئی ایس آئی، اس کے چیف جنرل ظہیر الاسلام اور حامد میر اور اس کے میڈیا کے درمیان تصادم کا تھا جس میں قصور بظاہر اور اخلاقی طور پر مخصوص میڈیا کا تھا۔ مخالفانہ پروگرام کئے گئے مگر آئی ایس آئی اور پاک فوج نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد یہ مظاہرہ ہوا۔ آج تک معلوم نہیں ہوا کہ صحافی پر کس نے حملہ کیا۔ یہ متنازع اور مشکوک واقعہ ایک المیہ بنا دیا گیا ہے۔ بغیر ثبوت کے ایک اہم حساس ادارے کے سربراہ اور فوج کے مقتدر جرنیل کی تصویر کے ساتھ الزام لگا کر پورے ادارے کو ذلیل کرنا کسی طور پر مناسب نہ تھا۔ یہ واقعہ کسی ملک میں نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صرف پاکستان میں ہو سکتا ہے۔ اس واقعے کی تائید میں بھارتی میڈیا بھی سرگرم رہا۔ اب تک ثبوت جنرل صاحب کے خلاف پیش نہیں کئے جا سکے۔
وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو کیا ضرورت تھی کہ انہوں نے فوری طور پر زخمی صحافی کی عیادت کی۔ اس موقع پر نواز شریف کی زبان سے آئی ایس آئی اور اس کے چیف پر بے بنیاد الزام لگانے کے حوالے سے کوئی بات نہ کی گئی۔ اسے سب قوم نے بہت برا محسوس کیا۔ دوسرے دن آرمی چیف جنرل راحیل شریف آئی ایس آئی کے دفتر میں جنرل ظہیر کے پاس پہنچ گئے۔ یہ پیغام کس کے لئے تھا۔ حکومت نے اسے نظرانداز کیا اور کئی وزیر شذیر بہت بے ہودہ بیانات دیتے رہے کہ ۔ ہم دلیل والوں کے ساتھ ہیں۔ غلیل والوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ وہ لوگ جو بغیر دلیل اور بغیر ثبوت کے صرف الزام بازی کرتے ہیں بیان بازی اور الزام بازی میں فرق مٹ گیا ہے۔ آفرین ہے کہ پاک فوج اور آئی ایس آئی کی طرف سے مکمل خاموشی رہی۔ کوئی بیان نہیں دیا گیا۔
مگر فضا میں دھواں دھار ماحول بنانے کی کوشش حکومت کے وزیروں اور مخصوص میڈیا کی طرف سے کی جاتی رہی۔ عوام میں پاک فوج کی محبت ہمیشہ سے موجود ہے۔ اس موقع پر وہ پاک فوج کے ساتھ یکجہتی کے لئے باہر بھی نکلے۔ جو مارچ حکومت کے خلاف ہو رہے ہیں اس میں حساس اداروں کا ہاتھ نہیں ہے۔ عوام کا غصہ ایک خاص غیظ و غضب سے ظاہر ہوا ہے۔ کوئی ملک اپنی فوج کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا۔ اب بار بار دھرنوں اور مظاہروں کے لئے کسی خفیہ ہاتھ کی بات کی جاتی ہے تو یہ بالکل غلط ہے۔ یہ کچھ لوگوں کے اندر کا خوف ہے جو سامنے آ رہا ہے۔ اگر کچھ ہے تو اس کا سراغ باہر کی دنیا میں لگایا جا سکتا ہے۔
لوگوں کو عمران خان کے ساتھ مجبوری کے طور پر لگنا پڑا ہے۔ ورنہ عمران خان بھی ایک روائتی سیاستدان ہے اور کرسی کا دیوانہ ہے۔ خود پرائم منسٹر بننے کی دھمکی دیتا ہے۔ میں عمران خان کی کسی طرح حمایت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ اب حکومت غلیل والوں سے مدد لے رہی ہے۔ 245 کے تحت بھی انہی کو بلایا گیا ہے۔ حکومت نے اپنے وزیروں کی مشاورت سے مس ہینڈلنگ کی ہے۔ اب تک مس ہینڈلنگ ہو رہی ہے۔ شکر ہے معاملہ وزیر داخلہ چودھری نثار کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے دونوں دھرنوں کو اب تک قابو میں رکھا ہوا ہے۔ چودھری نثار نے ڈاکٹر قادری کو پوری طرح سکیورٹی مہیا کی ہے۔ خاص طور پر عمران کے ساتھ دوستی نبھائی ہے اور اسے مکمل سکیورٹی دی ہے۔
نواز شریف نے جشن آزادی کی تقریبات کو پاک فوج کے شہیدوں کے نام سے منسوب کر دیا ہے۔ جنرل راحیل شریف ایسی آزادی کی ہر تقریب میں شریک ہوئے۔ ان کے ساتھ میں دلیل والوں کے ساتھی پرویز رشید بھی بیٹھے ہوتے تھے۔
مبارک ہو کہ حامد میر نے دوبارہ پروگرام شروع کر دیا ہے۔ تو یہ کس معافی نامے کے تحت ہوا ہے۔ یہ بھی ایسے ہی ہے جیسے عمران کہتا ہے کہ میں کوئی ڈیل نہیں کروں گا۔ جو آدمی ’’گرانڈیل‘‘ کا قائل ہو وہ واقعی ڈیل نہیں کر سکتا۔ اپنے اوپر حملے میں صحافی کے اپنے کردار کے حوالے سے باتیں مشکوک ہی ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کے دوست اور ساتھی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کسی دوسرے چینل میں چلے گئے ہیں۔ اور زیادہ پاپولر ہوئے ہیں۔ وہ کس مفاہمت اور مصالحت سے گئے ہیں۔ انہوں نے متنازع واقعے کے حوالے سے ایک لفظ نہیں کہا اور پاک فوج کی بہت تعریفیں کیں۔ عمران بھی تو زخمی صحافی کے دوست ہیں۔ ان سے کبھی پوچھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔
اس طرح پاکستان کے خلاف سازش کی جا رہی ہے۔ اب وقت پاکستان بچانے کا ہے۔ جمہوریت بچانے سے بھی زیادہ اہم پاکستان کو بچانا ہے ورنہ بیرونی قوتیں پاکستان کو بھی مصر تیونس لیبیا اور شام کی طرح کے حالات سے دوچار کرنا چاہتی ہیں۔
جنرل مشرف کا معاملہ بھی آج کل زیرغور آ رہا ہے۔ میرے خیال میں اس معاملہ کو بھی خواہ مخواہ غیرضروری طور پر بڑھایا گیا اور الجھایا گیا ہے۔ بھارت دوستی کے لئے بھی غیرسیاسی اور غیرقومی رویہ مناسب نہ تھا۔ پھر بھی میری رائے میں آپریشن ضرب عضب کے مقابلے میں آپریشن ضرب غضب بھی مناسب نہیں ہے۔
جو انتظامات اسلام آباد میں دھرنے کے تھکے ماندے شرکاء کے لئے تحریک انصاف والے کر رہے ہیں بہت تکلیف دہ ہے۔ خواتین و حضرات اور بچے بہت بیزار ہیں، پھر بھی ان کا جنون قائم ہے۔ البتہ طاہر القادری کی عوامی تحریک والوں نے خوب انتظامات کئے ہیں ہر عورت اور مرد اور بچے کو کھانا پانی فراوانی کے ساتھ مل رہا ہے۔ دیگر سہولتوں کے لئے بھی انتظامات بہت بہتر ہیں۔ الطاف حسین بھائی کی طرف سے کھانا بھی عوامی تحریک کے خواتین و حضرات کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کے متنظمین نے روپے پیسے تو خوب وصول کر لئے مگر انتظامات ناقص رہے۔ عمران خان کرپشن ختم کرنے کے لئے جو دعوے کرتا ہے اس کی قلعی کھل گئی ہے لوگ آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور منتظمین سیاستدان کسی اور طرف دیکھنے لگ جاتے ہیں یہ واقعی جنون ہے جو کچھ لوگوں کو ابھی تک یہاں بٹھائے ہوئے ہے۔ یقیناً یہ جنون اپنی لیڈر شپ کو تبدیل کر لے گا۔ لیڈر کوئی نہیں مگر لوگ کیا کریں۔ ہر کوئی اپوزیشن میں لیڈر نظر آتا ہے لیڈر ہوتا نہیں ہے پھر وہ حکمران بن جاتا ہے لوگ پھر ان کے خلاف جلوس نکالتے ہیں۔ جنون اور جذبہ پاکستان کے کام آئے۔ پاکستانی سیاستدان پاکستان کے لئے سوچیں اور سوچیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ حکمران بھی سیاستدان ہیں۔ میری طرف سے یہ گزارش ہے کہ سیاستدان پاکستانی سیاستدان بن جائیں ایٹم بم فوج اور قومی یکجہتی کے بغیر ہمیں کوئی نہیں چھوڑے گا۔ اور دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم عشق رسولؐ کے دائرے میں اندر سے مضبوط رہیں۔ اتحاد کے لئے سیاست کی ضرورت نہیں ہے زندگی اور موت سے یکساں پیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سیاستدان پاکستان کے لئے شہید ہونے والے فوجی جوانوں اور افسروں کو دیکھیں۔ انہوں نے کبھی سیاست نہیں کی ہے۔ سیاستدان تو کہتے ہیں عمران کا یہ بیان ہمارے سامنے ہے کہ میں اپنے مقصد کے لئے شہید ہونا چاہتا ہوں مگر مجھے سکیورٹی چاہئے۔ ان کا مقصد پرائم منسٹر بننا ہے۔ پاکستانی بننے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38