پاکستان میں پریس اور فوجی و سول آمروں کے درمیان ہمیشہ ایک خاص کش مکش رہی ہے۔ایوب خان پاکستان میں پہلی بار سیاسی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہوئے تو سیاستدانوں کی بساط لپیٹتے ہوئے انہیں اخبارات کی طرف سے خاصی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔اخبارات میں تو ایسی باتیں لکھی گئیں جو ان کی طبع نازک پر گراں گزرتی تھیں چنانچہ انہوں نے پریس سے نمٹنے کیلئے متعدد اقدامات کئے۔ان میں نیشنل پریس ٹرسٹ کا قیام اور اشتہارات اور نیوز پرنٹ کو پریشر لیور کے طورپر استعمال کرنے کا اہتمام بھی شامل تھا یہ ایک الگ بات ہے کہ نہ قدرت اللہ شہاب مرحوم” شہاب نامے“ میں اعتراف کرتے ہیں کہ پریس کو اس طرح لگام ڈالنے میں ان کا بھی کوئی ہاتھ تھا اور نہ ہی محترم الطاف گوہر جو بعد میں خود بھی مدیر بن گئے اور تیسری دنیا میں آزادی صحافت کے علمبردار....
بہرحال ایوب خان ہوں یا یحییٰ خان ،ان کے جانشین پہلے سول مارشل لاءایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا طویل مدت کیلئے اس ملک پر حکومت کرنے والے فوجی آمر مرحوم ضیاءالحق، بطور صحافی و مدیران تمام بزرگوں سے میرا واسطہ رہا ہے۔ان چار میں سے پہلے تین سے تو میری ملاقاتیں صرف کاروباری یا پیشہ ورانہ حوالے سے رہیں لیکن مرحوم ضیاءالحق سے ملاقاتوں کا طویل سلسلہ 1977ءسے 1988ءتک محیط ہے۔
باقی تین حکمرانوں سے بھی میری اکثر اور بے تکلف ملاقاتیں رہتی تھیں۔ ضیاءالحق ان سے بالکل مختلف تھے۔خالص فوجی ہونے کے باوجود وہ اپنے سول لباس میں جو شروع شروع میں ایک سادہ کرتے شلوار اور پانچ سات روپے کی چمڑے کی چپل پر مشتمل ہوتا تھا سادگی کا پیکر دکھائی دیتے تھے۔ وہ اکثر آرمی ہاﺅس کی ڈیوڑھی میں اپنے مہمان کا استقبال کرتے اور ملاقات کے بعد وہیں تک اسے چھوڑنے بھی آتے تھے۔ وہ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ لیکر مصافحے کے عادی تھے اور ان کے یہ آداب ایک عام انسان کو مسخر کیا کرتے تھے۔ ان کے ساتھ میرے ذاتی تعلقات بھی رہے اور پیشہ ورانہ بریفنگ میں بھی میں باقاعدگی کے ساتھ جاتا رہا۔ان کے ساتھ تعلقات نہایت اچھے بھی رہے اور بہت کشیدہ بھی لیکن میں نے انہیں ہمیشہ باحوصلہ پایا آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے صدر کی حیثیت سے میں نے انہیں چار بار اپنی” جماعت“ کے سالانہ ڈنر میں بلایا اور انہی مواقع پر انہیں اپنی سناتا رہا اور ان کی سنتا بھی رہا۔ایسے مواقع کیلئے مجھے اپنی تقاریر یا سپاس نامے پیشگی بھیجنے پڑے ،جس کا جواب و ہ خود تیارکرکے لاتے تھے اور اس میں ہمارے دوست صدیق سالک مرحوم کی نمک مرچ اور چاشنی بھی شامل ہوتی تھی۔ایسے ہی ایک موقع پر انہوں نے نوائے وقت کی پیشانی پر لکھے ہوئے ماٹو کے حوالے سے خود کو ” جابر“ کے بجائے ” صابر“ سلطان قراردیا۔ان کے اور میرے درمیان یہ پبلک ڈائیلاگ80ءسے 84ءتک.... چار سال جاری رہا۔
میں مسلمان ہوں اور پاکستان کو ایک اسلامی، جمہوری فلاحی مملکت دیکھنا چاہتا ہوں، لیکن جنرل ضیاءکی اسلامائزیشن میں لوگوں نے وضو کے بغیر ہی نماز کیلئے صفیں باندھی ہوئی تھیں۔ میرا ان کا اختلاف جمہوریت کے مسئلے پر تھا۔ میری پختہ رائے تھی اور اب بھی ہے.... کہ اسلام عین جمہوریت ہے اور جمہوریت کوئی غیر اسلامی شے نہیں۔ مرحوم ایک فوجی حکمران ہونے کی وجہ سے دل سے جمہوریت کے قائل نہیں تھے۔ ان کا پختہ ایمان تھا کہ اسلام میں آج کل کی جمہوریت جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ دل سے خواہاں تھے کہ پاکستان میں صدارتی نظام ہو۔ پارلیمنٹ جسے انہوں نے آئین میں ” شوریٰ“ کا دوسرا نام دیا ہوا تھا، عملاً ایسی شوریٰ ہو جو انہیں مشورہ تو دیدے لیکن بطور صدر یا امیر وہ اسے قبول کرنے کے پابند نہ ہوں۔ مجھے بھی اس شوریٰ میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی۔ میں نے خط لکھ کر معذرت کی جبکہ کئی صحافی حضرات اور مدیران نے یہ دعوت قبول بھی کی۔ شوریٰ سیاست دانوں کے لئے تھی، میرا م¶قف تھا کہ میں صحافی ہوں اور ایک آزاد صحافی، میں صرف نوائے وقت کی ادارت کو ہی اپنا کام اور سب سے بڑا اعزاز مانتا ہوں۔
ذاتی زندگی میں بھی وہ اسی اصول پر کاربند تھے، وہ ہر کسی کی بات توجہ سے سنتے اور سنانے والا یہ سمجھتا کہ اسکی بات ان پر اثر کر رہی ہے لیکن بالآخر وہ کرتے وہی جو ان کا جی چاہتا۔ ان کے ساتھ درجنوں، بیسیوں بلکہ سینکڑوں ملاقاتوں میں نجی ملاقاتوںمیں بھی،میرا اور ان کا یہ ’ ’ دوستانہ اختلاف“ عیاں رہا، نہ میں اپنے موقف سے ہٹا اور نہ وہ.... ہم دونوں اپنے اپنے نظریات پر ڈٹے رہے۔
ان کا خیال تھا کہ پاکستان مغربی طرز کے پارلیمانی نظام کیلئے موزوں نہیں ہے جب کہ میرا موقف یہ ہوتا کہ فوجی حکومت کی وجہ سے ہم نے آدھا ملک گنوا دیا اور رہے سہے پاکستان میں بھی بد قسمتی سے ہم سندھ میں ” سندھودیش“ کیلئے زمین ہموار ہوتی دیکھ رہے ہیں،اس ملک کے سیاسی مسائل کا حل بار بار انتخابات کا انعقاد اور عوام کے منتخب نمائندوں کو امور مملکت کی باگ ڈور تھما دینے میں مضمر ہے۔ آج کے دور میں جبکہ ریڈیو،ٹی وی اور دوسرے ذرائع ابلاغ عام ہیں، عوام کو آزادی سے محروم اور جدید خیالات سے بے بہرہ نہیں رکھاجاسکتا اور یہ ضروری ہے کہ پاکستان کو اسلامی اصولوں پر مبنی جدید فلاحی جمہوری ریاست بنادیاجائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے گیارہ سالہ دور حکومت کا جب ہم ان سے فوراً پہلے کے پاکستان کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں تو پاکستان ایک مختلف ماحول کا حامل ملک دکھائی دیتا ہے۔ مساجد کی تعداد اور نمازیوں کی تعداد بھی بڑھی ہے لیکن اس اسلامی ماحول کے باوجود یہاں آپا دھاپی بھی بہت بڑھی،رشوت کا ریٹ بھی....جیسا کہ وہ خود اعتراف کرتے تھے،کئی گنا بڑھ گیا۔ ڈاکہ زنی ،بینکوں اور پٹرول پمپوں پر ڈاکے روز کا معمول بن گئے۔
سیاسی طور پر بھی اگرچہ نظریاتی سوچ پر بہت زور دیا گیا لیکن فی الواقع ہم اپنی نظریاتی سمت کھو چکے تھے۔ غفار خاں یا جی ایم سید، ولی خان ہو یا ان کا کوئی اور بھائی بند، ان کی ملک اور بانیاں ملک کے خلاف زبان درازی عام تھی۔ یہاں تک کہ جی ایم سید نے بھارت جا کر وہاں کے وزیر اعظم سے سندھو ویش بزور بازو حاصل کرنے کیلئے فوجی مدد مانگی اور واپس آ کر یہ بھی بتایا کہ اس سلسلے میں انہوں نے ایک بھارتی فوجی جنرل سے ملاقات بھی کی ہے لیکن یہاں ان کی پذیرائی میں کوئی کمی نہ آئی۔
29مئی 88ءکو اپنے ہاتھوں ہی عطا کردہ سسٹم کو ختم کرنے کے بعد انہوں نے جون کے پہلے ہفتے میں مجھے مری میں طلب کیا، ان کے اصرار پر میں نے پنڈی سے مری تک اپنی گاڑی کی بجائے پریذیڈنٹ ہاﺅس کی گاڑی میں سفر کیا، مری کے پریذیڈنٹ ہاﺅس میں وہ اسی دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ مجھے خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ یہ ملاقات خاصے عرصے کے بعد ہوئی تھی بلکہ یوں کہہ لیں کہ اس طرح کی پرائیویٹ ملاقات برسوں بعد ہوئی تھی، اس دوران میرے اور ان کے ذاتی تعلقات انتہائی کشیدہ ہو چکے تھے، ان کی پالیسیوں پر مری زبانی اور اخباری نکتہ چینی کو وہ ناپسند کرنے لگے تھے لیکن انہوں نے اظہار ناپسندیدگی یوں کیا کہ مجھ سے پرائیویٹ ملاقاتیں بند ہو گئیں اس کے علاوہ اور کوئی ”انتقامی“ کارروائی انہوں نے نہیں کی۔
اے پی این ایس کے مکالمات کے بعد حکومت نے ہماری پیشہ ورانہ سیاست میں بھی دخل اندازی کی۔ ہمارے حریفوں کا اعلانیہ ساتھ دیا لیکن جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں وہ اس سے آگے کبھی نہیں بڑھے، دراصل اخبارات کے معاملے میں وہ بہت گہری دلچسپی کے عادی ہو گئے تھے۔ این پی ٹی کے حوالے سے وہ خود کو پانچ اخبارات کا مالک کہتے ہی نہیں تھے بلکہ سمجھتے بھی تھے اور بیشمار اخبارات کے مالکان، مدیران اور کارکن صحافیوں کے ساتھ ان کے بڑے گہرے ذاتی مراسم تھے۔ ایک دفعہ ہم نے ضیاءالحق سے گروپ انٹرویو کیلئے وقت مانگا تو انہوں نے شرط عائد کر دی کہ نظامی صاحب خود ساتھ آئیں گے، میں چلا گیا۔ جب انٹرویو مکمل ہوا تو ضیاءصاحب نے کہا نظامی صاحب آپ نے سوال نہیں کیا، میں نے کہا انٹرویو مکمل ہو گیا ہے تو بس ٹھیک ہے، لیکن وہ اصرار کرنے لگے کہ آپ بھی سوال کریں تو میں نے کہا جنرل صاحب ”ساڈی جان کدوں چھڈو گے“
مری کی اس ملاقات میں انہوں نے تفصیل کے ساتھ اپنے وزیر اعظم کی برطرفی کے پس منظر سے مجھے آگاہ کیا اور اس سلسلے میں آئندہ تعاون کیلئے کہا۔ میرا جواب حسب معمول وہی تھا.... ”آپ جو اچھا کام کریں گے ہم اس کی حمایت کریں گے اور آپ کے جس اقدام سے ہمیں اتفاق نہیں ہو گا اس سے اختلاف نہ کرنا ہمارے لیے بڑا مشکل ہے“۔
ان کی آخری بریفنگ اس جولائی میں تھی۔ اس موقع پر بھی انہوں نے اپنے غیر جماعتی فلسفے پر زور دیا اور کہا کہ ”میرا بس چلے تو میں مزید چار پانچ انتخابات بھی غیر جماعتی بنیادوں پر کراﺅں گا“۔ میں نے پوچھا اپنی زندگی ہی میں؟ وہ کچھ گھبرا کر فرمانے لگے ”ہاں اگر اللہ تعالیٰ نے دی اور اس کے بعد ہفتہ دس دن کے اندر وہ ہوائی جہاز کے حادثے میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ رہے نام اللہ کا!
میں سمجھتا ہوں کہ وہ غیر متنازعہ ہونے کے باوجود اس سے پہلے ہی اس جہاں سے رخصت ہو گئے کہ ان کے خلاف کوئی تحریک چلتی یا ”ضیاءالحق جاﺅ“ کا نعرہ لگتا۔ اس ملک میں اب بھی بے شمار لوگ موجود ہیں جو عزت کے ساتھ ان کا نام لیتے ہیں۔ ان کی بشری غلطیوں سے درگزر کرتے ہوئے ان کے اچھے کاموں کی تعریف کرتے ہیں، بالخصوص انہوں نے افغان مسئلے پر جو باہمت اور باغیرت موقف اختیار کیا اس کی دل کھول کر داد دیتے ہیں۔ ان کے اسی کارنامے کی وجہ سے تاریخ میں ان کا نام یقینا باقی رہ جائے گا جبکہ لوگ فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کو بھول چکے ہوں گے۔
جہاں تک ان کے ذاتی اوصاف کا تعلق ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی قسم آپ ہی تھے۔ ان کا تعلق مڈل کلاس سے تھا۔ گیارہ سال کی حکومت کرنے کے باوجود ان کے طور طریقوں میں بظاہر کوئی فرق نہ آیا۔ آج تک ان کے بارے میں کوئی ایسی حرف گیری پڑھنے، سننے میں نہیں آئی اور نہ ہی ان کے کسی بڑے سے بڑے، سیاسی دشمن نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے کوئی ناجائز مال بنایا تھا۔ وہ پابند صوم و صلوٰة تھے اور انہوں نے اپنے طرز عمل سے اس کی تلقین و تبلیغ بھی کی کہ مسلمان شعائر اسلام پر بھی عمل کرے۔ ان کی زندگی میں ان کی اولاد کو بھی کسی نے حکمرانوں کی اولاد جیسے کروفر کے ساتھ چلتے پھرتے نہیں دیکھا۔ ان کے کئی سیاسی خیالات سے شدید اختلاف کے باوجود میرا یہ خیال ہے کہ ذاتی طور پر ان جیسا آدمی کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں اتنا بڑا تاریخی جنازہ نصیب ہوا کہ ان کا سفر آخرت دیدنی تھا۔ (بشکریہ ماہنامہ قومی ڈائجسٹ، ضیاءالحق نمبر)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024