پینسٹھ سالو ں سے یومِ آزادی آتا ہے اور گزرجاتا ہے۔ ہر یوم آزادی ” روایتی“ جوش و جذبے کے ساتھ منایاجاتا ہے۔ عموماً قیدیوں کو جیلوںسے آزادی دیدی جاتی ہے اور گزشتہ پندرہ بیس سالوں سے جو صدارتی قومی ایوارڈز دئیے جاتے ہیں۔اُن میں سے آدھے سے زیادہ ایوارڈز سفارشوں کی بنیادوں پر تقسیم کیے جاتے ہیں۔ خاص طورپر جشنِ آزادی کے موقع پر گزشتہ چار سال سے جو صدارتی ایوارڈز کی بندر بانٹ جاری ہے۔ اُس پر ہر شخص انگشت بدنداں رہ جاتا ہے کیونکہ یہ ایوارڈز کا رکردگی کی بنیاد پر نہیں،تعلقات، سفارش اور ستائش باہمی کی بنیاد پر دیکر قابل اور اہل لوگوں کی تضحیک اور اپنی نالائقیوں اور جہالت کا ثبوت گزشتہ چار سال سے دیا جارہا ہے۔ایوارڈز کی روح پرور تقریب تو جناب مجید نظامی کی سرپرستی میں منعقد ہوتی ہے۔اس تقریب اور ان ایوارڈز کا تعلق سراسر خدمات، قابلیت، ذہانت، ایثار اور قربانی سے مشروط ہوتا ہے۔ یہ وہ افراد ہیں جن کے آباﺅ اجداد یا خود انہوں نے اس ملک کیلئے بے مثال، ناقابل فراموش اور عظیم قربانیاں دیں اور اپنی بے لوث انمٹ کارکردگی کے نقوش پاکستان کی صورت میں دئیے۔ اس ارضِ وطن کیلئے کن لوگوں نے اپنا سب کچھ لٹا اور مٹا ڈالا۔ یہ واحد مرکز ہے جو آزادی کے دن آزادی کیلئے قربان ہوجانے والوں کی یاد مناتا ہے۔نظریہ پاکستان پورے ملک میں اب واحد ادارہ ہے جو پاکستان بنانے والوں کی خدمات پر گولڈ میڈلز دیتا ہے اور ان کی روحوں کے ایصال ثواب کا اہتمام و انصرام کرتا ہے۔مجید نظامی صاحب نے اس حوالے سے جو گرانقدر خدمات انجام دی ہیں وہ پاکستان کی تاریخ کا انمول حصہ ہیں۔ اپنے اسلاف کے کارناموں کو یاد رکھنا عظیم قوموں کی نشانی ہوتا ہے۔جناب مجید نظامی سے 14 اگست2006ءکو میں نے اور میر ی والدہ نے گولڈ میڈل وصول کیا۔ میرے والد مرحوم ادریس محمد خان کو قائداعظم نے خود مسلم لیگ غازی آباد بھارت کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا تھا۔میرے والد نے غازی آباد میں قائداعظم کیلئے ایک عظیم الشان جلسہ کا اہتمام کیا تھا اور قائداعظم کے ہر جلسہ میں شرکت کرتے تھے۔ انہوں نے بہت سے مواقعوں پر جان پر کھیل کر مسلمانوں کو ہندوﺅں کی خونریزی سے نکالا تھا۔ میرے والد نے ہجرت کے وقت اور ہجرت کے بعد جو قربانیاں دیں اور اپنی ساری جائیداد آزادی کے حصول میں لگا کر خالی ہاتھ پاکستان آگئے تھے اور پاکستان آکر کلیم بھی کچھ نہ کیا۔ مہاجروں کی آباد کاری میں بھی اپنے آباﺅ اجداد کی باقی ماندہ جائیداد لگادی۔ یہاں تک کہ شادی بھی1964ئ میں تاخیر سے کی۔ میرے والد کی پاکستان کیلئے ان گنت خدمات ہیں۔ انہوں نے کبھی اشارتاً بھی کسی سے ان کا ذکر نہ کیا کیونکہ صلہ کے طلبگار نہ تھے۔میاں نواز شریف بھی اپنے ماموں اور میری مبلغ دادی محترمہ کے توسط سے سب جانتے تھے اور ویسے بھی میرے والد ادریس محمد خان مرحوم غلام حیدروائیں، نواب ذوالفقار علی ممدوٹ اور علی محتشم کے قریبی ساتھی تھے اور نظریہ پاکستان کی تقریبات کے اہتمام میں پیش پیش رہتے تھے لیکن انہوں نے کبھی ایوارڈ، پلاٹ، عہدے، مراعات کی خواہش نہیںکی مگر کبھی کسی حکومت کو خود بھی توفیق نہیں ہوئی کہ ایک ایسی بے لوث مخلص بہادر غیور اور عظیم ہستی کو ایک گولڈ میڈل سے نوازدیتے۔ یہ خیال آیا بھی تو جناب مجید نظامی، ڈاکٹر جاوید اقبال اور نصیر ملک مرحوم کو۔ جب نظامی صاحب نے یہ گولڈ میڈل مجھے دیا تو اُس وقت تک میں سولہ سترہ ایوارڈ ز حاصل کرچکی تھی لیکن کوئی گولڈ میڈل میرے حصے میں نہیں آیا تھا۔میرے لئے یہ تین طرح سے اعزاز تھا کہ میں پہلی مرتبہ گولڈ میڈل لے رہی تھی دوسرے اپنے والد کی خدمات کا اتنے بڑے پلیٹ فارم پر اعتراف میرے لئے باعث انبساط تھا۔ تیسرے جناب مجید نظامی سے ایوارڈ لینا ایک سعادت تھی۔یہ ایسا بابرکت میڈل تھا کہ گزشتہ روز مجھے جوگولڈ میڈل ملا وہ ” مجید نظامی گولڈ میڈل“ ہے۔میرے لئے یہ بہت بڑا فخر ہے۔میںنوائے وقت سے گزشتہ اٹھارہ سال سے منسلک ہوں۔ نظامی صاحب سے طویل نشستیں ہوئی ہیں۔ انہیں اپنی دس کتابیں پیش کی ہیں لیکن میری کبھی جناب مجید نظامی صاحب کے ساتھ حیرت انگریز طورپر تصویر نہیں بن سکی۔ گولڈ میڈل لیتے ہوئے بھی میری والدہ نمایاں ہیں اور میری صرف جھلکیاں ہیں۔معلوم نہیں یہ فوٹو گرافر کی تنگ نظری ہے یا شرارت.... کیا اب میں خصوصی طور پر نظامی صاحب کے ساتھ تصویر بنواﺅں گی جو کسی خاص موقع پر ہوگی۔ میں عموما کسی کے ساتھ تصویر نہیں بنواتی لیکن نظامی صاحب کے ساتھ ضرور بنواﺅں گی کیونکہ ان کے ساتھ میری عقیدت مند یادیں ہیں اور ان کی شفقتیں ہیں۔ پاکستان میں ہم مسلسل مشروط اور مصلوبِ آزادی مناتے آرہے ہیں جہاں پر قومی ترانے وائلن اور پیانو پر تیار کرکے بجادئیے جاتے ہیں۔ بچوں سے چار چھ روایتی تقاریر۔ نہ کبھی امریکہ کے تسلط سے آزادی کی نوید سنائی جاتی اور نہ مہنگائی کے عذاب سے آزادی ملتی۔ نہ آزاد فضا میں سانس لینے کی آزادی نصیب ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں آج بھی رشوت سفارش کرپشن کا بول بالا ہے۔ ہمیں کبھی کسی حکومت نے ان تینوں عذابوں سے آزادی نہیں دی۔ ہر یوم آزادی ایک نئی بندش ایک نیا عذاب،ایک نیا دکھ لاتا ہے کیونکہ ہماری آزادی کی باگ ڈور نا اہل لوگوں کے ہاتھو ں میں ہے جو ہماری آزادی کے بال و پرنوچ دیناچاہتے ہیں۔ ایسے میں جناب مجید نظامی ہی ایسا چراغ نور ہیں جو روشنی دیتا ہے لیکن آئندہ سال ضرور آپ ایک روشن حسین دلکش صبح سے روشناس ہوں گے جب نا اہل حکمران پسِ زنداں ہوںگے اور نئے چہرے آزادی کی نوید بنکر ابھریں گے۔آمین!
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38