سید محمد علی
syedhamdani012@gmail.com
سوشل میڈیا نے ہماری زندگیوں کو ایک ایسی دنیا میں بدل دیا ہے جہاں ہر تصویر، ہر ویڈیو، اور ہر پوسٹ ایک کہانی سناتی ہے۔ یہ کہانیاں بظاہر خوشیوں، کامیابیوں اور خوبصورتیوں سے لبریز نظر آتی ہیں۔ لیکن ان چمکتی دمکتی تصویروں کے پیچھے ایک ایسی حقیقت چھپی ہوتی ہے جسے شاید ہم جانتے بھی ہیں مگر تسلیم کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے "پرفیکٹ لائف" یعنی مکمل، بے عیب اور خوابوں جیسی زندگی کا فریب، جو سوشل میڈیا نے ہمیں دکھایا اور جسے ہم نے حقیقت مان لیا۔ ہر روز جب ہم انسٹاگرام، فیس بک، یا ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر لاگ ان کرتے ہیں، ہمیں وہ لوگ نظر آتے ہیں جو سفر کر رہے ہوتے ہیں، مہنگے کھانے کھا رہے ہوتے ہیں، خوبصورت لباس پہنے ہوتے ہیں، اپنی کامیابیوں کے جشن منا رہے ہوتے ہیں یا اپنے تعلقات کی خوبصورتی کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ تمام مناظر ہمارے دل میں ایک خلش، ایک احساسِ کمتری، اور کبھی کبھی ایک سوال پیدا کرتے ہیں: کیا میری زندگی واقعی اتنی بور، ادھوری اور ناکام ہے؟ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں سوشل میڈیا کا اصل جادو، یا یوں کہیے کہ جادوگری، اپنا کام دکھاتی ہے۔ ہماری آنکھوں کو جو کچھ نظر آتا ہے وہ دراصل "ایڈیٹڈ ریئلٹی" ہوتی ہے۔ فلٹرز، زاویہ نگاری، روشنی کا کھیل، اور سب سے بڑھ کر مخصوص لمحات کو چن کر دکھانے کا فن۔ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس پرفیکٹ تصویر کے پیچھے کتنی کوششیں، ناکامیاں، اور اداسی چھپی ہوئی ہے۔ ہم صرف وہ منظر دیکھتے ہیں جو دوسروں کو دکھانے کے لیے منتخب کیا گیا ہے، نہ کہ وہ جو روزمرہ کی حقیقت ہے۔ یہ فریب صرف دیکھنے والے پر اثر نہیں کرتا، بلکہ دکھانے والے پر بھی ایک بوجھ ڈال دیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر پرفیکشن دکھانے کا دباؤ اتنا بڑھ چکا ہے کہ لوگ اپنی اصل زندگی سے کٹ کر ایک فرضی شخصیت میں جینے لگے ہیں۔ وہ ہر لمحہ سوچتے ہیں کہ کیسے دوسروں کو متاثر کیا جائے، کس زاویے سے تصویر لی جائے، کون سا کپڑا پہنا جائے، اور کون سا لمحہ شیئر کرنے کے قابل ہے۔ اس دوڑ میں وہ اصل خوشی، اصل رشتے اور اصل لمحات کھو دیتے ہیں۔ یہ "پرفیکٹ لائف" کا فریب صرف انفرادی سطح تک محدود نہیں بلکہ اجتماعی ذہنوں پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ معاشرتی معیار بدل رہے ہیں، خوبصورتی کے پیمانے تبدیل ہو چکے ہیں، اور کامیابی کی تعریف صرف شہرت، پیسے اور پیروکاروں کی تعداد پر مبنی ہو گئی ہے۔ یہ تبدیلی خاص طور پر نوجوان نسل کو سب سے زیادہ متاثر کر رہی ہے، جو ابھی زندگی کو سمجھنے کے مراحل میں ہیں۔ ان کے لیے سوشل میڈیا ایک ایسا آئینہ بن گیا ہے جو صرف دوسروں کی چمک دکھاتا ہے، مگر ان کی اپنی تصویر کو دھندلا کر دیتا ہے۔ ایک اور پہلو جس پر غور کرنا ضروری ہے وہ ہے ذہنی صحت۔ مختلف تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سوشل میڈیا کا مسلسل استعمال، خاص طور پر جب انسان خود کو دوسروں سے موازنہ کرتا ہے، ڈپریشن، اینزائٹی، اور احساسِ کمتری کو جنم دیتا ہے۔ ایک شخص جو دن بھر محنت کر رہا ہو، مگر سوشل میڈیا پر بیٹھ کر دوسروں کی "آسان" کامیابیوں کو دیکھے تو وہ خود کو ناکام محسوس کرنے لگتا ہے۔ حالانکہ اسے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کامیابی بھی ایک لمبے سفر کا نتیجہ ہو سکتی ہے، جسے صرف آخری مقام دکھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ پیار، رشتے، دوستی، حتیٰ کہ ازدواجی زندگی جیسے معاملات بھی اب سوشل میڈیا کے معیار سے متاثر ہو چکے ہیں۔ جب ایک جوڑا صرف خوشگوار لمحے پوسٹ کرتا ہے، تو دیکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی زندگی میں کوئی مسئلہ نہیں۔ وہ اپنی زندگی کے پیچیدہ لمحات کو نظرانداز کرتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ان کے رشتے میں ہی کچھ کمی ہے۔ یہ تقابل خطرناک ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ اصل مسائل کو چھپا دیتا ہے اور جھوٹی توقعات پیدا کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم سب اس فریب سے واقف ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر سب کچھ اصلی نہیں ہوتا، مگر پھر بھی ہم اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید ہماری فطرت میں ہے۔ ہم دوسروں سے بہتر دکھنا چاہتے ہیں، مقبولیت چاہتے ہیں، اور یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی بھی خوبصورت ہے۔ مگر یہ چاہت کب بے چینی میں بدل جاتی ہے، ہمیں خبر ہی نہیں ہوتی۔ اس "پرفیکٹ لائف" کے فریب نے ہماری زندگی سے وہ خوبصورتی چھین لی ہے جو خامیوں میں چھپی ہوتی تھی۔ اب ہم اپنی کمزوریوں کو چھپاتے ہیں، دکھ کو ظاہر کرنے سے کتراتے ہیں، اور صرف وہی دکھاتے ہیں جو قابلِ فخر ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہی اصل زندگی ہے؟ کیا زندگی صرف کامیابی، خوبصورتی، اور مسکراہٹوں کا نام ہے؟ یا پھر زندگی وہ ہے جس میں آنسو بھی ہوں، ناکامیاں بھی ہوں، اور سیکھنے کے لمحات بھی۔ سوشل میڈیا کی اس دنیا میں ہمیں اپنی حقیقت کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر لمحہ شیئر کیا جائے۔ ضروری نہیں کہ ہم دوسروں سے بہتر دکھنے کی کوشش کریں۔ اصل خوبصورتی تو اس میں ہے کہ ہم جیسے ہیں، ویسے ہی رہیں، بغیر فلٹر کے، بغیر دکھاوے کے، اور بغیر کسی جھوٹے معیار کے۔ سوشل میڈیا کا استعمال برا نہیں ہے، بلکہ اس کا استعمال کیسے کیا جائے یہ اہم ہے۔ اگر ہم اسے سیکھنے، جڑنے، اور مثبت پیغام پھیلانے کے لیے استعمال کریں تو یہ ایک طاقتور ذریعہ بن سکتا ہے۔ مگر اگر ہم صرف دکھاوے، مقابلے، اور مقبولیت کے پیچھے بھاگیں گے تو ہم خود کو کھو بیٹھیں گے۔ آج کے دور میں شاید سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ انسان اپنی اصل شناخت کے ساتھ جینے کی ہمت کرے۔ وہ سچ بولے، اپنی خامیوں کو تسلیم کرے، اور زندگی کے ہر پہلو کو قبول کرے — چاہے وہ خوبصورت ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ اصل خوشی مکمل دکھائی دینے میں نہیں، بلکہ مکمل محسوس کرنے میں ہے۔ ہمارے پاس انتخاب کا حق ہے۔ ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہم سوشل میڈیا کو اپنی حقیقت بنائیں یا اپنی حقیقت کو سوشل میڈیا سے محفوظ رکھیں۔ یہ فیصلہ ہمیں ہی کرنا ہے کہ ہم دکھاوے کی اس دوڑ میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا سکون کی اس دنیا میں رہنا چاہتے ہیں جہاں ہم خود کو جانتے ہوں، قبول کرتے ہوں، اور خود سے محبت کرتے ہوں، بغیر کسی فریب کے۔
"جہاں ہر چیز پرفیکٹ ہے — سوائے سچ کے!"
Apr 18, 2025