جنرل سید عاصم منیر کا اوورسیز پاکستانیوں سے روح پرور خطاب
تحریر: سردار عبدالخالق وصی
پاکستان کی سیاسی و عسکری تاریخ میں پہلی بار ایک ایسا لمحہ آیا، جسے قومی ہم آہنگی، اسٹیٹ کرافٹ اور وڑنری قیادت کی بہترین مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے مشترکہ طور پر دنیا بھر سے آئے اوورسیز پاکستانیوں کو اسلام آباد مدعو کیا، ان سے بالمشافہ ملاقات کی، ان کی قربانیوں کو سراہا اور انہیں قومی ترقی میں شراکت دار تسلیم کیا۔
یہ اقدام کسی فوری سیاسی فائدے یا وقتی تاثر کے لیے نہیں تھا، بلکہ یہ سابق وزیراعظم اور پاکستان کے مدبر راھنما محمد نواز شریف کی دی گئی قومی وڑن،وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف کی انتھک انتظامی مشینری، اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی قومی سلامتی اور فکری بالیدگی پر مبنی سوچ کا تواتر و تسلسل تھا۔
موجودہ حالات میں نواز شریف، شہباز شریف، سید عاصم منیر ایک ویثنری ٹرائیکا کا درجہ رکھتے ھیں
یہ قومی اقدام کسی ایک شخصیت کی سوچ کا مظہر نہیں، بلکہ اس کی جڑیں اس سیاسی و قومی وڑن میں پیوستہ ہیں جسے نواز شریف نے بطور تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم پیش کیا۔ نواز شریف نے اوورسیز پاکستانیوں کو نہ صرف قومی ترقی میں شراکت دار بنایا بلکہ انہیں پاکستان کا غیر رسمی سفیر اور قومی اثاثہ Asset National تسلیم کیا۔
وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے اس وڑن کو عملی صورت دی، اور ریاستی سطح پر ان کے لیے پالیسی و سہولیات فراہم کیں۔ اب جنرل سید عاصم منیر نے اس بیانیے کو ایک مکمل قومی سوچ کی شکل دے کر، نہ صرف عسکری قیادت بلکہ قومی قیادت کے ساتھ مل کر اسے وسعت دی ہے۔
اوورسیز پاکستانی: قومی سرمایہ، عالمی سفیر
اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 1 کروڑ سے زائد پاکستانی مختلف ممالک میں مقیم ہیں۔ صرف گزشتہ دہائی میں تقریباً 50 لاکھ نوجوان روزگار کی تلاش میں بیرون ملک گئے۔ کئی ہزار نوجوان مختلف راستوں میں، خاص طور پر سمندری غیر قانونی سفر کے دوران، اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے انکے والدین اور خاندان یہ غم و قلق سینے میں سموئے اجیرن زندگی بسر کر رھے ھیں کاش وہ قناعت پر گزارا کر لیتے تو شاھد اس صورت حال کا سامنا نہ ھوتا لیکن ھم "اللہ کو یہی منظور تھا" کے جملے کا سہارا دیکر نہ جانے کب تک ان حادثات کا شکار ھوتے رہیں گے۔
اوورسیز پاکستانی ہر سال 30 سے 35 ارب ڈالر سے زائد ترسیلات زر پاکستان بھیجتے ہیں، جو نہ صرف معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے بلکہ تجارتی خسارے کو کم کرنے، زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے اور مہنگائی پر قابو پانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
علاوہ ازیں، اوورسیز پاکستانی نہ صرف مغرب بلکہ مشرقِ وسطیٰ، امریکہ، برطانیہ، یورپ اور خلیجی ممالک کی سیاست، معیشت، تعلیم، ٹیکنالوجی اور سول سوسائٹی میں بھی بھرپور اور مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔
منفی رجحانات: سوشل میڈیا کا استعمال اور قومی نقصان
جنرل سید عاصم منیر کے خطاب کا ایک اہم پہلو سوشل میڈیا کے منفی استعمال پر تنبیہ تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ بعض عناصر، بیرونِ ملک بیٹھ کر پاکستان کے اندرونی سیاسی اختلافات کو ریاست مخالف بیانیے میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ افواجِ پاکستان، ریاستی ادارے، اور قومی قیادت کو نشانہ بنانے کا عمل دشمن کے بیانیے کو تقویت دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سلامتی، خودمختاری اور اداروں کی عزت و استحکام سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہونا چاہیے۔ اس طرح کی منفی سرگرمیاں صرف دشمنوں کو فائدہ دیتی ہیں اور اندرونی تقسیم کو گہرا کرتی ہیں۔
کشمیر و فلسطین: نظریاتی سرحدوں کی نگہبانی یہ جنرل سید عاصم منیر کی اوورسیز کے ساتھ گفتگو کا اھم موضوع تھا
جنرل عاصم منیر نے مسئلہ کشمیر کو پاکستان کی نظریاتی اساس قرار دیتے ہوئے اوورسیز پاکستانیوں پر زور دیا کہ وہ عالمی سطح پر کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے آواز بلند رکھیں۔ اسی طرح فلسطین کے مظلوم عوام کے ساتھ بھی بھرپور اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے مسلم امہ کے اتحاد اور کردار کی ضرورت پر زور دیا۔
بلوچستان: ترقی، امن، اور قومی یکجہتی
جنرل سید عاصم منیر نے اپنیخطاب میں بلوچستان کے حوالے سے بھی کھل کر بات کی۔ دشمن قوتیں بیرونِ ملک بیٹھ کر صوبے میں بدامنی کو ہوا دیتی ہیں۔ اوورسیز بلوچ برادری سے اپیل کی گئی کہ وہ ترقی، تعلیم، امن اور روزگار کے فروغ کے لیے اپنی توانائیاں وقف کریں۔
معاشی بحالی، زرعی انقلاب، اور سرمایہ کاری
پاکستان کو اس وقت جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے، وہ معاشی استحکام ہے۔ جنرل عاصم منیر نے اوورسیز پاکستانیوں کو دعوت دی کہ وہ نہ صرف سرمایہ کاری کریں بلکہ ٹیکنالوجی، علم اور جدید تجربات کو وطن منتقل کریں۔ حکومت اور ریاستی ادارے انہیں مکمل تحفظ، سہولت اور معاونت فراہم کریں گے۔
یہ تاریخی تقریب اور خطاب محض الفاظ نہیں، بلکہ ایک نئے پاکستان کی تصویر ہے — جہاں وڑن، عمل، اور قومی اتفاقِ رائے کو قیادت کی سطح پر ایک صف میں کھڑا کیا گیا ہے۔ یہ برین ڈرین کو برین گین میں بدلنے کی طرف پہلا قدم ہے۔
اب یہ صرف اوورسیز پاکستانیوں کی نہیں، بلکہ ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قومی بیانیے کو کامیاب بنائے، سیاسی و باھمی اختلافات کو ریاستی استحکام پر فوقیت نہ دے، اور دنیا کو یہ پیغام دے کہ:
"ہم ایک قوم، ایک سوچ، ایک وطن ہیں!"