ان دنوں پاکستان میں ختم نبوت اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے حوالے ہر جگہ بات ہو رہی ہے۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی معزز ارکان اسمبلی نے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ رکن اسمبلی سید عمران احمد شاہ نے جس غم اور بے بسی میں خود کو غیر سیاسی کہہ کر ناموس رسالت اور ختم نبوت پر جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ یقینی طور پر ہر پاکستانی مسلمان کی آواز ہے۔ وہ یقینی طور پر ہر مسلمان کی آواز ہے۔ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے نبی کریمؐ کی ناموس کے معاملے میں ہم کسی کو کم شدت یا کم جذبے والا قرار نہیں دے سکتے نہ ہمیں دینا چاہیے ہمیں یہ یقین ضرور رکھنا چاہیے کہ ہر مسلمان نبی کریم ؐ کی ناموس پر اپنی جان و مال قربان کرنے کا جذبہ رکھتا ہے۔ سیشن میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے نصاب میں ختم نبوت ؐکے حوالے سے کسی بھی قسم کی تبدیلی سامنے آنے پر فوری حکم جاری کرنے کا اعلان بھی کیا۔ علی محمد خان نے بھی ناموس رسالت ؐ کے حوالے سے جذبات سے بھرپور تقریر کی۔ مولانا صلاح الدین ایوبی نے بھی بھرپور انداز میں اپنا موقف پیش کیا انہوں نے مذہبی جماعتوں پر ہونے والی تنقید کا جواب بھی دیا یہی نہیں انہوں نے ارکان قومی اسمبلی کے حوالے سے بھی نہایت سخت الفاظ استعمال کیے۔ ملک میں اس حوالے سے گذشتہ چند روز کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ بھارت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت میں تبدیلی کے بعد میں نے جو کچھ ان صفحات پر لکھا اس کا بنیادی نقطہ یہی تھا کہ یہ مذاہب کی جنگ ہے اور یہ جنگ ایسے ہی ختم نہیں ہو سکتی ہاں یہ دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے کہ دنیا میں اب جنگ کیسے لڑی جا رہی ہے۔ فرانس میں جو کچھ ہوا یا اس سے پہلے ڈنمارک یا دیگر ممالک نے بھی جس ظالمانہ انداز میں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی اس کا پس منظر بھی مذاہب کی جنگ ہی ہے۔ دوسرا یہ کہ پاکستان کی مضبوط فوج کے دشمن صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ وہ اسلام اور پاکستان دونوں کے دشمن ہیں۔ اس حوالے سے بہت سے حقائق سے اپنے قارئین کو آگاہ کرتا رہتا ہوں لیکن آج ڈاکٹر مشتاق احمد کی ای میل نے میرے اس یقین کو مضبوط کیا ہے کہ واقعی ہم کسی وجہ سے نشانے پر ہیں اور وجہ صرف لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔
ڈاکٹر مشتاق احمد لکھتے ہیں" چودھری صاحب السلام علیکم امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے چونکہ سائرن کا مستقل قاری ہوں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے آپ کے کالم ایک درد مند مسلمان اور سچے پاکستانی کی آواز ہیں۔ ان دنوں بھی پاکستان پر ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں۔ ناموسِ رسالت کا مسئلہ بھی آپ کے سامنے ہے میں چند واقعات آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں ان واقعات کے بعد یقیناً معاملات کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ افواج پاکستان کے حوالے سے بھی منفی پراپیگنڈہ ضرور ہوتا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ ہمیں اپنے دفاع کے لیے مضبوط فوج کی ضرورت ہے۔ اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کو تاقیامت قائم و دائم رکھے اپنی بات کا آغاز کرتا ہوں۔ چودھری صاحب یہ ساٹھ کی دہائی کی بات ہے میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے گلاسگو میں تھا انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں پاکستان کی بہادر افواج نے جس شاندار انداز میں ملک کا دفاع کیا اور جس طرح ازلی دشمن بھارت کو ہر محا ذپر شکست دی، اس جنگ میں ہمارے فوجی جوانوں نے جرات و بہادری کی جو داستانیں رقم کیں وہ ہماری تاریخ کا روشن حصہ ہیں۔ جب یہ جنگ جاری تھی ان دنوں گلاسگو میں مقامی اخبارات پاکستانی فوج کی کارکردگی پر حیران تھے۔ وہاں اخبارات اس جنگ کی مکمل کوریج کر رہے تھے اور پاکستانی فوج کی کارکردگی پر تجزیے پیش کر رہے تھے۔ گلاسگو میں اخبارات یہ لکھ رہے تھے کہ پاکستانی فوج کی کارکردگی پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے یہ ملک مستقبل میں مسلمانوں کی بڑی طاقت بن سکتا ہے۔ بڑی مشکل سے ابھی خلافت کا خاتمہ ہوا ہے اگر اس ملک کو قابو نہ کیا گیا تو یہ ہم سب کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ میں ان دنوں پابندی کے ساتھ اخبارات کا مطالعہ کرتا تھا میں نے کہیں یہ نہیں دیکھا کہ وہاں پاکستانی فوج کی کارکردگی پر تنقید کی گئی ہو بلکہ وہاں ہماری فوج کی کارکردگی نے سب کو پریشان کر دیا تھا اور وہاں وہ لوگوں کو ہمیں مستقبل میں قابو کرنے کی تیاریاں شروع کر رہے تھے۔ یہ واقعہ اور آج کے حالات بھی آپ سامنے ہیں۔ دوسرا واقعہ مذہب کے حوالے سے ہے اور یہ واقعہ ان اسلام دشمنوں سے جڑا ہے جو آج دنیا میں جگہ جگہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کر رہے ہیں وہ ناصرف مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں بلکہ وہ اپنی مذہبی کتابوں کو بھی جھٹلا رہے ہیں۔ میں یونیورسٹی آف سٹارتھ کلے کا طالبعلم تھا۔یہاں ایک عیسائی مسلمان ہوا وہ یونیورسٹی میں فری لانس کام کرتا تھا کیونکہ مسلمان ہونے کے بعد اس کے ساتھ تعصب برتا گیا اور یہ اس نے خود بتایا کہ تمام ملازمتوں میں جہاں وہ بنیادی شرائط پر پورا اترتا تھا صرف اس لیے نظر انداز کیا جاتا رہا کہ وہ عیسائیت ترک کر کے مسلمان ہو چکا تھا۔ اس شخص نام مسلمان ہونے سے پہلے جمیز ڈکی تھا قبول اسلام کے بعد اس نے اپنا نام یعقوب ذکی رکھا۔ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد یعقوب ذکی مزید اسلامی تعلیم کے لیے جامعہ الازہر چلا گیا تھا جب وہ جامعہ الازہر سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گلاسگو واپس آیا تو اس نے سٹریتھ کلے یونیورسٹی میں
Prophet Muhammad (PBUH) mentioned in Bible. کے عنوان سے
ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔ اس سیمینار میں مجھ سمیت لگ بھگ سو نوجوان مسلمان طلباء اور مقامی چرچ کے ایک پادری کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ یعقوب ذکی نے اپنے بیان میں بائبل میں نبی کریم ؐ کے حوالے پیشگوئیوں کو سیمینار کے شرکاء کے سامنے رکھا اس نے بائبل کے تمام حوالوں کو کھل کر بیان کیا۔ حاضرین نے اس کی تقریر میں گہری دلچسپی لی۔ جب مقامی چرچ کے پادری کی باری آئی اور اس نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس نے تسلیم کیا کہ بائبل کے حوالے سے جن پیشگوئیوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ اس سے اتفاق کرتا ہے۔ پھر سوال و جواب کا مرحلہ آیا تو اس سے پوچھا کہ جب آپ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ نبی کریم ؐ کی ذات بابرکت کے حوالے سے بائبل میں ذکر موجود ہے تو پھر آپ اسے تسلیم کیوں نہیں کر لیتے اپنے ماننے والوں کو حقائق کیوں نہیں بتاتے اور انہیں اس راستے پر آنے کی دعوت کیوں نہیں دیتے تو اس پادری نے جواب دیا ہمارا صدیوں کا لٹریچر ہے، صدیوں کی محنت ہے، اس مسئلے پر ہم نے سینکڑوں جنگیں لڑی ہیں۔ ہم نے ایک ماحول بنایا ہوا ہے تو کیا ہم صدیوں کی اس محنت کو غلط مان لیں، خود ہی غلط ثابت کر دیں۔ یہ نہیں ہو سکتا، یہ ممکن نہیں ہے گوکہ یہاں جو بات ہوئی ہے وہ سب کچھ حقیقت ہر مبنی ہے لیکن اس کا کچھ نہیں ہو سکتا یہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ چودھری صاحب کیا یہ حقیقت دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں ہے وہ جو نبی کریم ؐ کی شان میں گستاخانہ خاکے شائع کرتے ہیں، کبھی ڈرامے بناتے ہیں کبھی اور حرکت کرتے ہیں دنیا بھر میں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں کیا وہ نہیں جانتے کہ ان کی اپنی مذہبی کتاب کیا کہہ رہی ہے۔ چودھری صاحب جب میں نے یہ سیشن اٹینڈ کیا اور پھر قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی تو یقین پختہ ہوا کہ حسد کی وجہ کیا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
ترجمہ۔بہت سے اہل کتاب اپنے دلوں کے حسد کی بنا پر یہ چاہتے ہیں کہ تمہارے ایمان لانے کے بعد تمہیں پلٹا کر پھر کافر بنادیں، باوجودیہ کہ حق ان پر واضح ہو چکا ہے چنانچہ تم معاف کرو اور درگذر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ خود اپنا فیصلہ بھیج دے۔ بیشک االلہ ہر چیز پر قادر ہے۔
یہ سورہ البقرہ کی آیت نمبر ایک سو نو ہے۔
چودھری صاحب اس کے بعد بھی ہم نہ سمجھ سکیں کہ نفرت کیوں ہے۔ جب قرآن کریم نے ان کے بارے فیصلہ کر دیا ہے تو پھر کسی دلیل کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ آپ نے کشمیر کی حیثیت کی تبدیلی کے دنوں میں اسے مذاہب کی جنگ قرار دے کر دو ٹوک بات کی تھی ناموس رسالت کا مسئلہ بھی عین مذاہب کی جنگ ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے کئی اور واقعات بھی لکھے ہیں وہ کل پیش کروں گا انہی واقعات اور ہمارے حالات کو دیکھتے ہوئے اس دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے چند تجاویز بھی کل کے سائرن میں قارئین اور حکومت پاکستان تک ضرور پہنچائی جائیں گی۔ یہ ہمارا مذہبی فریضہ ہے اس میں کوئی بھی کوتاہی انسانی خطا ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے اور ناموس رسالت، ختم نبوتؐ کے لیے کام کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024