بھارت یواین قراردادوں کیمطابق مسئلہ کشمیر حل کردے تو ہمارا اسکے ساتھ کیا تنازعہ ہے
یورپی پارلیمنٹ کا بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال پر سوال اٹھانے کا خوش آئند اقدام
یورپی پارلیمنٹ نے بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال پر سوال اٹھا دیا ہے۔ یورپی پارلیمنٹ کی خارجہ کمیٹی نے اس سلسلہ میں کہا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں اور خواتین کے حقوق خطرے میں ہیں۔ کمیٹی نے باور کرایا کہ کشمیر کی صورتحال پر بھی ہماری نظر ہے‘ بھارت اور پاکستان خطے میں استحکام رکھیں۔ ارکان یورپی پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے اس سلسلہ میں مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے مابین بین الاقوامی قانون کے اصولوں پر مبنی اچھے ہمسایہ تعلقات کی بحالی کیلئے نئے سرے سے کوشش کرے۔ اس حوالے سے یورپی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی میں ایک رپورٹ پیش کی گئی جس کے حق میں 61 ووٹ آئے جبکہ صرف چھ ممبران نے اس رپورٹ کی مخالفت کی اور چار ارکان نے ووٹ کا حق استعمال نہیں کیا۔ رپورٹ میں گزشتہ سال 8؍ مئی کو یورپی یونین اور بھارت کے مابین ہونیوالے مذاکرات کے تناظر میں خطے کے استحکام کیلئے پاکستان اور بھارت پر ازسرنو زور دینے کا تقاضا کیا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنائو میں کمی اور استحکام پیدا کرنے کیلئے یورپی یونین کی حمایت کا اعادہ کیا جائے۔
دوسری جانب دفتر خارجہ پاکستان نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات میں تیسرے فریق کی ثالثی درست ہو گی تاہم بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کیلئے بھارت کو مناسب ماحول پیدا کرنا ہوگا۔ اس سلسلہ میں ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چودھری کا کہنا تھا کہ کشمیر میں ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ جاری ہے‘ قابض فوج نے مزید سات کشمیریوں کو شہید کر دیا‘ اس بھارتی اقدام کی پاکستان مذمت کرتا ہے‘ عالمی برادری کشمیریوں کی منظم نسل کشی کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کرائے اور کشمیر میں مظالم کا نوٹس لے۔ انہوں نے گزشتہ روز اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں فوجی محاصرے کو چھ سو سے زائد دن ہوگئے ہیں۔ عالمی برادری بھارت کو مجبور کرے کہ وہ انسانی حقوق کی صورتحال بہتر بنائے۔ انہوں نے باور کرایا کہ پاکستان مذاکرات سے کبھی نہیں ہچکچایا‘ جموں و کشمیر سمیت تمام امور پر بات چیت کیلئے تیار ہیں۔ پاکستان بھارت بات چیت جب بھی ہوئی اس کا مرکزی موضوع جموں و کشمیر تنازعہ کا حل ہوگا جبکہ کسی بھی نئی مہم جوئی کی صورت میں ہم منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ امر واقع ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر ہی سب سے بڑا اور اصل تنازعہ ہے جبکہ یہ تنازعہ قیام پاکستان کے بعد خود بھارت نے آزاد ریاست جموں و کشمیر کا تقسیم ہند کے ایجنڈا کیمطابق پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیکر اور اس پر اپنا فوجی تسلط جما کر پیدا کیا تھا۔ اگر بھارت خوشدلی کے ساتھ پاکستان کی تشکیل قبول کرلیتا اور پرامن بقائے باہمی کے آفاقی فلسفہ کی بنیاد پر اسکے ساتھ دوطرفہ سازگار تعلقات قائم اور استوار کرلیتا تو خطے کے ان دو پڑوسی ممالک کے مابین کسی تنازعہ کی کبھی کوئی گنجائش ہی نہ نکل پاتی مگر بھارت کے ہندو انتہاء پسند لیڈروں کو جو اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھ رہے تھے‘ ایک آزاد اور خودمختار مملکت پاکستان کی بھارت کی کوکھ میں سے تشکیل قطعاً گوارا نہ ہوئی اور انہوں نے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کیلئے مختلف سازشوں کے تانے بانے بننا شروع کر دیئے۔ اس میں کشمیر پر تسلط سب سے بڑی بھارتی سازش تھی کیونکہ کشمیر کے راستے پاکستان آنیوالے دریائوں کا پانی روک کر اس کیلئے پاکستان کو بھوکا پیاسا مارنا زیادہ آسان نظر آیا تھا۔
اس تنازعہ کے نتیجہ میں ہی پاکستان بھارت دوطرفہ کشیدگی کا آغاز ہوا جس کے نتیجہ میں پاکستان اور بھارت کے مابین تین جنگوں کی نوبت آئی اور 71ء کی جنگ میں بھارت کو مکتی باہنی کی معاونت سے پاکستان کو دولخت کرنے کا موقع ملا۔ آج اسی مکتی باہنی کا کارکن نریندر مودی جو گزشتہ ماہ بھی بنگلہ دیش جا کر مکتی باہنی کی پاکستان توڑو تحریک میں عملی حصہ لینے کا فخریہ اعتراف کر چکا ہے‘ آج بھارت کا وزیراعظم ہے اور پاکستان کی سلامتی خدانخواستہ تاراج کرنا اسکے ایجنڈے میں شامل ہے اس لئے مودی کے دوسرے دور اقتدار میں بھی پاکستان بھارت کشیدگی میں کوئی کمی آنے کے بجائے اس میں اضافہ ہی ہوا ہے اور بھارت کی سول اور عسکری قیادتیں مقبوضہ وادی کو جموں اور لداخ کے دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنانے کے پانچ اگست 2019ء کے اقدام کے بعد آزاد کشمیر اور اس سے ملحقہ شمالی علاقہ جات بشمول گلگت بلتستان پر بھی بدنظریں گاڑے بیٹھی ہیں۔ اسی تناظر میں بھارت نے کنٹرول لائن پر سرحدی کشیدگی میں اضافے کیلئے تسلسل کے ساتھ یکطرفہ گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا ہے جس کے دوران دانستاً سول آبادیوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
اس بڑھتی کشیدگی کی بنیاد پر اقوام عالم اور عالمی اداروں کو علاقائی اور عالمی امن و سلامتی سنگین خطرات میں گھری نظر آئی تو انہوں نے پاکستان اور بھارت کے مابین تنازعات کے حل کیلئے دبائو بڑھانا اور دونوں ملکوں کے مابین ثالثی کے کردار کی پیشکشیں کرنا شروع کیں۔ اس حوالے سے سابق امریکی صدر ٹرمپ نے تو چار مختلف مواقع پر ثالثی کی پیشکش کی اور اسی طرح یورپی یونین کی جانب سے بھی ثالثی کی پیشکش ہوئی مگر بھارت نے ہر پیشکش کو رعونت کے ساتھ ٹھکرا دیا اور مقبوضہ وادی کو فوجی محاصرے میں دیکر کشمیریوں کو عملاً زندہ درگور کردیا جن کا رابطہ بھارتی فوجوں کے محاصرے کے 621 ویں روز بھی باہر کی دنیا سے منقطع ہے۔
کنٹرول لائن پر اگرچہ پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز کے مابین دو ماہ قبل طے پانے والے معاہدے کے باعث بھارتی فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ رکا ہوا ہے اور پاکستان اور بھارت کے مابین سازگار ماحول کی بحالی کیلئے عالمی برادری کوششیں بھی بروئے کار لا رہی ہے جس کا گزشتہ روز متحدہ عرب امارات کی جانب سے اعتراف بھی کیا گیا ہے تاہم سازگار ماحول کی بحالی کا انحصار مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارتی رویے پر ہی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسئلہ کشمیر کا مستقل اور پائیدار حل یواین سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں ہی ممکن ہے جبکہ اپنے ہی کھڑے کئے گئے اس مسئلہ کے حل کیلئے بھی بھارت خود ہی اقوام متحدہ گیا تھا۔ اگر اس وقت سے اب تک کے بھارتی طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو وہ کشمیریوں کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت دینے کو قطعاً آمادہ نظر نہیں آتا کیونکہ اس نے کشمیر پر بھارتی اٹوٹ انگ والی اپنی ہٹ دھرمی ختم کرنے کے بجائے مکمل طور پر اپنے زیرتسلط کشمیر کو ہڑپ کرلیا ہے اور اب اسکی نگاہیں پاکستان سے ملحقہ آزاد جموں و کشمیر پر بھی جمی ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کا شروع دن سے ہی یہ اصولی موقف برقرار ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل یواین قراردادوں پر عملدرآمد سے ہی ممکن ہے۔ اس کیلئے مذاکرات پر پاکستان ہمہ وقت تیار ہے اور خطے میں قیام امن کی خاطر پاکستان کی سول سیاسی اور عسکری قیادتوں نے بھارت کے ساتھ خیرسگالی کے تعلقات کیلئے پیش رفت کا عندیہ بھی دیا ہے تاہم تالی ایک ہاتھ سے تو نہیں بج سکتی۔ اگر بھارت یواین قراردادوں کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر حل کرنے پر آمادہ ہو تو کسی کی بھی ثالثی میں دوطرفہ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے جس کا دروازہ خود بھارت نے ہی بند کیا ہوا ہے۔ اس حوالے سے یورپی پارلیمنٹ کی خارجہ کمیٹی کی جانب سے بھارت پر اقلیتوں اور خواتین کے حقوق پر اور اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کی بات کرنا اور بھارت پر یہ مظالم ختم کرنے پر زور دینا خوش آئند ہے۔ اگر عالی قیادتیں اور ادارے سنجیدہ ہوں تو یواین قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر بھی حل ہو سکتا ہے اور پاکستان بھارت سازگار تعلقات کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے۔