اتوار ‘5 ؍ رمضان المبارک 1442ھ‘ 18؍ اپریل2021ء
پنجاب پولیس افسران کی تعلیمی اسناد کی چیکنگ
اگر یہ افواہ ہے تو بھی خاصی خطرناک ہے۔ اگرصحیح خبر ہے تو اس کے اثرات دوچند ہوں گے۔ ڈر ہے کہ اگر پنجاب پولیس کے افسروں کی تعلیمی اسناد کا بھی وہی حال ہوا جو پی آئی اے کے پائلٹس کی تعلیمی اسناد کا ہوا تھا تو کیا ہوگا بدنامی ساری ملک میں ہوگی۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کریں گے۔ اقرباپروری، سفارشی، سیاسی دبائو اپنی جگہ مگر یہ جو تعلیمی اسناد میں گھپلا ہے یہ ناقابل برداشت ہے۔ اب جو لوگ اس گھپلے کے مرتکب ہوں گے ان کے تو پیٹوں میں درد شروع ہوچکا ہوگا۔ پنجابی کی کہاوت ہے ’’جناں نے کھادیاں گاجراں ٹڈ انہاں دے پیڑ‘‘ سو اب وہ ادھر ادھر اپنے پیٹ کے درد کا علاج ڈھونڈ رہے ہوں گے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں دو نمبری اتنا زور پکڑ چکی ہے کہ ہمیں غلط کام کرتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ الٹا ہم بڑے فخر سے لوگوں کو قہقہے لگا لگا کر اپنی دونمبری کے قصے سناتے ہیں۔ تعلیمی اسناد کے معاملے میں بھی بعض نجی تعلیمی اداروں نے اسناد کی فروخت کی جو لوٹ سیل لگائی اس نے بھی ہمارے نظام میں جو تباہی پھیلائی ہے اس کے اثرات تادیر برقرار رہیں گے۔ پیسوں کے عوض لوگوں نے میٹرک، ایف اے، بی اے اور ایم اے تک کی ڈگریاں خرید لیں اور ان کے بل بوتے پر وہ سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے جس سے ان اداروں کی کارکردگی کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ اب ایسے تعلیمی اسناد رکھنے والے ہر سرکاری شعبے میں موجود ہیں اور بے دھڑک سے کام کررہے ہیں۔ اب ان کی گردنیں ناپنے کا وقت آگیا ہے تو شکنجہ ذرا کس کرفٹ کرنا ہوگا تاکہ انہیں فرار کا موقع نہ مل سکے۔
٭٭٭٭٭
ارطغرل غازی کی بدولت تیراندازی اور تلوار بازی سیکھنے کا شوق بڑھ گیا
ترکی کی یہ مشہور ڈرامہ سیریل دنیا کے کئی زبانوں میں ترجمہ کے ساتھ نشر ہوچکی ہے۔ آج کل پاکستان میں بھی اردو ترجمے کے ساتھ نشر ہورہا ہے۔ اس ڈرامے کی شہرت اس وقت عروج پر ہے۔ اس نے ہمارے مشہور عام ڈراموں وارث ، انکل عرفی، جھوک سیال، ان کہی جیسے لازول ڈراموں کی فہرست میں اپنی جگہ بنالی ہے۔ نیم خواندہ افراد تو اسے دیکھ کر باقاعدہ جذبہ جہاد میں آکر اللہ اکبر کے نعرے بھی لگاتے ہیں۔ اس طرح ازخود ان میں قرون اولی والا جذبہ جہاد بیدار ہورہا ہے۔ شاید اسی وجہ سے وزیراعظم نے بھی کہا تھا کہ ہم ٹی وی چینلز پر فحش لچر پاکستانی ڈراموں کا اثر ختم کرنے کیلئے ترکی جہادی ڈرامے پیش کررہے ہیں۔ ان کا اشارہ ارطغرل غازی کی طرف ہی تھا۔ ورنہ عشق ممنوع عائشہ گل، شجر ممنوعہ اور میری کہانی جیسے ڈرامے دیکھیں تو ہمیں پاکستانی تھیٹر والے ڈرامے یاد آنے لگتے ہیں۔ لیکن اب ارطغرل غازی کی وجہ سے ایک اچھا اثر نوجوانوں پر یہ ہوا ہے کہ ان میں تیراندازی اور تلوار بازی کا شوق بڑھ گیا ہے اور وہ ان میں بھی حصہ لینے لگے ہمارے ہاں تلوار بازی اور تیراندازی سکھانے والے اداروں کیلئے یہ خوشی کی بات ہے کہ اب نوجوان وہاں کا بھی رخ کررہے ہیں۔ اس سے کھیل کے میدانوں میں بھی نیا ٹیلنٹ سامنے آئے گا اور مثبت تفریح بڑھے گی۔ اور کچھ نہیں تو اچھے تیرانداز اور شمشیر زن سامنے آسکیں گے۔
٭٭٭٭٭
کپتان کا نیا نام اعلان خان تجویز کرتا ہوں:مرتضیٰ وہاب
سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کی ناراضگی اپنی جگہ وہ دراصل وزیراعظم کی طرف سے سندھ کے 14 اضلاع کیلئے 446 ارب روپے کے پیکج کے اعلان پر سیخ پا ہیں۔ انہیں غصہ ہے کہ وزیراعظم ہر سال سندھ آکر یہاں اربوں روپے کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیوں کرتے ہیں۔ اگر سندھ حکومت نے گزشتہ 12 برسوں میں سندھ کی خدمت کی ہوتی وہاں کے حالات بدلے ہوتے وہاں تعمیروترقی کی راہیں کشادہ ہوتیں تو آج وزیراعظم کو ایسے اعلانات نہ کرنے پڑتے۔ مگر سب دیکھتے ہیں کہ سندھ کی حالت کیا ہے کون سا شعبہ ایسا ہے جس میں قابل ذکر کام کیا گیا ہو۔ ان بارہ سالوں میں سندھ میں ’’لٹو تے پھٹو‘‘والی پالیسی ہی چل رہی ہے۔ بہرحال یہ وفاق اور سندھ حکومت کی اپنی اپنی دردسری ہے۔ دونوں ایک دوسرے پر الزام دھرتے ہیں، اپنے نمبر ٹانگنے میں لگے رہتے ہیں۔ اب مرتضیٰ وہاب نے تو وزیراعظم کے پے در پے ترقیاتی پیکجز سے تنگ آکر کہہ دیا ہے کہ وزیراعظم اپنے پرانے پیکجز پر عملدرآمد ہوتا ہی بتا دیں۔ پہلے 111 ارب کے پیکج سے کیا کام ہوا جو اب ہوگا اس لئے انہوں نے پے در پے اعلانات کی وجہ سے کپتان کیلئے اعلان خان کا نام تجویز کیا ہے۔ ان کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حس مزاح بھی رکھتے ہیں ورنہ ایسا ردیف قافیہ عام آدمی کہاں جوڑ سکتا ہے یہ تو کسی زرخیز ذہن کی ہی کارستانی ہوتی ہے۔ اس کا جواب اب پی ٹی آئی کے زرخیز ذہنوں پر بارہے دیکھتے ہیں وہ کب یہ حساب چکتا کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
بجلی چوری پکڑ نے والے ایس ڈی اواور لیسکو اور ملازمین کی پٹائی
کام تو بہت اچھا کررہے تھے یہ لیسکو ملازمین مگر ان کا طریقہ کار ذرا ٹیڑھا تھا۔ اس طرح تو رات کی تاریکی میں یا چور چھتوں پر چڑھتے ہیں یا پولیس والے کودتے ہیں۔ اس وقت بجلی کی چوری روکنا حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہے۔ لیسکو والے یا بجلی کی فراہمی سے متعلقہ یونٹس اگر ایمانداری سے سخت چیکنگ کریں تو 60 فیصد سے زیادہ بجلی کی چوری روکی جاسکتی ہے کیونکہ جہاں کنڈا ڈالا گیا ہومیٹر سست کیا گیا ہو، دوسروں کے میٹر سے تاریں جوڑ کر بجلی چرائی جارہی ہو وہاں فوری ایکشن لیتے ہوئے سخت سزا اور جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔ دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ لوگ دن رات کا بھی لحاظ نہیں کرتے اب تو کھلم کھلا ہمہ وقت بجلی چوری کرتے ہیں۔ یہ کام کرنے والے محلہ داروں یا لیسکو والوں سے بھی نہیں ڈرتے۔ محلہ والے مجبوراً خاموش رہتے ہیں اور لیسکو والے مٹھی گرم ہونے پر چپ رہتے ہیں۔ رات کو خاموشی سے چوروں اور پولیس والوں کی طرح کوٹھے ٹاپنے کی بجائے اگر درست راہ اپنائی جائے اور بروقت قانون کا سہارا لے کر ایسے گھروں پر چھاپہ مارا جائے تو وہ زیادہ بہتر ہے۔ اب تو گرمیاں ہیں دن رات بجلی کی چوری کا کام جاری رہے گا۔ بجلی چوری کرنے والوں کے ساتھ اس کام میں شریک لیسکو کے ملازمین کو بھی جرمانہ اورسخت سزا ملنی چاہئے۔ ہمیں اس لیسکو ایس ڈی او سے ہمدردی ہے جسے اچھا کام کرنے پر چورسمجھ کر نشان عبرت بنانے کی کوشش کی گئی۔ کسی بجلی چور کے گھر چھاپہ مارنا جرم نہیں بس طریقہ درست رکھنا ہوگا۔ شرم کی بات ان باقی ملازمین کیلئے ہے جو افسر کو تنہاپٹتا دیکھ کر بھاگ گئے۔