جہلم تاریخی اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے ایک طرف عسکری لحاظ سے ہر دور کی دفاعی تاریخ جہلم کے کردار کے بغیر ممکن نہیں صدیوں سے اس علاقے کے مکین سپہ گری میں گرانقدر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ اسے شہیدوں اور غازیوں کی دھرتی بھی کہا جاتا ہے۔ افواج پاکستان میں اس علاقے کی واضح نمائندگی ہے۔ منگلا ڈیم کی تعمیر کے وقت جہلم کے لوگوں کو برطانیہ اور یورپ میں جانے کا موقع ملا‘ آج جہلم کا کوئی خاندان ایسا نہیں جس کا کوئی فرد بیرون ملک مقیم نہ ہو یہاں کے باسیوں کا ہر لحاظ سے بڑا اہم کردار ہے۔ آجکل پاکستان کی سیاست پر چھائے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کا تعلق بھی اسی علاقہ سے ہے۔ دوسری جانب جہلم تاریخ ساز دھرتی ہے جہاں سیاحت کے خزانے موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے ہر دور میں ان خزانوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا۔ چند روز قبل پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے زیر اہتمام لاہور اور اسلام آباد کے صحافیوں نے جہلم کے مشہور تاریخی مقام قلعہ روہتاس کا دورہ کیا۔ صحافیوں کے وفد میں ملک سلمان، اشرف شریف، شہباز افضل، علی جنت، ایازاسلم،حنا چوہدری، فرزانہ اور مہرین شامل تھیں۔ ہم ڈپٹی کمشنر راو پرویز اختر کے مہمان تھے‘ جہلم پہنچنے پر ضلعی انتظامیہ نے ہمارا خیر مقدم کیا اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر وقار نے جہلم میں سیاحتی ورثہ کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔ خوش آئند بات یہ تھی کہ راو پرویز اختر نے اپنی ذاتی کاوشوں سے جہلم میں 65 کنال پر ڈویڑنل پبلک سکول قائم کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اس منصوبہ میں سرکاری زمین کے علاوہ خزانے سے کوئی پیسہ نہیں لیا گیا یہ سکول جہلم کی شناخت بنے گا۔ اس کاوش پر ہم راو پرویز اختر کو جہلم کا سر سید کہہ سکتے ہیں۔ ہمیں یہ جان کر بھی خوشی ہوئی کہ ضلعی انتظامیہ جہلم کے تاریخی سیاحتی مقامات کو بحال کرنے اور سیاحت کو فروغ دینے کیلئے بہت اہم اقدامات اٹھا رہی ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ جہلم میں ہندو سکھ اور اسلام تینوں مذاہب کی تاریخی نشانیاں موجود ہیں اگر حکومت ان تاریخی مقامات کی بین الاقوامی سطح پر مارکیٹنگ کرے تواسے غیر ملکی سیاحوں کی دلچسپی کا گڑھ بنایا جا سکتا ہے۔ بلا شبہ موجودہ حکومت سیاحت پر بہت توجہ دے رہی ہے۔ اندرون ملک اور بیرون ملک سیاحوں کی دلچسپی کے مواقع پیدا کیے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے تاریخی اہمیت کے حامل نندنہ فورٹ کا دورہ کیا‘ یہاں شاہراہ ورثہ کا افتتاح کیا یہ سڑک علاقے میں سیاحت کے فروغ کیلئے اہم پیش رفت ہے۔ یہ سڑک قلعہ نندنہ سے شروع ہو کر شیوا مندر، ٹلہ جوگیاں کھیوڑا میں نمک کی کانوں سے ہوتی ہوئی قلعہ ملوٹ اور کلر کہار میں تخت بابری تک جائے گی جس سے سیاحت کو فروغ ملے گا قلعہ نندنہ میں تاریخ ساز البیرونی کی لیبارٹری موجود ہے جہاں بیٹھ کر البیرونی نے زمین کا قطر ماپا تھا۔ ڈی سی جہلم کا کہنا تھا کہ وہ وزیراعظم کو ٹلہ جوگیاں کے وزٹ کیلئے آمادہ کر رہے ہیں۔ ٹلہ جوگیاں کے بارے میں آج کی نسل فوجی مشقوں اور اہم دفاعی ٹیسٹوں کے حوالے سے جانتی ہے لیکن یہ جگہ آثار قدیمہ کے حوالے سے بین الاقوامی اہمیت کی حامل ہے۔ ٹلہ جوگیاں کے آثار 5 سے7ہزار سال پرانے ہیں یہ ٹلہ قبل مسیح بھی آباد تھا قدیم زمانے میں یہاں سورج کی پوجا کی جاتی تھی۔ یہاں جوگی جوگ تیاگ کرتے تھے‘ یہ جگہ ایک لحاظ سے اس وقت کے سائنس دانوں کی یونیورسٹی تھی ان ہی جوگیوں نے اپنی تحقیق سے دیسی جڑی بوٹیوں سے دیسی طریقہ علاج دریافت کیا۔ ایورو ویدک طریقہ علاج متعارف کروایا جڑی بوٹیوں سے علاج علم نجوم اور یوگا کی ایجاد ہے۔
یوگا بھی اسی دھرتی کی ایجاد ہے کہا جاتا ہے کہ ہندو مذہب کے کئی کرداروں کا جنم بھی یہیں ہوا ہے سکھوں کے مذہبی پیشوا بابا گورونانک جی نے بھی یہیں چلہ کاٹا انکے قدموں کے نشان بھی ایک راستے پر پائے جاتے ہیں جنہیں اب محفوظ کیا جا رہا ہے۔ گورونانک کے چلہ کاٹنے والی جگہ پر بعد میں راجہ رنجیت سنگھ نے ایک یادگار تعمیر کروائی جو حضرت قائد اعظم کے مزار سے بہت مشابہت رکھتی ہے۔ پنجاب کی مشہور لوک داستان ہیر رانجھا کے کردار رانجھا نے بھی یہیں کان چھدوا کر یا کٹوا کر جوگی کا روپ دھارا یہاں جوگ کرنے والوں میں بدھ مت، مسلمان، ہندو اور سکھ چاروں مذاہب کے جوگی شامل ہوتے تھے۔ ٹلہ جوگیاں کو ماضی میں کوہ بال ناتھ بھی کہا جاتا تھا۔ مسلمان اور ہندو بادشاہ راجے مہا راجے اپنی مرادوں کے حصول کیلئے یہاں آتے تھے۔ سیاحوں کیلئے سب سے آسان رسائی والی جگہ قلعہ روہتاس ہے جو اسلام آباد جیسے انٹرنیشنل شہر سے قریب ہے اور موجودہ جی ٹی روڈ سے 5 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ پاکستان کا دوسرا بڑا قلعہ ہے۔ شیر شاہ سوری نے 1542 میں اس قلعہ کی بنیاد رکھی تھی چار سو ایکڑ پر مشتمل اس قلعہ کی تعمیر میں 3لاکھ مزدوروں نے حصہ لیا اس میں 60 ہزار فوجی قیام کر سکتے تھے۔ اکبر بادشاہ کے سسر مان سنگھ کی حویلی بھی اسی قلعہ میں ہے۔جودھا رانی کی بہن کی سمادھی بھی اسی قلعہ میں ہے قلعہ کے قریب ہی خیر النساء کا مقبرہ بھی ہے۔ تاریخی اہمیت کے اس قلعہ کو دیکھ کر بڑا دکھ ہوا کہ ہمیں چیزوں کی قدر نہیں۔ قلعہ بری طرح شکست وریخت کا شکار ہے جگہ جگہ سے دیواریں ٹوٹ چکی ہیں۔ قلعہ کے اندر بڑی تعداد میں آبادی قائم ہے۔ ان تجاوزات کے باوجود اس قلعہ میں دیکھنے کے لیے دلچسپی کی بہت زیادہ چیزیں ہیں۔ خاص کر لینڈ سیکپنگ کے مناظر اور طرز تعمیر اپنے اندر ایک چاشنی رکھتی ہے۔ موجودہ حکومت اور انتظامیہ نے اسکی بحالی پر توجہ دی ہے اور اسے ٹورسٹ پوائنٹ بنانے کیلئے بہت اچھے اقدام کیے ہیں۔ سیاحوں کی دلچسپی کیلئے ایک پرائیویٹ کمپنی نے قلعہ سے تھوڑی دور ایک زپ لائن بنائی ہے جسے راجہ وقار آپریٹ کر رہے ہیں جو فنی صلاحیتوں کے علاوہ دلچسپ گفتگو کے ماہر ہیں زپ لائن کی رائیڈ کا اپنا مزہ ہے اور اسکے قریب ہی راجہ عمران نے اپنی ذاتی زمین پر ریزارٹ بنانے ہیں جہاں قدرتی ماحول کو محفوظ کیا گیا ہے۔
جنگل میں اتنے خوبصورت ریزارٹ خاموشی اور سکون پرندوں کی چہچہاہٹ، بچوں کی تفریح کا سامان سب قابل تعریف ہیں ہمارا ون ڈے ٹرپ تھا لیکن تحریک لبیک کی جانب سے جی ٹی روڈ کی بندش کے باعث ہم نے رات اس ریزارٹ پرگزاری رات کا ڈنر ڈپٹی کمشنر راو پرویز اختر اور انکے ہونہار ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر وقار کے ساتھ کیا ہم بیورو کریسی پر بڑی تنقید کرتے ہیں لیکن میں نے فرض شناسی کا جو مظاہرہ جہلم میں دیکھا وہ قابل تحسین ہے یقین کریں کہ میں نے فرض شناسی میں تڑپتے ہوئے دیکھا۔ سڑکیں بلاک ہونے کی وجہ سے کرونا کے مریضوں کیلئے لاہور سے آنیوالے گیس سلنڈر کے ٹرک گوجرانوالہ اور کھاریاں میں روک لیے گئے تھے اور جہلم کے ہسپتالوں میں آکسیجن گیس کے سلنڈر رات 12 بجے تک کے تھے راو پرویز اختر نے وزیر صحت پنجاب عسکری اداروں متعلقہ اضلاع کی پولیس اور انتظامیہ کے افسران سے رابطے اور ہر ممکن طور پر 12 بجے رات سے قبل سلنڈر پہنچنے کو ممکن بنانے کیلئے انکی جان پر بنی ہوئی تھی۔ آخر کار انھوں نے گوجرانوالہ کی انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے ٹرک ریلوے اسٹیشن گوجرانوالہ منگوایا ریلوے حکام سے رابطہ کر کے گیس سلنڈر ریل کے ذریعے جہلم منگوائے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر وقار سول سروس کے وہ ہیرے ہیں جس پر بیورو کریسی مان کر سکتی ہے وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں وکالت کی تعلیم انھوں نے حاصل کر رکھی ہے سول سروس کا امتحان نمایاں کامیابی سے پاس کیا بلکہ دو بار پاس کیا پہلے پولیس سروس جائن کی طبیعت کے ساتھ مطابقت نہ ہونے پر دوبارہ سی ایس ایس کر کے ڈی ایم جی گروپ جائن کیا لیکن ان کی شریک حیات پولیس گروپ سے ہیں اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ گھر میں ڈی ایم جی گروپ حاوی ہے یا پولیس گروپ لیکن پولیس اور انتظامیہ کے اختیارات پر بحث ضرور ہوتی ہو گی۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024