سبسڈی کے لالی پاپ کا مذاق بند کیا جائے
رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں عوام کو دوہرے عذاب کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ ایک جانب گرم موسم میں بجلی کی غیر اعلانیہ طویل لوڈ شیڈنگ نے زندگی اجیرن کر رکھی ہے تو دوسری جانب مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہوئی عوام رمضان میں سحری اور افطار کے لیے اشیائے خورد و نوش سے بھی محتروم ہو تی جا رہی ہے ۔ کہنے کو وفاقی حکومت کی جانب سے رمضان المبارک میں 7.8 ارب روپے کے رمضان پیکج کی منظوری دی گئی تھی جس کے تحت یوٹیلیٹی اسٹورز پر 19 اشیاپر سبسڈی دیے جانے کا اعلان کیا گیا تھا ۔حکومت کا یہ اعلان محض اعلان ہی ثابت ہوا ۔ یوٹیلٹی اسٹورز جیسے کرپٹ ترین ادارے کے افسران اور بیورو کریسی نے اس رمضان پیکج کو بھی لوٹ مار کی نذر کردیا ۔بیورو کریسی اوریوٹیلٹی اسٹورز کی کرپٹ مافیا کی وجہ سے وزیراعظم کے ان اعلانات کے ثمرات سے عوام اب تک محروم ہیں۔عوام اس وقت بد ترین بے روزگاری اور مہنگائی کا سامنا کررہی ہے ۔ غریب طبقے کی قوت خرید نہ ہو نے کے برابر رہ گئی ہے ۔ حکومت اپنے بیانات میں خود اس بات کا اعتراف کرتی رہتی ہے ۔صدر مملکت ، وزیر اعظم ، وافاقی وزرا سمیت تمام حکومتی ترجمان اپنی تقریروں میں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ حکومت جلد ہی معاشی ابتری پر قابو پالے گی ۔ حکومت اب تک دو وفاقی وزیر خزانہ تبدیل کر چکی ہے لیکن معاشی صورتحال میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آرہی ہے ۔اعداد وشمار کے ذریعے حکومت ایک جانب دعوے کرتی ہے کہ اقتصادی بہتری آرہی ہے اس کے ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کرتی ہے کہ مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے تو اس کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے ؟ اس کا واحد حل یہ ہے کہ عوام کی قوت خرید میں اضافہ کیا جائے ۔عوام کی وقت خرید میں اضافہ معاشی پہیہ کو تیز رفتاری سے چلاکر اور حکومتی پالیسیوں میں پائے جانے نقص دور کرکے ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔سبسڈیز کے ذریعے قوموں کی تقدیر نہیں بدلتی ۔ پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے لیے جتنے بھی اقدامات کیے جاتے ہیں ان سے کرپشن ختم تو نہیں ہوتی البتہ اس میں اضافہ ضرور ہو جاتا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف جو صرف احتساب کے نعرے پر کرپشن ختم کرنے کے لیے سیاست میں آئی تھی آج تقریبا 3سال سے اقتدار میں ہے اور اس پورے دور میں کرپشن میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے ۔وقت تیزی سے گزر رہا ہے ،حالات میں تبدیلی کے دعوے تو کیے جا رہے ہیں لیکن تبدیلی ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ کیا ہے کہ تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے ؟موجودہ حکومت ملک میں پائی جانے والی ہر خرابی کی ذمہ داری سابقہ حکومتوں پر ڈالتی ہے ۔ چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ سابقہ حکومتیں خراب تھیں ان کا طرز حکمرانی غلط تھا ۔ وہ درست طریقے سے حکومت نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے مسائل بڑھتے گئے ۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے کون سا کام ایسا کیا ہے جو سابقہ حکومتوں سے مختلف ہے ۔ سابقہ حکومتیں عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لے کر قوم کو مقروض کرتی رہیں ؟ موجودہ حکومت نے ان ہی مالیاتی اداروں سے ریکارڈ قرض لیا ہے اور دعوی یہ ہے کہ حالات بہتر ہو جائیں گے ؟سابقہ حکومتوں میں کرپشن ہوتی تھی جس کہ وجہ سے حکومتی خزانہ چند خاندانوں کے قبضے میں چلاجاتا تھا ۔ موجودہ حکومت نے اپنے دورِ اقتدار میں اس کو کس حد تک روکا ہے ؟ شوگر مافیا ، آٹا مافیا ؟ پیٹرول مافیا ؟یہ وہ تین مافیاز ہیں جنہوں نے گذشتہ 3سالوں میں موجودہ حکومت کی رٹ کی دھجیاں بکھیر دی ہیں ۔حکومت محض دعوے کررہی ہے ابھی تک عملی طور پر کسی کا احتساب نہیں کیا گیا ۔سابقہ حکومتیں رمضان المبارک میں یو ٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے سبسڈی دیا کرتی تھیں ۔موجود ہ حکومت بھی یہی کچھ کر رہی ہے ۔ سابقہ حکومتیں یہ قدم اپنے من پسند افراد کو نوازنے کے لیے اٹھاتی تھیں موجودہ حکومت بھی یہی کررہی ہے تو عوام کہاں جائیں ؟ خدارا یہ سبسڈی کا لالی پاپ دینے کا سلسلہ بند کیاجائے ۔ عوام کے ساتھ بہت مذاق ہوگیا اب عوام مزید اس کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کی انتظامیہ کی نااہلی و مبینہ کرپشن کے باعث غریب عوام کو ملنے والی اس سہولت سے استفادے کا حق چھین لیا گیاہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز میں ہونے والی ان بے قاعدگیوں کا نوٹس لیکر کرپشن میں ملوث عملے کوسخت سزا دی جائے۔اس بات یقینی بنایاجائے کہ عوام کی قوت خرید میں اضافہ ہو اس کے لیے حکومت اپنے اقتصادی پلان میں بنیادی تبدیلیاں کرے ورنہ حکومت کی مدت محض اعلانات کرتے کرتے ہی پوری ہاجائے گی ۔ موجودہ حکومت اگر احتساب نہ کر سکی تو آئندہ الیکشن میں عوام کو تحریک انصاف کا احتساب کرنے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔